• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کی توقع نہیں: نیپرا

شائع November 12, 2016

اسلام آباد: نیشل الیکٹرک پاور کمپنی اتھارٹی (نیپرا) نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے 2018 تک لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعووں کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیشر ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ سسٹم کی بہتری کے پروجیکٹس مقررہ شیڈول سے بہت پیچھے چل رہے ہیں۔

نیپرا کی جانب سے پیش کی جانے والی خصوصی ’وزٹ رپورٹ‘ میں کہا گیا کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے کئی ترقیاتی منصوبے تاخیر کا شکار ہیں اور منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر سے قومی خزانے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

یہ رپورٹ این ٹی ڈی سی کے پاور پروجیکٹس ، ٹرانسفارمرز اور ٹرانسمیشن لائنز کے لوڈنگ پوزیشن، موجودہ نظام میں توسیع کے منصوبوں اور دیگر مسائل کے جائزوں پر مبنی ہے۔

اس رپورٹ کو نومبر 2015 میں حتمی شکل دی گئی تھی اور منظر عام پر لانے سے قبل اسے این ٹی ڈی سی کے مشاورتی عمل سے ایک سال تک گزارا جاتا رہا۔

نیپرا کے مطابق بجلی کی ترسیل کا نظام پاور پلانٹس کی کمرشل آپریشن سے کم سے کم 6 ماہ پہلے تیا رہونا چاہیے تاکہ آزمائشی مرحلے میں اس کی بلا تعطل فراہمی اور معاشی فوائد کا جائزہ لیا جاسکے لیکن بڑی ٹرانسمیشن لائن اور ٹرانسفورمیشن سسٹم پروجیکٹس 6 سے تین سال کی تاخیر کا شکار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لوڈ شیڈنگ کے 2017ء میں خاتمے کا عزم

اس کا مطلب یہ ہے کہ 18-2017 تک اضافی 4500 میگا واٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت دستیاب ہوگی لیکن اضافی بجلی کو برداشت کرنے کے لیے مناسب ترسیلی سہولتیں موجود نہیں ہوں گی اور نتیجتاً اسے غیر بھروسے مند متبادل لائنز پر منتشر کرنا پڑے گا۔

نیپرا کا کہنا ہے کہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں شارٹ فال پر تو کسی حد تک قابو پالیا جائے گا لیکن پورے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں لوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوگی۔

بڑے جنریشن پروڈکٹس جیسے 1320 میگا واٹ کا پورٹ قاسم کول پروجیکٹ، 1320 میگا واٹ کا سینو سندھ ریسورسز، 660 میگا واٹ کا اینگرو تھر کول اور 1320 میگا واٹ کا جامشور کول پروجیکٹ جون 2017 سے قبل پیداواری مرحلے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہوں گے لیکن کنورژن، سوئچنگ اور ٹرانسمیشن سسٹم کے جون 2018 سے قبل مکمل ہونے کی توقع نہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 220 اور 500 کلو واٹ استعداد کے 9 بڑے ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ اسٹیشن پروجیکٹس برائے چشتیاں، ویہاڑی، گجرات، لاہور، رحیم یار خان، شیخو پورہ، ڈیرہ مراد جمالی اور کوٹ لکھپت کو معاہدے کے تحت 2012 سے جون 2015 کے درمیان مکمل ہوجانا چاہیے تاہم یہ پروجیکٹس اب بھی تکمیل سے کافی دور ہیں۔

نیپرا کا کہنا ہے کہ ’سسٹم میں پائی جانے والی خامیاں اور رکاوٹیں اس کی معتبریت کو خطرات لاحق کردیے ہیں اور قومی مفادات کے منصوبوں کی تکمیل کی تاریخ میں بار بار توسیع کی روش کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے‘۔

پروجیکٹس کی غلط ہینڈلنگ

نیپرا نے این ٹی ڈی سی پر نیشنل پاور کنٹرول سینٹر (این پی سی سی) اور سپروائزری کنٹرول اینڈ ڈیٹا ایکوئزیشن (اسکاڈا) کی اپ گریڈیشن کے منصوبوں کو غلط طریقے سے ہینڈؒل کرنے کا الزام عائد کیا جبکہ یہ دو منصوبے پاور استحکام کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’اسکاڈا پروجیکٹ میں اس وقت 41 سے 51 ریموٹ ٹرمینل یونٹس (آر ٹی یوز)کی کمی سامنا ہے اور آر ٹی یوز کی موجودہ تعداد کے ساتھ اسکاڈا کا سسٹم بجلی کے نظام کی ریئل ٹائم مانیٹرنگ یا این پی سی سی میں مناسب لوڈ فلو اسٹڈیز کے لیے غیر موثر دکھائی دیتا ہے‘۔

