• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

’ڈاکٹر عاصم کوئی لال مسجد کے طالبان نہیں‘

شائع October 29, 2016

کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم کوئی لال مسجد کے طالبان نہیں،حکومت آپریشن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔

جناح ہسپتال میں ڈاکٹر عاصم کی عیادت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلال بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف وزارت داخلہ کے ذریعے آپریشن کو سیاسی بناکر ذاتی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ڈاکٹر عاصم کو فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ان کی عیادت کے لیے جناح ہسپتال آئے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اس آپریشن میں خاص طور پر صوبہ سندھ کو ٹارگٹ کیا، جہاں چاہے میئر کراچی ہوں، چاہے عاصم حسین ہوں، قادر پٹیل ہوں یا کوئی اور سیاستدان ، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کے قانون خاص طور پر شدت پسندوں کے خلاف بنائے گئے تھے جو سیاسی جماعتوں اور دیگر اداروں کو نشانہ نشانہ بناتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر عاصم حسین پر 'فالج کا معمولی حملہ'

بلاول بھٹو نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی وہ پہلی جماعت تھی جس نے سب سے پہلے شدت پسندی کے خلاف آواز بلند کی۔

انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب بزدل سیاست دان دہشت گردوں کا نام لینے سے بھی ڈرتے تھے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قربانی دی۔

انہوں نے نواز شریف اور سابق صدر مشرف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ان لوگوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سامنے آتے اور کہتے کہ دہشت گرد ہمارے پولیس اہلکاروں کو مار رہے ہیں، فوجی بھائیوں کو مار رہے ہیں، بچوں ، خواتین کو مار رہے ہیں، اسلام کا نام استعمال کرکے انہیں مار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ان تمام ’بزدلوں‘ کو ایک پیج پر پیپلز پارٹی لے کر آئی، ہم نے شیر کو دہشت گردوں کے مقابلے میں لاکر کھڑا کیا، ہم نے کھلاڑی کو کہا کہ یہ کھیل نہیں ہے، یہ قومی اہمیت کا معاملہ ہے اور پھر یہ سب ایک جگہ اکھٹے ہوئے۔

لیکن بدلے میں ہمیں کیا ملا، بجائے ہم یہ دیکھتے کہ اچھے، برے طالبان، ان کے سہولت کار اور مالی معاون جیل میں ہیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصل جیل میں ہیں، کراچی کا میئر جیل میں ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ان اقدامات سے آپ پاکستان کی عوام اور دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ہم دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں یا نہیں لڑ رہے؟

مزید پڑھیں: رینجرز، پولیس کے بعد ڈاکٹر عاصم سے نیب کی تفتیش

انہوں نے کہا کہ ’میں جاننا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم کیا کررہے ہیں، میں دہشت گردی سے متاثرہ شخص ہوں، میں کوئی عام سیاستدان نہیں جو الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’میں شہید بے نظیر کا بیٹا ہوں جنہوں نے اس جدوجہد میں اپنی جان قربان کی اور مجھے جواب دینا نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ آیا وہ پاکستان شدت پسندی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں یا نہیں‘؟

انہوں نے کہا کہ ’میں آج سینئر پارٹی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کرنے جارہا ہوں جس میں موجودہ صورتحال میں نیشنل ایکشن پلان کا حصہ رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی‘۔

انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ نیشنل ایکشن پلان ایک اچھا خیال تھا اور یہ پہلا موقع تھا جب پاکستانی سیاست دان دہشت گردوں کے خلاف ایک پیج پر آئے۔

انہوں نے کہا کہ مسلح افواج اور پولیس تو نیشنل ایکشن پلان کے مطابق اپنا کام انجام دے رہی ہیں لیکن یہ ایک حصہ ہے، اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان کے کسی اور نکتے پر تیسری بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف کی جانب سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین 'زیرِحراست'

انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم بتائیں کہ پاکستان کے عوام ان کا، ان کی حکومت کا اور بطور وزیر اعظم ان کا مزید ساتھ کیوں دیں‘؟

انہوں نے کہا کہ میں ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ کے ساتھ کھڑا ہوں جو بریسٹ کینسر سے لڑ رہی ہیں،انہیں گزشتہ روز شدید فالج کا حملہ ہوا اور ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ ڈاکٹرز عاصم کی زندگی کو خطرہ نہیں جو ٹیسٹ درکار ہیں وہ پاکستان میں دستیاب ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف ڈاکٹر عاصم کے ساتھ نہیں کہ انہیں سیاسی قیدی بنا دیا گیا، نواز شریف نیشنل ایکشن پلان کو اپنے سیاسی حریفوں کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم واقعی بیمار ہیں، میں کسی اور کی مثال نہیں دینا چاہتا جسے علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی حالانکہ اس پر اس سے زیادہ سنجیدہ الزامات تھے۔

ڈاکٹر عاصم کو 16 ماہ سے قید میں رکھا ہوا ہے، اس طرح کے اقدامات سے ڈرنے والے نہیں،میرے والدین نے جمہوریت کےلیے جدوجہد کی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ملک کے بچوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا،مسلم لیگ (ن) ڈاکٹر عاصم سے سیاسی انتقام لے رہی ہے،ڈاکٹر عاصم کو ان کے قانونی حق سے محروم رکھا جارہا ہے،ان کی ضمانتی درخواست پر شنوائی نہیں کی جارہی۔

متحدہ قومی موومنٹ کے گرفتار رہنما وسیم اختر کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ میئر کراچی جیل میں ہیں، دنیا کو کیا پیغام دیا جارہا ہے، میں ان کا سیاسی مخالف ہوں جبکہ میں نے ان کو ووٹ بھی نہیں دیا، لیکن بحیثیت کراچی کے شہری کے یہ پوچھتا ہوں میرا میئر جیل میں کیوں ہے، کراچی کے ساتھ غلط ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی 12 مئی کے ذمہ داروں کو سزا دلانا چاہتے ہیں لیکن جس طرح چوہدری نثار کارروائی کررہے ہیں وہ دراصل 12 مئی کے کیس کو کمزور کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 پوائنٹس ہیں لیکن آپ مجھے بتائیں کے ان میں سے حکومت نے کتنے نکات پر عمل درآمد کیا۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین کو گذشتہ برس 26 اگست کو کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات کے تحت اُس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ ہائر ایجوکیشن کمیشن سندھ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔

بعدازاں ان کے خلاف کرپشن اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزامات پر کراچی کے نارتھ ناظم آباد تھانے میں انسداد دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔

انھیں عدالتی حکم پر وقتاً فوقتاً تحقیقات کے لیے ریمانڈ پر رینجرز اور پولیس کے حوالے کیا جاتا رہا، دوسری جانب ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) میں کرپشن ریفرنسز بھی دائر کیے جاچکے ہیں اور نیب ان سے ہسپتالوں کے لیے زمین پر قبضے، ہسپتال کے نام پر سستے داموں زمین کے حصول سمیت ضیاء الدین ٹرسٹ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اربوں روپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجوانے کی تفتیش کررہا ہے۔

ڈاکٹر عاصم حسین 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رکنِ سینیٹ منتخب ہوئے، بعد ازاں وہ دہری شہریت کے باعث نااہلی سے بچنے کے لیے 2012 میں سینیٹ سے مستعفی ہو گئے تھے جبکہ وہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں وفاقی وزیر برائے پٹرولیم رہ چکے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات کے بعد انھیں سندھ کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔

ڈاکٹر عاصم حسین، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی ہیں اور ان کی گرفتاری کو کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پیپلز پارٹی قیادت کے خلاف پہلا بڑا ایکشن قرار دیا گیا۔


کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024