پراگ شہر ساتویں صدی میں آباد ہوا جب یہاں ایک انتہائی خوبصورت، دانشمند اور غیبی قوتوں کی حامل سیلوک شہزادی لیبیوز اور ان کے شوہر شہزادہ پریمسل پراگ میں واقع پہاڑ سے چیک کی زمینوں پر پراُمن حکومت کرتے تھے۔
ایسا کہا جاتا ہے کہ ایک دن شہزادی لیبیوز کو بصارت ہوئی جس کے بعد وہ ڈھلان پر کھڑی ہو گئیں اور ندی کے پار جنگل سے گھرے پہاڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "میں یہاں ایک عظیم شہر کو دیکھ رہی ہوں جس کی شان و شوکت ستاروں کو چھوئے گی۔" وہ خوبصرت زمین پراگ کی ہی تھی۔
اس وقت میں اسی شہر پراگ کا تجربہ اپنے دل و دماغ میں سموئے ہوائی اڈے پر موجود ہوں اور یہاں سے مجھے کوپن ہیگن کی فلائیٹ پکڑنی ہے مگر اس شہر کا حسن آنکھوں کی تشنگی بڑھا رہا ہے۔ آخر یہ قدرت کا ہی تو تقاضا ہے کہ خوبصورتی ہمیشہ آنکھوں کو بھاتی ہے اور حسن کی تشنگی حسن سے بجھتی نہیں بڑھتی ہے۔
ان خوبصورتیوں میں سے ایک چارلس برج بھی ہے۔ اس پل کا نظارہ آپ کے دل میں چھپی کوئی پرانی کہانی ضرور یاد دلائے گا۔ چارلس پل سے پراگ کے قلعے کو دیکھیے تو دل پر ایک عجیب سنسنی سی طاری ہو جاتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک کبڑا عاشق مغرور حسینہ کے روبرو کھڑا ہو۔
کل میں ایک گھنٹہ اس پل پر کھڑا سیاحوں کی کیفیات پڑھنے کی کوشش کرتا رہا۔ معلوم ہوا کہ یہاں صرف میرا حال ہی ایسا نہ تھا، اس پل کے جادو سے ہر آنکھ مسحور تھی۔ درجنوں قومیتوں کے سینکڑوں لوگ حسین مناظر سے بھرے اس شہر میں آنکھیں خیرہ کرنے آئے تھے، جسے لوگ پراگ کہتے ہیں، چیک ریپبلک کا دارالخلافہ، وہی چیک ریپبلک جو کبھی چیکو سلواکیہ ہوا کرتا تھا۔
2014 کے اعداد و شمار کی سالانہ اوسط کے مطابق سالانہ 64 لاکھ سیاح پراگ کا رخ کرتے ہیں۔ اگر اس تعداد کو یومیہ کے حساب سے دیکھا جائے تو اوسطاً سترہ ہزار سیاح یہاں روزانہ آتے ہیں۔ چلیے ہم آپ کو بھی اس حسن و جمال کے شہر کا تحریری و تصویری تجربہ کرواتے ہیں۔
دنیا کے بھر کے سیاح آخر اس قدیم شہر کو پسند بھی کیوں نہ کریں، انسان تو انسان ٹھہرا، چاہے ترقی کی منازل طے کر لے مگر ماضی کی ہر شے اسے ہمیشہ شاندار لگتی ہے، چنانچہ سیاح اس شہر میں سموئی تاریخ کو ٹٹولنے آتے رہتے ہیں۔
اس شہر میں دیگر کون سی خوبیاں ہیں جو سیاحوں کے قافلے یہاں کھنچے چلے آتے ہیں؟ پراگ کو تاریخی اعتبار سے محفوظ رہنے والے شہروں میں سے ایک شہر سمجھا جاتا ہے۔ یہ شہر وسطی یورپ میں ہے اور اس طرح پراگ مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان ایک پل کا کردارادا کرتا ہے۔
شاید اس خوبی کا ثمر ہے کہ یہاں یورپ کے بہت سے ملکوں کے مقابلے میں مہنگائی کافی کم ہے۔ پراگ کی جاگتی راتوں میں عیاشیوں کی چمک اہلِ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہے، جہاں بیئر کی بوتل پینے کے پانی سے سستی ہے۔
پراگ میں ذرائع سفر
پراگ میں میرا قیام تین روز پر محیط تھا۔ میرے میزبان اور گائیڈ پاکستانی دوست اور اسکالر ڈاکٹر منظور ساہی تھے، انہوں نے مجھے تین روزہ سفری پیکج لینے کی تجویز دی، اس کی مدد سے تین دنوں کے لیے شہر کی ہر پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بس، ٹرام، میٹرو سب پر سفر کیا جا سکتا ہے۔
