• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

پاکستان میں بھارت کے 8 ’خفیہ ایجنٹس‘ منظر عام پر آگئے

شائع November 3, 2016
اہلکاروں کا تعلق ’را‘ اور  آئی بی سے ہے — فائل فوٹو
اہلکاروں کا تعلق ’را‘ اور آئی بی سے ہے — فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان میں ہندوستانی ہائی کمیشن کے 8 افسران کی خفیہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

ہائی کمیشن کے افسران کی خفیہ ادارے کے اہلکار ہونے کی تفصیلات میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آئیں۔

رپورٹس کے مطابق مبینہ بھارتی خفیہ ایجنٹس میں راجیش کمار اگنی ہوتری، (کمرشل قونصلر)، بلبیر سنگھ (فرسٹ سیکریٹری پریس اینڈ کلچر)، انوراگ سنگھ(فرسٹ سیکریٹری کمرشل)، امر دیپ سنگھ بھٹی(ویزا اتاشی)، دھرمیندرا، وجے کمار ورما اور مادھون نندا کمار (ویزا اسسٹنٹس) جبکہ جیا بالن سینتھل (اسسٹنٹ پرسنل ویلفیئر آفس) شامل ہیں۔

میڈیا لیک میں دعویٰ کیا گیا کہ مذکورہ عہدے دار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ یا انڈین انٹیلی جنس بیورو کے لیے کام کررہے تھے۔

یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ تمام افراد پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن میں تعینات اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی ہائی کمیشن کا افسر اہلخانہ سمیت پاکستان بدر

الیکٹرانک میڈیا پر شروع ہونے والی ان اطلاعات کی تصدیق دفتر خارجہ کے کسی عہدے دار کی جانب سے نہیں کی جاسکی اور سرکاری سطح پر کوئی تفصیلات بھی فراہم نہیں کی گئیں۔

بین الریاستی تعلقات میں انڈر کور آفیسرز تعینات کرنا معمول کی بات ہوتی ہے تاہم میڈیا پر چلنے والی خبروں کے مطابق، منظر عام پر آنے والے بھارتی خفیہ ایجنٹس پاکستان میں تخریبی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے جس میں چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو نقصان پہنچانا اور ملک میں خوف و ہراس پھیلانا بھی شامل ہے۔

یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ یہ ایجنٹس پاکستان میں مخبروں کا نیٹ ورک بنا رہے تھے اور عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے میں مصروف تھے۔

اس بات کی بھی توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ آنے والے چند دنوں میں ان ایجنٹس کو پاکستانی حکام کی جانب سے ناپسندیدہ شخصیات قرار دے دیا جائے گا یا پھر بھارت خود انہیں واپس بلالے گا۔

نئی دہلی میں میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بھارت وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوارپ نے ان ایجنٹس کے مستقبل کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔

بھارتی خفیہ ایجنٹس کے حوالے سے اطلاعات سے پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات کو عروج پر پہنچادیا۔

مزید پڑھیں: ’پاکستانی ہائی کمیشن کے4اہلکاروں کو بھارت سے واپس بلانے پر غور‘

اس سے قبل نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن میں تعینات 6 افسران و ارکان کو پاکستان واپس بلانا پڑا تھا کیوں کہ ان میں سے چار پر بھارت نے پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کا الزام عائد کردیا تھا۔

پاکستانی ہائی کمیشن کے 6 ارکان گزشتہ روز لاہور پہنچ گئے۔

واضح رہے کہ دسمبر 2010 میں ڈرون حملے کے ایک متاثرین کی جانب سے دائر کیے جانے والے مقدمے میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے اسٹیشن چیف جوناتھن بینکس کی شناخت منظر عام پر آگئی تھی جس کے بعد امریکا نے انہیں واپس بلالیا تھا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت میں سفارتی اہلکاروں کا بطور خفیہ ایجنٹس منظر عام پر آنا انتہائی اہم انکشاف ہے۔

2010 میں ہی انڈین انڈر کور سی اپ بھی جزوی طور پر بے نقاب ہوا تھا جب بھارت نے اپنے ہی ہائی کمیشن کے ایک افسر کو آئی ایس آئی کے لیے کام کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

ماضی میں بیک وقت اتنی زیادہ تعداد میں خفیہ ایجنٹس سے متعلق معلومات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں۔

رواں برس کے آغاز میں سیکیورٹی ایجنسیوں نے بلوچستان سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا جسے اب تک کی سب سے اہم انٹیلی جنس کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت کی انٹیلی جنس کو عارضی طور دھچکہ لگ سکتا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے یہ تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ایک افسر محمود اختر کو حراست میں لے لیا تھا اور انہیں چار سفارتکاروں کے نام بطور جاسوس لینے پر مجبور کیا گیا تھا۔

بعد ازاں محمود اختر کا ریکارڈڈ بیان بھارتی میڈیا پر چلنا شروع ہوگیا تھا جس سے بھارت میں موجود پاکستانی سفارتی عملے کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوگئے تھے۔

محمود اختر کا کہنا تھا کہ انہیں پولیس اسٹیشن میں کہا گیا کہ وہ چار سفارتکاروں کے نام لیں اور کہیں کہ یہ خفیہ ایجنٹس ہیں۔

یاد رہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشمیر کے معاملے پر 8 جولائی کے بعد سے کشیدہ ہیں اور حالیہ اقدامات اس بات کا اشارہ ہیں کہ تعلقات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔

یہ خبر 3 نومبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024