پاناما لیکس: وزیراعظم اور بچوں نے دستاویزات جمع کرادیں
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں نے دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران وزیراعظم اور ان کے بچوں کی جانب سے 400 صفحات سے زائد پر مشتمل دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئیں۔
دستاویزات میں وزیراعظم نواز شریف کے ٹیکس ادائیگی سمیت زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات شامل ہیں۔
دوسری جانب زمینوں کے انتقال نامے بھی دستاویزات میں شامل کیے گئے ہیں۔
عدالت میں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ پیش ہوئے، وزیراعظم کے بچوں نے اپنے جواب میں کہا کہ جلاوطنی کے بعد قطر کے الثانی خاندان کو سرمایہ کاری کی رقم واپس حسین نواز کو دینے کا کہا گیا، 2006 میں الثانی خاندان نے سرمایہ کاری کے بدلے لندن کے فلیٹس حسین نواز کے نام کر دیئے اور حسین اور مریم نواز کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا۔
چیف جسٹس نے اکرم شیخ سے وزیراعظم کے بچوں کے مکمل جواب جمع نہ کرانے کے حوالے سے استفسار کیا اور کہا کہ اگر ریکارڈ جمع نہیں کرانا تو ہمیں بتا دیں۔
جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ ہمیں ریکارڈ دینا ہے لیکن کچھ وقت دیا جائے، ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے دو بچے ملک سے باہر ہیں، تمام دستاویزات مہیا کردی ہیں، صرف ایک دستاویز جمع نہیں کروائی۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ اگر ریکارڈ دینا ہے تو آج ہی دیں، بعدازاں جواب جمع کرانے کے لیے جمعرات 17 نومبر تک کی مہلت دے دی گئی۔
تاہم پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان کی جانب سے مزید دستاویزات دینے کی اجازت دینے کی مخالفت کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب تمام ریکارڈ آنے دیں۔
سماعت کے دوران درخواست گزار طارق اسد ایڈووکیٹ نے مقدمے کو جلد از جلد مکمل کرنے کی استدعا کی۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہا کہ اگر 800 افراد کی تحقیقات شروع کی گئیں تو یہ کام 20 سال میں بھی مکمل نہیں ہوگا، ان کا مزید کہنا تھا کہ دستاویزات آ گئی ہیں، اب اگلا قدم کمیشن کی تشکیل ہے۔
طارق اسد ایڈووکیٹ نے کہا کہ صرف ایک شخص کا احتساب کیا گیا تو یہ تفریقی عمل ہوگا۔
جماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے کمیشن میں سب کو موقع دینے کی استدعا کی گئی، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ پہلے آپ نے 4 فلیٹس کی انکوائری کا کہا اب 600 صفحات جمع کروادیئے ہیں، ان دستاویزات کا نہ کوئی سر ہے نہ ہی کوئی پیر، کمیشن سارے ریکارڈ کا جائزہ لے گا تو مکمل نہیں ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد معاملہ نمٹایا جائے۔
بعدازاں کیس کی سماعت جمعرات 17 نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
قطری شہزادے کا تحریری بیان
سپریم کورٹ میں قطر کے سابق وزیر خارجہ کا خط بھی پیش کیا گیا۔
عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جبر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔'
قطری شہزادہ حماد بن جاسم بن جبر الثانی کا کہنا تھا کہ '1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔'
حماد بن جاسم بن جبر الثانی نے کہا کہ 'لندن کے چار فلیٹس دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں میاں نواز شریف کے والد نے اپنی زندگی میں ہی کاروبار حسین نواز کو دینے کی خواہش کی تھی، جس کے بعد 2006 میں الثانی فیملی اور حسین نواز کے درمیان لندن پراپرٹی کے معاملات طے پائے۔'
کمیشن کا فیصلہ پرسوں ہوگا، شیخ رشید
سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ پرسوں (17 نومبر) کو اس بات کا فیصلہ کیا جائے گا کہ پاناما لیکس کے معاملے پر تحقیقاتی کمیشن قائم کیا جانا چاہیئے یا نہیں۔
شیخ رشید نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ انھیں سپریم کورٹ میں معزز جج کی جانب سے مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر وکالت اختیار کرلیں۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس: شریف خاندان کے خلاف شواہد سپریم کورٹ میں جمع
گذشتہ سماعتیں
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 20 اکتوبر 2016 کو وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی تھی، بعدازاں اس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری
28 اکتوبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ لارجر بینچ میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس امیرہانی مسلم، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔
یکم نومبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) پر تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 3 نومبر تک ملتوی کردی تھی۔
مزید پڑھیں: پاناما لیکس پر سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل
3 نومبر کی سماعت میں وزیر اعظم کی جانب سے ان کے وکیل نے جواب داخل کرایا جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے بھی اپنے ٹی او آرز جمع کرائے تھے۔
عدالت نے وزیراعظم کے بچوں کی جانب سے جواب داخل نہ کرائے جانے پر برہمی کا اظہار کیا تھا اور وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ کی سرزنش کی تھی جبکہ جواب داخل کرنے کے لیے 7 نومبر تک کی مہلت دی تھی۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے کمیشن کے حوالے سے سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں اپنے ٹی او آرز جمع کروائے جبکہ وزیراعظم کے داماد کیپٹن (ر) صفدر نے بھی اپنا جواب اور ٹی او آرز عدالت عظمیٰ میں جمع کرادیا تھا۔
7 نومبر کی سماعت میں وزیراعظم کے بچوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر نے جواب داخل کرائے تھے۔
یہاں پڑھیں: پاناما لیکس کیس: وزیراعظم کے بچوں نے جواب جمع کرادیئے
اس کے بعد چیف جسٹس نے تمام فریقین کو ہدایت کی تھی کہ وہ 15 نومبر تک دستاویزی شواہد پیش کریں جبکہ کیس کی سماعت بھی 15 نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے پاناما لیکس کیس کے حوالے سے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کے خلاف شواہد پر مشتمل دستاویز سپریم کورٹ میں جمع کرائے تھے۔
دوسری جانب گذشتہ روز وزیراعظم کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کی جانب سے وکیل تبدیل کرنے اور سینئر قانون دان بیرسٹر اکرم شیخ کی خدمات حاصل کرنے کی درخواست دی گئی تھی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں سابق اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ وزیراعظم اور ان کے بچوں کا دفاع کررہے تھے، تاہم سلمان اسلم بٹ وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل برقرار رہیں گے۔