ایسے سفری پاس یورپ کے اکثر شہروں میں دستیاب ہوتے ہیں، جس میں ایک دن، دو دن یا تین دن کے لیے ساری پبلک ٹرانسپورٹ کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایسے پاس بار بار ٹکٹ خریدنے کے جھنجھٹ سے بہت بہتر ہوتے ہیں، کہ آدمی ایک ہی بار ایسا پاس اپنے پاس رکھ لے، اور ان کی قیمت تین دنوں کے انفرادی ٹکٹس سے کافی سستی بھی پڑتی ہے۔
پراگ میں عوامی ذرائع سفر بہت بہتر ہیں اور سستے بھی، وہ تین دن کا پاس مجھے پاکستانی دو ہزار روپے سے بھی کم قیمت میں ملا اور اس کا جتنا بھی فائدہ اٹھا جاسکتا تھا، میں نے اتنا ہی فائدہ اٹھایا۔ آخری دن تو میں نے چار سے پانچ ٹرام لائنوں کی خوب سیر کی۔ ٹرام سے اترے تو بس پر، اور بس سے اتر کر میٹرو پر پاس نے پراگ کا چپہ چپہ دکھا دیا۔ پراگ کی پبلک ٹرانسپورٹ چوبیس گھنٹے چلتی ہے، بس رات کے وقت اوقات کار میں کچھ تبدیلی کر دی جاتی ہے۔
چارلس برج
اگر آپ فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں تو کسی نہ کسی فلم میں آپ نے یہ پل دیکھ رکھا ہوگا۔ اس پل کی تعمیر کی کہانی بھی کافی فلمی سی ہے۔ یہاں کے بادشاہ چارلس چہارم علم الاعداد میں دلچسپی رکھتے تھے لہٰذا اس کی تعمیر کا آغاز 9 جولائی 1357 کو ٹھیک 5 بج کر 31 منٹ پر کیا گیا۔ اگر اس تاریخ کو لکھا جائے تو 531-9-7-1357 بنتا ہے۔ ان کا ایسا ماننا تھا کہ اس طرح یہ پل تباہی کا شکار نہیں ہوگا۔
یہ پل 2,037 فٹ لمبا اور قریب 31 فٹ چوڑا ہے۔ یہ برج 1841 تک دریائے والٹوا کو پار کرنے کا واحد ذریعہ تھا۔ اسی وجہ سے یہ پل مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان ایک اہم تجارتی راستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔
اس پل پر درجنوں فن کار پنسل کی مدد سے لوگوں کی لائیو تصاویر بناتے ملتے ہیں، میوزک کے متوالے بھی دو تین جگہوں ہر مستقل ڈیرہ ڈالے رکھتے ہیں اور یوں گزرنے والوں کو مستقل لائیو موسیقی سننے کو ملتی رہتی ہے، جو اس تاریخی پل اور دلکش نظارے میں مزید دلفریبی پیدا کر دیتی ہے۔
پراگ میں تین دنوں کے دوران جتنی بار بھی اس پل پر سے گذرا لوگ ہجوم در ہجوم اس پل پر کھڑے ملے۔ اسی پل پر ہاتھ سے بنے ہوئے زیورات بیچنے والوں کا بھی راج ہے۔ تختہ سیاہ کو کھڑے کرنے والے لکڑی کے اسٹینڈ جیسے اسٹینڈ پر تھوڑی جگہ میں لوگ زیورات کی نمائش کر رہے تھے۔
اپنی محبت کو دوام بخشنے کے لیے نئے شادی شدہ جوڑے عروسی لباسوں میں گھومتے ہوئے بھی نظر آئے۔ یہ پل کیا ہے؟ بس یوں سمجھیں کہ ایک دنیا آباد ہے، جس میں سارے پراگ کی خوبصورتی اور حسن کا نچوڑ سمایا ہوا ہے۔
گرد و نواح کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے کے لیے پل کے کونوں پر برجیوں پر چڑھا جا سکتا ہے، جس کی فیس لگ بھگ 700 سے 800 روپے ہوگی۔ گو کہ اوپر کھڑے ہونے کی جگہ خاصی مناسب تو نہیں مگر پھر بھی اگر کسی کو میری طرح اس پل سے محبت محسوس ہو تو ان برجیوں پر ضرور چڑھیے گا۔ پل کی خوبصورتی کا یہ رنگ آپ کے ذوقِ نظر کی بھر پور تسکین کرے گا۔ میں کل شام اس پل سے لوٹ آیا ہوں، ایک وعدہ کر کے کہ پھر آؤں گا، جی ہاں کچھ ایسا ہی سحر ہے پراگ کے اس پل پر۔
