نایاب مچھلی کا شکار کئی انسانی جانیں نگل گیا
پشاور: شمال مغربی پاکستان کے علاقوں میں دریائے کابل اور سندھو دریا میں ملنے والی نایاب مچھلی کے شکار کے لیے کئی ماہگیر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جب کہ سیکڑوں مچھلیوں کے شوقین اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نایاب مچھلی کا شکار جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے ضلع پشاور کے قریب ہندو کش پہاڑیوں کے دامن سے بہہ کر افغانستان سے پاکستان پہچنے والے دریائے کابل میں ٗشیر ماہیٗ نامی نایاب مچھلی کا شکار کرنے کے لیے کئی مقامی ماہگیر خطرناک موسم اور شکار کے غلط طریقوں کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
نایاب مچھلی کے شکار کے شوقین عباس خان کے مطابق شیر ماہی دریائے کابل سمیت دریائے سندھ میں بھی پائی جاتی ہے، شیر ماہی مچھلی کو پشاور، نوشہرہ اور چارسدہ اضلاع سمیت شمال مغربی پاکستان کے لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کے ساحل پر 'ستر فٹ' لمبی وہیل مچھلی
ماہی گیروں کے مطابق شیر لفظ ایرانی فارسی زبان سے نکلا ہوا ہے، جس کا مطلب دودھ ہوتا ہے، شیر ماہی مچھلی چکنائی اور تیل کی خوبیوں سے بھرپور ہوتی ہے اس لیے کھانے میں بے حد لذیز ہوتی ہے۔
شیر ماہی کا شکار کرنے کے شوقین غنی الرحمٰن کے مطابق شیر ماہی کا شکار کرنے کے لیے ماہی گیر بہت ہی بے رحمانہ اور غیر قانونی طریقے بھی استعمال کرتے ہیں، یہاں تک شیر ماہی کے شکار کے لیے لوگ ڈائنامائیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں، جس وجہ سے کئی ماہی گیر شیر ماہی کے شکار کے بجائے خود شکار ہوچکے ہیں۔
عباس خان شیر ماہی کے شکار کے کے لیے جنریٹر کی کرنٹ والی تار کا استعمال کرتے ہیں، جو دیگر ماہی گیروں کے طریقوں سے قدرے بہتر اور محفوظ ہے، کئی ماہی گیر تو شیر ماہی کے شکار کے لیے دریائے کابل میں کیڑے مار زہریلی دوائیوں کے اسپرے بھی کرتے ہیں۔
شیر ماہی کا شکار کرنے والے 58 سال کے عمر رسیدہ ماہی گیر غنی الرحمٰن کے مطابق وہ گزشتہ پچیس سالوں سے مچھلیوں کا شکار کرتے آئے ہیں اور وہ روزانہ کئی گھنٹوں تک مچھلیوں کا شکار کرنے کے بعد مشکل سے یومیہ 500 سے ایک ہزار روپے کمالیتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پکوان کہانی: سردیوں کا خاصہ - لاہوری مچھلی
غنی الرحمٰن کہتے ہیں شیر ماہی مچھلی دریائے کابل کے صرف پاکستان والے حصے میں ہی پائی جاتی ہے، مگر اب دریائے کابل پر آلودگی بڑھ جانے کی وجہ سے مچھلیوں کی افزائش نہیں ہو رہی ہے، کسی زمانے میں وہ مچھلیوں کے شکار سے یومیہ دس ہزار روپے تک بنالیتے تھے۔
شیر ماہی کا شکار کرنے والے خیر گل کہتے ہیں 1982 تک مچھلیوں کے شکار کے لیے ڈائنامائیٹ کے استعمال پر پابندی عائد تھی مگر خیبرپختونخواہ میں فوجی آپریشن کے بعد دریائے کابل میں مچھلیوں کے شکار کے لیے بھی ڈائنا مائیٹ کا استعمال ہونا شروع ہوا، جب کہ مچھلیوں کے شکار کے دیگر طریقے بھی غیر قانونی، بے رحمانہ اور ماحول دشمن ہیں مگر انتظامیہ خطرناک طریقوں سے شکار کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔
محکمہ فشریز خیبرپختونخوا کے افسر ہدایت شاہ کے مطابق محکمہ فشریز نے شیر ماہی کا غیرقانونی اور بے رحمانہ شکار کرنے والے 60 غیر قانونی مقدمات تیار کرلیے ہیں، جنہیں عدالت میں پیش کیا جائے گا۔