’بنی گالا میں کوکین پہنچانے سے روکا گیا‘
اسلام آباد: ایک ایسے وقت میں جبکہ حکمران جماعت اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے درمیان لفظی جنگ اپنے عروج پر ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان کا کہنا ہے کہ وہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے اس الزام پر حیران ہیں کہ ان کے حامیوں کو بنی گالا میں ان کی رہائش گاہ پر کھانا لانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔
لیگی رہنما مشاہد اللہ نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، 'پولیس کو اس قسم کی کوئی ہدایات نہیں دی گئیں، اگر ہدایات ہیں تو صرف اس بات کی کہ وہ کوکین کو اندر جانے کی اجازت نہ دیں'۔
مشاہد اللہ کا مزید کہنا تھا، 'کسی بھی قیمت پر کوکین کی اجازت نہیں دی جائے گی، کسی بھی قسم کے نشے کو کسی بھی شخص تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، کیونکہ یہ غیر قانونی ہے۔ عمران خان کو جب بھی کھانے کی ضرورت ہوگی تو اسلام آباد پولیس کو ہدایات دی گئی ہیں کہ انھیں مکمل کھانا فراہم کیا جائے، چاہے وہ ہرن کا گوشت ہو یا دیسی مرغی'۔
انھوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ لوگ خفیہ ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور یہ پاکستان کی ترقی کے دشمن ہیں۔'
مزید پڑھیں:مجھے کس قانون کے تحت نظربند کیا گیا،عمران خان کا سوال
لیگی رہنما مشاہد اللہ اس سے قبل بھی اپوزیشن لیڈروں خصوصاً عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں جب ماضی میں انھوں نے آف شور کمپنیوں کے الزامات پر وزیراعظم کا دفاع کرتے ہوئے عمران خان کو 'آف شور کمپنیوں کا بانی' قرار دیا اور کہا کہ اپوزیشن اس حقیقت کے باوجود وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے احتساب کا مطالبہ کر رہی ہے کہ پاناما پیپرز میں ان دونوں کے نام شامل نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو، رحمٰن ملک، عمران خان، جہانگیر ترین اور علیم خان کے نام پاناما پیپرز میں آچکے ہیں۔
مشاہد اللہ نے وزیراعظم نواز شریف کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، ان کا کہنا تھا ، 'یہ لوگ نواز شریف کا مقابلہ نہیں کرسکتے، یہ بیک ڈور اور منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، پہلے انھیں اپنے سیاہ چہروں اور ہاتھوں کو صاف کرنا چاہیے'۔
لیگی سینیٹر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ روز پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بنی گالا میں ان کی رہائش گاہ کو پولیس نے سیل کر رکھا ہے اور یہاں کھانا پانی بھی نہیں پہنچنے دیا جارہا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جب اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ تھا کہ کوئی رکاوٹیں نہیں ڈالنی بنی گالہ کیوں بند کیا گیا اور انھیں کس قانون کے تحت گھر میں تقریباً نظر بند کردیا گیا۔
بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ 'میں پھر سے نواز شریف کی حکومت سے سوال پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بادشاہت ہے یا جہموریت؟'
یہاں پڑھیں: 2 نومبرکو کنٹینر لگے گا، نہ سڑکیں بند ہوں گی، اسلام آباد ہائیکورٹ
یاد رہے کہ 2 روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتطامیہ کو 2 نومبر کو کنٹینرز لگاکر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دھرنوں سے شہر بند کرنے سے روکنے دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا یہ حکم ایک ایسے وقت میں سامنے آیا تھا جب 2 نومبر کو اسلام آباد بند کرنے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اعلان کے بعد عمران خان کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی احتجاج میں تیزی آئی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے مظاہروں کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے اقدامات میں بھی تیزی آگئی ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بھی وفاقی دارالحکومت میں 2 ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے، جس کے تحت شہر میں جلسے جلوسوں، لاؤڈ اسپیکرز کے استعمال اور اسلحہ کی نمائش پر پابندی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: پی ٹی آئی اور حکومت کی 'تیاریاں'
پی ٹی آئی کارکنان نے بنی گالا میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اس سے قبل ایک پی ٹی آئی کارکن نے دعویٰ کیا تھا کہ تقریباً ڈھائی ہزار کارکن بنی گالا پہنچ چکے ہیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی اگلے ماہ 2 نومبر کو پاناما لیکس اور کرپشن کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے جارہی ہے اور عمران خان کا مطالبہ کہ وزیراعظم نواز شریف یا تو استعفیٰ دیں یا پھر خود کو احتساب کے سامنے پیش کردیں۔