پرانے ٹاؤن کی طرف والی برجی کے ساتھ چارلس چہارم کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے جو کن لوگوں کو فن کی داد پر مجبور کرے گا یا پھر لوگوں کو ایک سیلفی کھینچنے کی طرف تو ضرور مائل کرتا ہے۔
اولڈ ٹاؤن اسکوائر اور فلکیاتی گھڑی
ویسے تو پراگ خوبصورت ہی ہے مگر اس کا اولڈ ٹاؤن پرانی دوستی کی طرح ہلکا ہلکا سرور دیتا رہتا ہے۔ زیادہ باتیں نہیں کرتا بس ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے، Wenceslas Square سے چارلس برج کی طرف جائیے تو اولڈ ٹاؤن اسکوائر کے مینارے اپنی جانب توجہ مبذول کرواتے ہیں۔
پراگ کی مشہور فلکیاتی گھڑی بھی اسی اسکوائر پر واقع ہے۔ وہاں موجود ایک کلیسا کی عمارت کے نوکدار مینارے آپ کو کچھ اور دیکھنے نہیں دیں گے، اس چرچ کا نام چھون چرچ ہے، جسے 14 ویں صدی میں بنایا گیا ہے۔
اس اسکوائر کے تین کونوں پر تین خوبصورت عمارتیں ہیں جن میں مجھے سب سے دلکش عمارت یہی لگی، پراگ میں قیام کے سبھی دنوں میں اس اسکوائر پر جانے کا اتفاق ہوا، ہر روز اس اسکوائر پر لوگوں کا بہت زیادہ رش تھا۔
بہت سے لوگ ہر گھنٹے کے مکمل ہونے پر ایسٹرونومیکل کلاک کو دیکھنے جمع ہوتے، جہاں گھنٹہ مکمل ہونے پر کھڑکیاں کُھلتیں ہیں اور کچھ مجسمے حرکت میں آتے ہیں، یہ دنیا کا تیسرا پرانا ایسٹرونومیکل کلاک ہے جو ابھی تک کام کر رہا ہے۔
پراگ کا قلعہ
دوسرے روز بھی پراگ کے دیگر نظاروں کی دید کے پروگرام بنا لیے۔ ان میں پراگ کے قلعے جانا طے پایا مگر بارش تھی کہ گھر تک محصور بنائے ہوئے تھی۔ لیکن یہ بھی کیسے ہو سکتا ہے کہ یورپ میں آپ بارش کے ڈر سے دبکے بیٹھے رہیں۔ سو ہم اس رم جھم میں بھی چل پڑے، پہلے پہل تو موسم سرگم سناتا رہا لیکن جونہی قلعے کے باغیچے تک پہنچے تو رم جھم کی سرگم راگ ملہاری کے اونچے اونچے سر میں تبدیل ہو گئی۔
یہ باغیچہ غیر معمولی اہمیت کا حامل شاہی باغیچہ ہے۔ وہاں موجود کیاریاں اور بالترتیب لگے پھول اس باغیچے کی نفاست اور شاہی نگہبانی کی گواہی دے رہے تھے۔ تیز بارش کے تھمنے کا انتظار کرنا تھا تو وہاں کھڑے درختوں تلے اپنے وجود کو پانی کی بوندوں سے بچانے کی ناکام کوشش میں فضا میں چھڑے رم جھم کے الجھے سروں سے محظوظ ہوتے رہے۔ بارش ہلکی ہوئی تو میری سیر بھی جاری ہوئی۔
قلعے کی سیر کو آنے والوں کی تعداد سے لگ رہا تھا کہ لوگوں کو بارش کی کچھ پرواہ ہی نہیں۔ یہ قلعہ دنیا کے سب سے بڑوں قلعوں میں سے ایک ہے۔ اسی قلعے کے اندر سینٹ ویٹوز کا چرچ ہے، جس میں بہت سے بادشاہوں کے مقبرے موجود ہیں۔
اسی چرچ کے پیچھے ایک اور چرچ ہے جس کا نام سینٹ جارج بیسیلیکا ہے، جسے پراگ کا قدیم ترین اور محفوظ حالت میں موجود چرچ سمجھا جاتا ہے۔ اس چرچ کی بنیاد 920 عیسوی میں رکھی گئی۔ اب اس کو بوہیمین آرٹ گیلری کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
اس چرچ کی ساتھ والی گلی سے گزر کر ڈھلوان کی طرف اتر آئے، یہاں سے سارے شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ بارش قدرے تھم چکی تھی، اس لیے ہم نے یہاں آ کر شہر کی کچھ تصاویر بنائیں اور قلعے کو شہر سے ملاتی ہوئی سیڑھیوں پر چلے آئے۔
