• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

سپریم کورٹ میں پرانے ٹی او آرز ہی جمع کرائے جانے کا امکان

شائع November 2, 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں حکومت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) جمعرات کو پاناما لیکس کی تحقیقات کے حوالے سے اپنے اپنے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پیش کریں گے اور ممکن ہے کہ فریقین وہی ٹی او آرز عدالت کے سامنے پیش کریں جو پہلے ہی بل کی صورت میں پارلیمنٹ میں پیش کیے جاچکے ہیں۔

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے مجوزہ کمیشن کے ٹی او آرز پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کئی مہینوں تک عدم اتفاق رہنے کے بعد قومی اسمبلی میں حکومت نے ایک بل پیش کیا تھا جس میں اس نے 60 سال پرانے انکوائری کمیشن ایکٹ 1956 کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اپوزیشن نے بھی سینیٹ میں اپنا بل پیش کیا تھا۔

اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے مجوزہ کمیشن کے ٹی او آرز پر مشاورت کے لیے قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی کی کارروائی بھی جون میں ڈیڈ لاک کا شکار ہوگئی تھی کیوں کہ اپوزیشن اس بات پر مصر تھی کہ احتساب کا عمل نواز شریف اور ان کے اہل خانہ سے شروع ہونا چاہیے۔

یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنازع کی اہم وجہ بنا اور اب یہ عدالت عظمیٰ میں پہنچ چکا ہے جو مجوزہ عدالتی کمیشن کے دائرہ اختیار اور طریقہ کار کا تعین کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ بینچ کا نیب پر اظہار برہمی

اس سلسلے میں ڈان سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کی جماعت کا بنیادی مدعا تبدیل نہیں ہو اور وہ یہ کہ احتساب کا عمل وزیر اعظم نواز شریف سے شروع ہونا چاہیے۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ میں جو ٹی او آرز پیش کرے گی وہ ستمبر میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے جانے والے بل پر ہی مبنی ہوں گے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مذکورہ بل اعتزاز احسن اور سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے حامد خان نے مل کر تیار کیا تھا جس کی بعد میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے توثیق کی تھی۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کو پی ٹی آئی کے لیے فتح قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدالت اس بات کی پابند نہیں کہ وہ حکومت یا اپوزیشن کے ٹی او آرز مکمل طور پر تسلیم کرلے۔

انہوں نے بتایا کہ عدالت نے فریقین سے اپنے اپنے ٹی او آرز لانے کے لیے کہا ہے جس کے بعد مستقبل کا لائحہ عمل عدالت خود طے کرے گی۔

مزید پڑھیں: پاناما لیکس: سپریم کورٹ نے فریقین سے ٹی او آرز مانگ لیے

واضح رہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ارکان کی غیر حاضری میں قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کمیٹی پہلے ہی حکومت کے ’پاکستان کمیشنز آف انکوائری بل 2016‘ کی منظوری دے چکی ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن نے خود ہی سینیٹ کمیٹی سے اپنے بل کو زیر التواء رکھنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس میں انہوں نے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کے خلاف غیر قانونی طریقے سے آف شور کمپنیوں کے قیام کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تھا۔

جب کمیٹی کے چیئرمین جاوید عباسی نے اس بات کا اعلان کیا کہ انہیں سینیٹ کے اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کی جانب سے یہ درخواست موصول ہوئی ہے کہ بل کو فی الحال زیر التواء رکھا جائے کیوں کہ کراچی میں سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے ایک کیس میں مصروف ہیں، اس وقت بل پیش کرنے والے 44 میں سے صرف 3 ارکان وہاں موجود تھے۔

حکومت نے اپوزیشن کے تیار کردہ بل کو مکمل طور پر امتیازی قرار دیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ اس میں وزیر اعظم کو نشانہ بنایا گیا ہے حالانکہ نواز شریف کا نام پاناما پیپرز میں موجود ہی نہیں۔

حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن کے بل کا دائرہ اختیار محدود ہے اور یہ مستقبل میں اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں روکنے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔

اپوزیشن کے بل میں خفیہ ذرائع سے ملک سے باہر جانے والی تمام رقم کے فرانزک آڈٹ کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما لیکس: وزیراعظم سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری

مجوزہ قانون میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ تمام افراد جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے ہیں وہ مجوزہ کمیشن کے ججز کو اپنے بینک اکاؤنٹس تک رسائی دیں۔

بل میں کمیشن کو بھی اس بات کا پابند بنانے کی تجویز دی گئی ہے کہ وہ سب سے پہلے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی تحقیقات کرے جس کے بعد پاناما پیپرز میں شامل دیگر 600 سے زائد پاکستانیوں کی تحقیقات کی جائیں۔

تاہم بل کے مسودے میں وزیر اعظم کا عہدہ یا نواز شریف کا نام استعمال کرنے سے گریز کیا گیا ہے بلکہ ان کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے کہ: ’اس فریق کے خلاف جس نے رضاکارانہ طور پر عوام کے سامنے خود کو اور اپنی فیملی کو احتساب کے لیے پیش کیا، یا جس نے عوام کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اور اس کی فیملی آف شور اثاثے رکھتے ہیں، پہلے انکوائری مکمل ہونی چاہیے‘۔

اپوزیشن کے بل میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ مجوزہ کمیشن وزیر اعظم کے خلاف تحقیقات تین ماہ میں مکمل کرے جس میں ایک ماہ کی توسیع ہوسکتی ہے، جبکہ دیگر افراد کے خلاف تحقیقات ایک سال میں مکل کی جائیں۔

بل کے تحت اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ کمیشن 1985 سے 2016 کے دوران فریق اور اس کی فیملی کی جانب سے خریدی یا فروخت کی گئی جائیداد کی بھی تحقیقات کرے۔

دوسری جانب حکومت کہتی ہے کہ اس کا بل چیف جسٹس آف پاکستان کے اس مشاہدے پر مبنی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ موجودہ انکوائری کمیشن ایکٹ 1956 کمزور اور غیر موثر ہے۔

حکومتی بل میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے علاوہ کمیشن کو آف شور کمپنیوں کے قیام ، قرضوں کی معافی، غیر قانونی طور پر رقوم کی بیرون ملک منتقلی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کا بھی اختیار حاصل ہونا چاہیے۔

یہ خبر 2 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024