نادرا کے نادر لوگوں سے مؤدبانہ سوالات
اس بلاگ کے راقم کو ایک اشد ضرورت کے تحت اسمارٹ شناختی کارڈ کا حصول ممکن بنانا تھا سو 18 اکتوبر 2016 کو نصیرآباد ایگزیکٹو سینٹر کراچی میں اپنے اسمارٹ آئی ڈی کارڈ کا ڈول ڈالنے کا ارادہ کیا۔
صبح سات بجے بغیر ناشتہ کیے نہار منہ نادرا آفس پہنچے تاکہ قطار میں سب سے اگلا نمبر ہمیں نصیب ہو جائے۔ ہمارا خیال تو یہ تھا کہ اتنی صبح صبح ہمارے علاوہ کوئی نہیں ہوگا۔ نادرا آفس سے ذرا قریب پہنچے تو ایک جم غفیر نظر آیا۔
تشویش ہوئی کہ صبح صبح اتنے سارے لوگ جمع ہیں، اللہ خیر کرے۔ ہجوم کے قریب پہنچے تو پتہ چلا کہ یہاں نہ تو کوئی فری راشن تقسیم ہو رہا ہے اور نہ ہی کوئی مداری تماشہ دکھا رہا ہے۔
دراصل یہ سارا مجمع نادرا آفس کے سامنے دھرنا دیے بیٹھا ہے کہ جلد سے جلد نمبر مل جائے۔ رکشے سے اُتر کر ہجوم میں پہنچے تو کچھ جماہیاں لیتے ہوئے لوگوں سے پتہ چلا کہ انہوں نے فجر کی نماز نصیر آباد ایگزیکٹو سینٹر کے سامنے ہی ادا کی تاکہ قطار میں جلد سے جلد نمبر حاصل کیا جا سکے۔
خیر اللہ کا نام لے کر ہم بھی قطار میں لگ گئے۔ لگ بھگ دو گھنٹے قطار میں کھڑا ہونے کے بعد ایک صاحب تشریف لائے، آفس کا دروازہ کھولا، آفس کے دروازے پر ان محترم نے جلی حروف میں ایک تحریر آویزاں کی جس کا مضمون کچھ یوں تھا کہ "یہاں چار سو اور چھے سو والے کارڈ نہیں بنتے۔"
پڑھیے: بلاک شناختی کارڈ کھلوانے کا اذیت ناک تجربہ
مطلب یہ کہ اگر 1600 روپے ادا کرنے کی استطاعت ہے تو ٹھیک، قطار میں لگے رہیے۔ ورنہ کوئی اور در دیکھیے اور شعر پڑھتے رہیے:
وہ جو بیچتے تھے دوائے دردِ دل
وہ دوکان اپنی بڑھا گئے
خدا خدا کر کے بیس سے پچیس منٹ میں کام کا آغاز ہوا اور لوگوں کو ٹوکن دینے کا مرحلہ شروع ہوا۔ ٹوکن حاصل کر لینے والے خوش نصیب اسے اپنی مٹھی میں دبا کر یوں فاتحانہ نظروں سے قطار کو دیکھتے جیسے کوئی امرت دھارا مل گیا ہو۔
سوا تین گھنٹے قطار میں کھڑا رہنے کے بعد ہمارا نمبر آیا۔ تصویر لینے سے فارم فل کرنے کے مراحل قدرے تیزی سے طے ہوئے تو لگا کہ جیسے شناختی کارڈ بنوانا اتنا مشکل کام نہیں جتنا لوگ بتاتے ہیں۔ اسی روز تصدیق کروا کے درخواست جمع کروا دی اور رسید حاصل کر لی تاکہ سند رہے ۔
22 اکتوبر کو نادرا ہیڈ آفس سے ایک ایس ایم ایس ہمارے فون پر موصول ہوا کہ ہماری درخواست ہیڈ آفس میں موصول ہوگئی ہے اور اس پر کام جاری ہے۔ 24 اکتوبر کو پیغام موصول ہوا کہ جناب کی گزارش کو شرف قبولیت حاصل ہوگیا ہے اور ہمارا اسمارٹ کارڈ چھپنے کے لیے نادرا کے چھاپے خانے میں بھیجا جا چکا ہے جہاں سے دو ایک روز میں موصول ہو جائے گا۔