وینسیسلاس اسکوائر اور بوہیمین کرسٹل
کاروباری اعتبار سے اس اسکوائر کو شہر کا دل کہا جا سکتا ہے۔ یہاں بے شمار ملکی و غیر ملکی کمپنیوں کے دفاتر ہیں اور سب سے بڑھ کر پراگ کی راتوں کی ساری رونق اسی اسکوائر سے ہے۔ اس اسکوائر کے کونے پر ایک بڑا میوزیم ہے مگر وہ تعمیراتی کاموں کی بنا پر بند تھا، چلیے اس چیز کی ذمہ داری قسمت پر ڈال دیتے ہیں۔
یہاں بے شمار نائٹ کلبز اور بار ہیں۔ رات دس بجے کے بعد جب شاپنگ کی دکانیں بند ہو جاتی ہیں تو پراگ کی رات کا آغاز ہوتا ہے۔ مختلف کلبوں کے سیل مینز بھی اپنے انداز میں اپنے اپنے کلب کے لیے لوگوں کو گھیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
پراگ میں بننے والی کرسٹل کی چیزیں کافی شہرت رکھتی ہیں۔ اولڈ ٹاؤن اسکوائر میں جا بجا کرسٹل سے بنی ہوئی اشیاء کی دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اس کرسٹل کو اس علاقے کی نسبت سے بوہیمین کرسٹل کہا جاتا ہے۔
کرسٹل کی مصنوعات کی کچھ دکانیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔
ہاتھ سے بنے ہوئے کرسٹل کے برتن، کپ، سجاوٹی اشیاء بہت خوبصورتی اور نفاست کے ساتھ الماریوں میں سجائی گئی تھیں۔ کرسٹل سے بنی جیولری بھی جا بجا اپنی خوبصورتی کو بہاتی نظر آ رہی تھی۔ دکاندار خوش دلی سے سیاحوں کا استقبال کر رہے تھے اور ہم ایسے نظر بازوں کو تصویر کھینچنے کی کھلی چھٹی دے رہے تھے۔
ٹریڈلو، فرائیڈ چیز اور اسٹک والا آلو
پراگ کے بارے کچھ لوگوں نے لکھا کہ یہاں رول والی پیسٹری ٹریڈلو یا ٹریڈلنِک ضرور کھانی چاہیے سو ہم نے کھا کر دیکھی۔ پاکستان میں جیسے کریم رول بنائے جاتے ہیں، بالکل اس سے ملتی جلتی چیز کو ٹریڈلو کہا جاتا ہے، فرق بس اتنا ہے کہ یہاں اس کو گرم گرم بیچا اور کھایا جاتا ہے، اور تھوڑا نرم رکھا جاتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی پیسٹریاں یا رول سکینڈے نیویا میں عام ملتے ہیں، جن کا ذائقہ ننانوے فیصد ایسا ہی ہوتا ہے۔
دوسری چیز جو میں نے ایک ویڈیو میں دیکھی تھی کہ ایک آلو کو اس انداز میں کاٹا جاتا ہے کہ وہ ایک لمبا سا آلو کا ٹکڑا بن جاتا ہے اور ایک لکڑی کی پتلی اسٹک کے گرد لپٹا ہوتا ہے۔ اور اس کو اسی سٹک کے ساتھ فرائی کر لیا جاتا ہے۔ آلو کے چپس تو آپ نے بھی بارہا کھائے ہوں گے، یہ بھی ویسی ہی ہے بس ذرا بنانے اور پیش کرنے کا انداز منفرد تھا۔
جس دکان سے ہم نے یہ آلو لیے لگتا تھا کہ اس نے فرائی کرنے والا آئل کافی دیر سے بدلا نہ تھا کیوں کہ اس میں کسی ماٹھے ہوٹل کے تیل کا ذائقہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔
پراگ کے کھانوں میں فرائیڈ چیز کی بھی شہرت سنی تھی۔ میکڈونلڈ پر فش برگر لینے گیا تو وہاں فرائیڈ چیز کا بھی تذکرہ پایا۔ پھر کیا تھا، فوراً آرڈر کر دیا، اگر آپ چیز کے شوقین ہیں تو پراگ کے سفر میں اس فرائیڈ چیز کو بھی چکھا جا سکتا ہے۔
پراگ میں منی ایکسچینجر
میں نے جتنے بھی سفر کیے ہیں ان میں ابھی تک سب سے زیادہ منی ایکسچینجر پراگ ہی میں دیکھے ہیں۔ جگہ جگہ ایسی دکانیں ہیں جو آپ کی کرنسی کو مقامی کرنسی چیک کرون میں تبدیل کر کے دینے کی سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ایک یورو کے 26، 27 چیک کرون ملتے ہیں۔