مزید پڑھیں: لوڈ شیڈنگ 2020 تک رہے گی، نیپرا

مزید برآں، 500 میگا واٹ کے جھمپیر اور گھارو ونڈ کلسٹر، 969 میگا واٹ کے نیلم جہلم، 600 میگا واٹ کے قائد اعظم سولر اور تھر کے تمام کوئلے پر مبنی منصوبوں کو آپس میں منسلک کرنے کا انتظام مارچ اور جون 2016 کے درمیان مکمل ہوجانا چاہیے تھا لیکن ستمبر 2015 تک اس پر صفر سے 47 فیصد ہی پیش رفت ہوئی تھی۔

نیپرا نے 220 کلو واٹ اور 500 کلو واٹ کے نیٹ ورک میں فالٹ اور ٹرپنگ کی وجہ سے ہونے والی مالی نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے سسٹم کے قیام کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ این ٹی ڈی سی کے پاس ٹرانسمیشن لاسز کو کم کرنے لیے کوئی پلان موجود نہیں جبکہ این ٹی ڈی سی کے تقریباً تمام اسٹیشنز پر فالٹ ریکارڈرز خراب پڑے ہوئے ہیں۔

نیپرا کا کہنا ہے کہ این ٹی ڈی سی سے کہا گیا تھا کہ وہ اس جائزہ رپورٹ پر اپنا موقف جمع کرائے تاہم اس نے نیپرا کے جائزدوں کو چیلنج نہیں کیا۔

اس کے برعکس این ٹی ڈی سی نے یہ انکشاف بھی کردیا کہ 220 کلو واٹ کرسچین سب اسٹیشن، ویہاڑی گرڈ اسٹیشن ایکسٹینش پروجیکٹ، گجرات سب اسٹیشن، 500 کلو واٹ نیو لاہور رحیم یار خان گرڈ اسٹیشن، 500 کلو واٹ سوئچنگ اسٹیشن مورو اور 500 کلو واٹ کے لاہور گرڈ اور رحیم یار خان – شیخوپورہ گرڈ ایسوسی ایٹڈ ٹرانسمیشن پر تعمیراتی کام کی تکمیل کی تاریخ میں مزید توسع کردی گئی ہے۔

اسی طرح لاہور مٹیاری ٹرانسمیشن لائن جو تھر اور پورٹ قاسم سے 4500 میگا واٹ بجلی لاہور اور ملک کے بالائی علاقوں تک بجلی پہنچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے،اس پر کام شروع ہونا ابھی باقی ہے۔

نیپرا کا کہنا ہے کہ 404 میگا واٹ کا اوچ پروجیکٹ سب سے زیادہ کفایتی تھا جس کا افتتاح اپریل 2014 میں ہوگیا تھا لیکن اس کی 125 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن اب تک مکمل نہیں ہوئی جس کی وجہ سے محفوظ اور قابل بھروسہ طریقے سے بجلی کی ترسیل کے مقصد کونقصان پہنچ رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 125 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن کی تکمیل میں تاخیر کی وجہ سے سسٹم پر بھروسے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

اس کے علاوہ مذکورہ ٹرانسمیشن لائن کے آپریشنل نہ ہونے کی وجہ سے 375 میگا واٹ کی کفایتی بجلی شیڈ کرنی پڑ رہی ہے کیوں کہ اس علاقے میں ٹرانسمیشن اور ٹرانسفورمیشن رکاوٹیں ہیں خاص طور پر سردی کے موسم میں ان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

نیپرا کے مطابق بعض اوقات سسٹم کو بچانے کے لیے پلانٹ کو بھی بند کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ہر گھنٹے 15 لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

15-2014 میں مالیاتی نقصان 65 لاکھ روپے تھا اور اس سے ایک لاکھ 15 ہزار 500 صارفین متاثر ہوئے تھے، اسی طرح 747 میگا واٹ گڈو پلانٹ 2014 میں آپریشنل ہوگیا تھا لیکن اس کی 256 کلو میٹر طویل ٹرانسمیشن لائن اب تک ابتدائی مراحل میں ہے۔

یہ خبر 12 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024