لگا کہ بہت اسمارٹ نظام ہے جس میں مجوزہ پندرہ روز کے عرصے کے بجائے سب کچھ بہت تیزی سے ہو رہا ہے اور 26 یا 27 اکتوبر کو ہمارا شناختی کارڈ ہمیں مل جائے گا۔ تاہم کسے پتا تھا کہ اصل امتحان اب شروع ہونا باقی ہے۔
26 گزری، 27 گزری، 28 گزری، 29 بھی گزر گئی۔ ہم ہر روز نادرا کی ایس ایم ایس ہیلپ لائن 8400 پر اپنا ٹریکنگ نمبر بھیجتے تو جواب موصول ہوتا کہ آپ کا کارڈ چھاپے خانے میں ہے اور دو ایک روز میں آپ تک پہنچ جائے گا۔
جناب یہ دو تین روز ہفتے میں بدل گئے اور اس کے بعد اگلا ہفتہ شروع ہو کر نومبر کا مہینہ بھی شروع ہوا۔ ایسا لگا کہ جیسے ہمارا شناختی کارڈ بھی دارالحکومت کی یخ بستہ ہواؤں میں کہیں جم گیا ہے جو آگے چلنے کا نام نہیں ہی لے رہا۔
مزید پڑھیے: شناختی کارڈ کی تجدید کا اشتعال انگیز سوالنامہ
ہر روز نادرا کی ایس ایم ایس ہیلپ لائن سے ایک ہی پیغام کہ کوئی اپ ڈیٹ نہیں۔ تنگ آ کر نادرا کی ہیلپ لائن 700 پر یکم نومبر کو کال کی، ایک حضرت نے بتایا کہ 25 تاریخ کو جو کارڈ پرنٹنگ پر گئے تھے وہ ابھی تک چھپے ہی نہیں، مگر اس کے بعد جانے والے کارڈ چھپ گئے ہیں۔
ہم بھاگم بھاگ نصیر آباد ایگزیکٹو سینٹر پہنچے تو دیکھا کہ وہ لوگ بھی اپنے شناختی کارڈ لے کر جا رہے ہیں جن کی درخواست ہمارے بعد جمع ہوئی تھی۔
(ع) جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
اسی روز شام میں دوبارہ ہیلپ لائن پر فون کیا۔ ایک خاتون نے مشورہ دیا کہ ہو سکتا ہے آپ کا کارڈ حوالہءِ ڈاک کر دیا گیا ہو لیکن بوجوہ آئی ٹی اسٹاف کی غلطی سے اپڈیٹ نہ ہوا ہو۔ آپ مقامی آفس چلے جائیے اور پچھلی ڈاک میں چیک کروا لیجیے۔
مقامی آفس کی ایک بائے ایک سائز کی کھڑکی پر ایک سخت گیر خاتون نے سختی سے منع کر دیا کہ وہ پچھلی ڈاک میں اس وقت تک چیک نہیں کریں گی جب تک ان کے کمپیوٹر پر یہ اپڈیٹ موصول نہ ہو کہ کارڈ حوالہءِ ڈاک ہوچکا ہے۔
لاکھ سمجھایا کہ بھئی یہ اسی لیے چیک کروایا جا رہا ہے کہ شاید اپڈیٹ نہ ہوسکا ہو، لیکن محترمہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ بہرحال چوکیدار کی منت سماجت کر کے دربار میں رسائی حاصل کی۔
قدرے ہمدرد اور شفیق قسم کے ایک بزرگ مینیجر نے تشویش کا اظہار کیا اور ہمارا ٹریکنگ نمبر اپنے پاس نوٹ کر کے وعدہ کیا کہ وہ ضرور متعلقہ لوگوں کی سرزنش کریں گے۔
2 نومبر کو دوبارہ ہیلپ لائن پر فون کیا، پھر انتظار کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ تین تاریخ کو خوب جی بھر کر سارا دن انتظار کیا۔ چارنومبر کو صبح ساڑھے دس بجے دوبارہ ہیلپ لائن پر فون کیا۔ نادر شاہی قسم کے جلادی لہجے میں ایک خاتون نے بتایا کہ آپ کے اسٹیٹس میں کوئی اپڈیٹ نہیں۔
