14ویں برسی: ’ اگر میں یہ مان لوں کہ جون ایلیاء مر گئے تو . . .‘
منفرد اسلوب کے حامل ممتاز شاعر، ادیب اور فلسفی جون ایلیا کی 14ویں برسی آج منائی جا رہی ہے۔
14 دسمبر 1931 کو اترپردیش کے شہر امروہا میں برصغیر کے نامور شاعر سید شفیق حسن ایلیا کے گھر میں آنکھ کھولنے والے جون ایلیا نے معروف شاعر، صحافی اور دانشور رئیس امروہی اور سید محمد تقی جیسے بھائیوں کے ساتھ ادبی ماحول میں پرورش پائی، اس علمی ماحول نے جون کی طبیعت کی تشکیل بھی انہی خطوط پر کی۔
8 سال کی کم عمری میں اپنا پہلا شعر کہنے والے جون، 1957 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی کو اپنا مستقل مسکن بنا لیا، جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے، ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعے کی عادات کا واضح ثبوت تھی جسکی وجہ سے ان کے کلام کو زبردست پذیرائی حاصل ہوئی۔
جون ایک انتھک مصنف تھے لیکن انہیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی راضی نہ کیا جا سکا، ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ 'شاید' 1991 میں منظر عام پر آیا جس وقت ان کی عمر 60 سال تھی، اس مجموعے کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اردو سے آشنا طبقے نےبےحد پسند کیا۔
ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ ’یعنی‘ ان کی وفات کے بعد 2003میں، تیسرا مجموعہ’گمان ‘ 2004 میں، چوتھا مجموعہ ’لیکن‘ 2006 میں اور پانچواں مجموعہ ’گویا‘ 2008 میں شائع ہوا، اس کے علاوہ نثر میں ان کی دو کتب فرنود اور راموز بھی جون کی وفات کے بعد ہی منظرِعام پر آئیں۔
فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، مغربی ادب پر جون ایلیا کا علم بے کراں تھا اور اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی شامل کیا جس کے باعث جون نے اپنے ہم عصروں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔
انہوں نے شاعری کے علاوہ فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، سائنس اور مغربی ادب کے تراجم پر بھی وسیع کام کیا اوردنیا کی 40 کے قریب نایاب کتب کے تراجم کیے۔
جون ایلیاء کو مختلف زبانوں پر کمال حاصل تھا، اردو شاعری میں اس کا بہترین استعمال کیا کرتے تھے،انہیں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی ‘ عربی‘ سنسکرت پر خاص عبور حاصل تھا۔
جون ایک ادبی رسالہ ’انشا‘ سے بطور مدیر بھی وابستہ رہے جہاں انکی ملاقات نامور ادیبہ اور کالم نگار زاہدہ حنا سے ہوئی, جن سے بعد ازاں جون رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ، جون کے زاہدہ حنا سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا، 1980 کی دہائی کے وسط میں ان کی طلاق ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: معروف شاعر جون ایلیاء کیلئے خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ
اسکے بعد تنہائی کے باعث جون کی صحت گرتی چلی گئی، کثرتِ شراب نوشی نے انہیں پژمردہ کر دیا اور یوں طویل علالت کے بعد اردو ادب کا یہ منفرد قلم کار اور ادبی دنیا کا آفتاب 8 نومبر 2002 کو 71 برس کی عمر میں طویل علالت کے بعد انتقال کر گیا۔
جون ایلیاء کی آخری مکمل تحریر "تُمہارا شکریہ" ان کی وفات کے بعد ایک ڈائجسٹ میں شائع ہوئی، جس میں انہوں نے اپنی موت کی قبل از وقت علامتی اطلاع دی تھی ،اس تحریر کی چند سطریں درج ذیل ہیں:
’ اگر میں یہ مان لوں کہ جون ایلیاء مر گئے تو پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ آج ایک سقراط مر گیا، ہومر مر گیا، تاسیس ملیٹی! ہاں، وہ بھی گیا ارسطو، وہ بھی ہاں، ہاں ۔۔۔ ہاں! ابنِ مسکویہ، فارابی، ابن رشد، بو علی سینا، طوسی، خیام سعدی، عرفی، رومی، نطشے، برٹرینڈرسل، برنارڈ شاہ، یہ سب مر گئے ایک پوری کی پوری بستی فنا کے گھاٹ اتر گئی۔۔۔‘
کراچی کے سخی حسن قبرستان میں منوں مٹی تلے سوئے اس عظیم شاعر کی قبر پر نصب کتبے پہ ان کا مشہور شعر درج ہے جو ان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے،
تبصرے (1) بند ہیں