ان دکانوں پر ریٹ کا کافی حد تک فرق تھا۔ ویسے تو یورو بھی قبول کر لیے جاتے ہیں لیکن دکاندار وہاں بھی تبدیلی کا ریٹ بہت کم لگاتے ہیں۔ کچھ جگہوں پر یورو کے بدلے 22 چیک کرون دیے جا رہے تھے، اس لیے جب کبھی بھی پراگ تشریف لے آئیں تو ہوشیار باش رہیں۔
فرانز کافکا سے ایک ملاقات اور دریائے ولٹاوا کا کنارہ
ہر وہ شخص جو خوبصورتی کو دیکھ سکتا ہے وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، ایسی خوبصورت باتوں کے خالق فرانز کافکا کی جنم بھومی بھی پراگ ہی میں ہے۔ فرانز کافکا ایک منجھے ہوئے ناول نگار اور افسانہ نگار تھے، انہیں 20 صدی کے ادب میں ایک غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔ اتنے عظیم لکھاری کا جنم پراگ شہر میں مقیم ایک متوسط طبقے کے ایک گھرانے میں ہوا تھا۔
پراگ کے سٹی سینٹر کے پاس ہی کافکا کے سر کا ایک گھومتا ہوا مجسمہ لگایا گیا ہے۔ مجسمہ اسٹیل جیسے کسی دھاتی مٹیریل کے بہت سے گھومنے والے ٹکڑوں سے بنایا گیا ہے، جو وقت کے کسی خاص حصے میں کافکا کی تصویر بناتے ہیں۔ کافکا کی سوچ کو ایسا خراج تحسین کوئی صاحب ذوق ہی دے سکتا ہے۔
جہاز پر سے پراگ کا نظارہ دیکھیں تو بل کھاتا دریائے ولٹاوا اپنے ہونے کا بھر پور اظہار کرتا ہے۔ آخری دن میں نے وشوہر کے قلعے اور اس دریا کے کنارے سیر کی ٹھان لی۔
یہ قلعہ بھی پراگ کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس میں بہت سی مشہور شخصیات کی قبریں ہیں اور ایک دو قدیم گرجا گھر بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پراگ شہر کی ابتدا یہیں سے ہوئی تھی جس کا کچھ تذکرہ شروع میں کیا گیا تھا۔
قلعے کے اندر موجود ایک پرانے چرچ کے رنگین دروازے مجھے بہت خوبصورت لگے۔ اس قلعے کے در و دیوار اور قبرستان دیکھنے کے بعد میں دریا کی سمت سیڑھیاں اتر آیا اور وہاں سے ایک انجانی سمت کو جانے والی ٹرام میں بیٹھ گیا، پھر ایک انجان اسٹاپ پر اتر کر ایک اور انجان سمت کی ٹرام میں بیٹھا۔
ایک جگہ جانی پہچانی سے لگی تو وہاں اتر گیا، یہ چارلس برج کا ایک کونا تھا۔ وہاں سے دریا کے ساتھ ساتھ سفر کا آغاز کیا۔ کچھ ہی آگے کنسرٹ ہال کی خوبصورت عمارت دیکھنے کو ملی۔ وہاں سے دریا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے پراگ کی سیر کروانے والی کشتیوں کا ٹھکانا بھی موجود ہے، جبکہ سامنے دیکھیں تو پہاڑی پر ایک گنبد نما عمارت کا نظارہ ہوتا ہے۔ بس ایسے ہی گھومتے گھومتے میں پھر چارلس برج پر آنکلا۔
پراگ کی سیر کرنے والے آپ کو درجنوں مقامات دیکھنے کی تراغیب دیں گے، تین دنوں میں 80 کلومیٹر پیدل اور پراگ گھومنے کے بعد میرا مشورہ یہی ہے کہ بس پراگ کی گلیوں میں گم ہو جائیں۔ ہر گلی خوبصورت ہے اور ہر راستہ شہر کے دل کی طرف آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پراگ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔
رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا بلاگ یہاں وزٹ کریں: تحریر سے تقریر تک
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (24) بند ہیں