پاناما لیکس: ملزمان کے خلاف مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
اسلام آباد کی ایک سیشن عدالت نے منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم بیرون ملک منتقل کرکے آف شور کمپنیاں بنانے والے پاناما لیکس کے کرداروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کے حوالے سے پولیس کے جواب کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
یاد رہے کہ ایک خاتون شہری شہناز بٹ کی جانب سے عدالت میں پاناما لیکس کے کرداروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست جمع کرائی گئی تھی۔
درخواست میں کسی کو نامزد کیے بغیر موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاناما لیکس میں ان ملزمان کے نام آئے ہیں جنہوں نے منی لانڈرنگ کے ذریعے رقم بیرون ملک منتقل کی اور ٹیکس چوری کے لیے آف شور کمپنیاں بنائیں۔
مزید کہا گیا تھا کہ پولیس نے درخواست کے باوجود پاناما لیکس کے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا اور قانونی مشیروں سے مشاورت کا کہہ کر ٹال دیا گیا، جبکہ ایس ایچ او کا موقف تھا کہ ملزمان انتہائی بااثر اور بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں اور قوم کی رقم لوٹنے والوں کے خلاف پولیس کو تفتیش کا حکم بھی دیا جائے۔
اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود نے خاتون شہری کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) آبپارہ کی جانب سے جواب جمع کرایا گیا۔
پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ یہ کیس پولیس کا نہیں بنتا اور درخواست گزار کو بھی اس بات سے آگاہ کر دیا گیا ہے کہ پاناما لیکس کے کرداروں کے خلاف اندراج مقدمہ کے لیے قومی احتساب بیورو (نیب) یا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) سے رجوع کیا جائے۔
عدالت نے پولیس کے جواب جمع کرانے کے بعد اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، بعدازاں کیس کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت اسلام آباد دھرنے سے ایک دن قبل
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف،جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور طارق اسد ایڈووکیٹ نے بھی پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔
2 روز قبل سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد وزیراعظم نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، داماد کیپٹن (ر) صفدر، بیٹوں حسن نواز، حسین نواز، ڈی جی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور اٹارنی جنرل سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کی تھی، بعدازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کے لیے یکم نومبر کی تاریخ مقرر کردی۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ یکم نومبر کو اس کیس کی سماعت کرے گا۔
یاد رہے کہ رواں سال اپریل میں آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لاء فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
ان دستاویزات میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور وزیراعظم کے بچوں کے نام پاناما لیکس میں سامنے آنے پر اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا۔
بعدازاں پاناما لیکس کی تحقیقات کی غرض سے حکومت اور اپوزیشن کی 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، حکومت اور اپوزیشن میں اس حوالے سے متعدد اجلاس ہوئے مگر فریقین اس کے ضابطہ کار (ٹی او آرز) پر اب تک متفق نہ ہو سکے۔
تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ حکومت پاناما لیکس کی آزادانہ تحقیقات کروانے کے لیے اپوزیشن کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) کو تسلیم کرے، دوسری جانب انھوں نے اپنی تحریک احتساب کا بھی آغاز کر رکھا ہے اور اگلے ماہ 2 نومبر کو پی ٹی آئی اسلام آباد میں احتجاج کرنے جارہی ہے۔