دلکش وادیءِ گگئی اور مردِ آہن کا شوق علم
شاہراہ نیلم پر تاؤبٹ نامی آخری گاؤں ہے۔ مظفرآباد سے کم سے کم بارہ گھنٹے کی مسافت پر واقع یہ علاقہ انتہائی خوبصورت و دلکش ہے۔
کیل سے تاؤبٹ کا علاقہ دیکھ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے جنت کا ایک آنگن زمین پر اتار دیا گیا ہو۔ سخت اور دشوار گذار راستے اور طویل سفر کے باوجود اس علاقے کی خوبصورتی اور رعنائیاں کسی قسم کی تھکان کا احساس پیدا ہونے کا موقع ہی فراہم نہیں کرتیں۔
گذشتہ چند برسوں سے کئی سیاح اس کی جگہ کے حسین نظاروں سے اپنی آنکھیں خیرہ کر چکے ہیں۔
سحر طاری کر دینے والے ان نظاروں سے محظوظ ہونے والے سیاح شاید اس بات سے آگاہ نہ ہوں کہ یہاں موسم سرما میں مقامی لوگوں کے لیے رہنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ برف کی سفید چادر کا بچھ جانا گویا اس علاقہ کا تعلق باقی دنیا سے منقطع ہونے کا پیغام ہے۔
موسم گرما میں جمع کیا ہوا گھاس اب نہ صرف جانور کے کام آئے گا بلکہ گھر کی چھت پر پڑا یہ اسٹاک گھر وں کے مکینوں کو سخت سردی سے بھی محفوظ رکھے گا۔
اگر گھاس کٹائی کے موسم میں بارش ہو جاتی ہے تو سردیوں میں ان جانوروں کا بچنا کافی مشکل ہو جاتا ہے اور پھر انہی جانوروں کو خوراک کا ذریعہ بھی بنا لیا جاتا ہے۔
یہ تو یہاں درپیش ایک مشکل کا ذکر ہے۔ اسی طرح سیز فائر سے قبل یہ علاقہ انڈیا کی ڈائریکٹ فائرنگ رینج میں آتا تھا۔ ان دنوں اہل علاقہ کے لیے ہر دن گویا قیامت کا سماں تھا۔
لیکن داد کے مستحق ہیں یہ مکین جو نہایت بہادری، جوانمردی اور استقلال سے اس علاقے میں ڈٹے رہے اور قربانیوں کی داستاں رقم کرتے رہے۔
بشیر علی تاؤ بٹ اس علاقے کا ایک رہائشی ہے۔ بشیر کا بچپن زیادہ تر ایسی ہی شوریدہ یادوں سے جڑا ہوا ہے جن کو سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کی قربانیوں کی داستانیں اس کی آنکھوں میں نمی سی لے آتی ہیں۔ بشیر علی نے وہ کیا کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے وہ کسی مرد آہن سے کم نہیں؟
بشیر علی نے سخت موسمی حالات اور جنگی ادوار میں اپنی تعلیم کو جاری رکھا اور اس علاقے کا سب سے پہلا ایم بی اے (ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن) ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اپنے ہی علاقہ میں واپس آ کر تعلیم اور اپنی ثقافت کو مزید تقویت دینے کے خواہاں ہیں۔
بشیر علی اور گگئی کا ایک خاص تعلق ہے۔ تاؤبٹ سے چند کلومیٹر دور گگئی نامی ایک انتہائی خوبصورت وادی ہے۔ نایاب اور قیمتی جڑی بوٹیوں اور نادر قیمتی پتھروں سے مالا مال گگئی کے پہاڑ ایک دل کش اور دل موہ لینے والا نظارہ پیش کرتے ہیں۔
اس گھنےجنگل کو نیشنل پارک کا درجہ حاصل ہے اور اس میں ریچھ، بندر، ہرن اور دیگر جانوروں کا بسیرا ہے۔ وادی گریس کا خوبصورت ترین علاقہ گگئی کو ہی مانا جاتا ہے۔ یہاں تین بڑے نالے ہیں جن کے نام بالترتیب بلور کسی، ددگئی اور نالہ شکر گڑھ ہیں۔
جن میں شکر گڑھ کا نالہ بہت ہی شفاف ہے اور ایک بہت ہی بڑی جھیل اس کا منبع ہے۔ ان نالوں میں ٹراؤٹ مچھلی کا شکار بکثرت مل جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک صدی قبل انگریزوں نے ٹراؤٹ مچھلی کو ان نالوں میں آباد کرنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی تھی اور ان کی کوششیں رنگ لے آئیں۔
بڑے بڑ ے پہاڑوں کے بیچ ندی نالے اور مزرع گاہیں ہیں جہاں پر ہر سال بکروال لاکھوں بکریوں اور بھیڑوں کے ساتھ اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ جبکہ سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی واپس میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تاؤبٹ جب کبھی سرحد پار سے آنے والے آگ کے گولوں میں لپٹ سا جاتا تو مکین کچھ کلومیٹر دور اس گھنے جنگل میں چھپ جاتے، لیکن زندگی اس وادی میں سستی ہی رہی اور بشیر علی کے کئی دوست اور رشتہ دار اس پار سے آنے والے مارٹر گولوں کی زد سے بچ نہ سکے۔ لاشے گرتے رہے اور کفن بنتے رہے مگر بشیر علی بھی سر پر کفن باندھے اپنے سکول جاتا رہا۔
وہ روزانہ قریب ڈیڑھ ہزار فٹ بلند ایک پہاڑی کی چوٹی پر موجود اپنی پناہ گاہ سے اتر کر صبح تلاشِ علم میں ایک کھلے قبرستان کے ساتھ موجود اسکول جاتے اور پھر واپس شام اپنے گھر لوٹ آتے۔ خوف و دہشت کے ماحول میں یہ ایک دن نہیں، ایک ماہ نہیں، ایک سال بھی نہیں بلکہ کئی سالوں تک اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر علم کی شمع کو جلائے رکھا۔
روزانہ موتا موتی دیکھ کر کوئی کیا پڑھ سکتا ہے بلکہ ہر ذی روح اپنی بقا کی خاطر ایسا علاقہ ہی چھوڑ دیتی ہے۔
مگر اپنے علاقے سے محبت کرنے والے اس مرد آہن نے علم کی محبت میں سرشار ہو کر تحصیل علم جاری رکھا۔ ایسے مواقع بھی آئے جب اسکول پر بھی گولے برسے۔ کلاس فیلوز بھی شہید ہوئے مگر انہوں نے اسکول کی چوکھٹ کو نہیں چھوڑا۔
’’ہم ساتھیوں کو دفن کرکے اگلے دن پھر سکول پہنچ جایا کرتے تھے’’ '
آفرین ہے ان بہادر استادوں اور شاگردوں پر جنہوں نے علم کا عَلم ایسے مشکل حالات میں بھی بلند رکھا۔ آفرین ہے ان ماں باپ پر جنہوں نے ان سخت حالات میں اپنے لخت جگروں کی تعلیم کی خاطر اپنے اندر حوصلہ پیدا کیا۔
محنت کرنیوالوں کو پھر قدرت بھی نوازتی ہے۔ آج تاؤبٹ اور گگئی کی پرسکون وادی کا واحد ایم بی اے بڑے فخر سے سر بلند کیے اپنی ثقافت اور تہذیب کا پرچار کرتے ہیں۔
اسی طرح بشیر علی اور اس جیسے کئی نو جوان اس وادی کی عترت اور سرمایہ ہیں جو آنے والی نسلوں کے لیے علم کی تحریض کے ضامن رہیں گے۔
لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