ان سے پوچھا کہ کیا ہماری شکایت درج ہوسکتی ہے؟ سختی سے فرمایا: "بالکل نہیں۔ اس مرحلے پر شکایت درج نہیں ہوتی۔" پوچھا کسی ایسے سورما کا نام بتا دیجیے جسے باری تعالیٰ نے چھاپے خانے والوں سے یا نادرا کے آئی ٹی اسٹاف سے باز پرس کر سکنے کی قدرت بخش رکھی ہو؟
جواب ملا کہ ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا، آپ بس انتظار فرمائیے، اور کہا کہ وہ صرف ٹریکنگ کر کے صورت حال بتا سکتی ہیں۔
عرض کیا کہ اگر ایسا ہی تھا تو ایس ایم ایس ٹریکنگ سروس 8400 تو پہلے ہی موجود ہے، تو پھر آپ سے بات کرنے کا کیا مقصد؟ انہوں نے انتہائی حقارت سے جواب دیا کہ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں۔ ہمیں اندازہ ہو گیا کہ محترمہ کسی بڑی ہستی کے زیر سایہ ہیں اس لیے انہیں واقعی کوئی غرض نہیں رہی ہوگی۔
جانیے: پاکستان میں پاسپورٹ کی تجدید کا تلخ تجربہ
نادرا کی ویب سائٹ پر جا کر کمپلین لانچ کرنے کی دوبارہ بلکہ سہ بارہ کوششیں بھی کر کے دیکھ لیں۔ کمپلین لکھنے کے بعد جمع کروائیں تو ویب پیج کریش ہو جاتا ہے۔ گویا کہ نادرا کے ذمے داران تک ہم جیسے عام آدمی کی رسائی کا اب ایک ہی طریقہ بچا ہے، اور وہ ہے ہمارا میڈیا۔
میں گناہ گار بذریعہ سطور ہذا نادرا کے ذمہ داران سے دست بستہ چند سوالات پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
1۔ میں نے جو 1600 روپے ایگزیکٹو فیس جمع کروائی تاکہ میری درخواست جلدی پراسیس ہوجائے، کیا وہ میری حرام کی کمائی تھی؟
2۔ کیا کوئی ایسا طرم خان ہے جو چھاپے خانے کے ملازمین سے استفسار کرسکے کہ اس کوتاہی کا ذمے دار کون ہے؟ اور مجھے مزید کب تک انتظار کی سولی پر لٹکے رہنا ہوگا؟
3۔ زائد رقم ادا کرنے کے باوجود عوام کی اشد ضرورت بروقت پوری نہ ہو تو کیا ان کے قیمتی وقت کو کوئی نادرا اہلکار واپس لاسکتا ہے؟
4۔ کیا ہیلپ لائن پر بد تمیزی کرنے والے آپریٹرز کی شکایت لینے کے لیے کوئی نیا نمبر جاری کیا جائے گا؟
5۔ کیا کوئی اللہ لوک اس امر پر رائے دے گا کہ اپنی تنخواہ عوام الناس کے ادا کیے ہوئے پیسوں سے لینے کے بعد بھی لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے تکلیف دینے والے اہلکاروں سے بازپرس کر کے کبھی عوامی سطح پر لایا جائے گا؟
کیا آپ بھی سرکاری دفاتر میں ایسی ہی صورتحال کا سامنا کر چکے ہیں؟ اپنی رائے نیچے کمنٹس میں دیجیے۔
تبصرے (40) بند ہیں