• KHI: Asr 4:14pm Maghrib 5:50pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
  • KHI: Asr 4:14pm Maghrib 5:50pm
  • LHR: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
  • ISB: Asr 3:28pm Maghrib 5:06pm
شائع October 12, 2016

کرکٹ کی تاریخ کا دوسرا ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ کل سے کھیلا جائے گا اور پاکستان کی فیکٹری میں کام کرنے والے مزدور بھی اس میچ کے شائقین میں سے ہوں گے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ہیروز کیلئے اس جدید گلابی گیند کو تیار کیا ہے۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کل سے دبئی میں ڈے نائٹ میچ کھیلا جائے گا جو کرکٹ کی تاریخ کا محض دوسرا اس طرز کا میچ ہو گا تاہم یہ میچ ملک میں کھیلوں کی مصنوعات بنانے کیلئے مشہور شہر سیالکوٹ میں انتہائی جوش و جذبے سے دیکھا جائے گا۔

پاکستان کی کھیلوں کی مصنوعات کی صنعت نئی گلابی گیند کی ترسیل کا سب سے بڑا مرکز بننے کی تیاری کر رہی ہے جو 21ویں صدی میں کھیل کے روایتی پانچ روزہ فارمیٹ کو نئی زندگی دینے کیلئے بنایا گیا ہے۔

1953 سے کرکٹ کی گیندیں بنانے والے گریز آف کیمبرج کے چیف ایگزیکٹو انور خواجہ نے کہا کہ ہم ہر سال 15 سے 20 ہزار گلابی گیندیں بنا رہے ہیں۔ گلابی گیندیں بنانے کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

'گریز آف کیمبرج' کے چیف ایگزیکٹو سیالکوٹ میں اپنی فیکٹری میں گلابی گیند کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
'گریز آف کیمبرج' کے چیف ایگزیکٹو سیالکوٹ میں اپنی فیکٹری میں گلابی گیند کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

گلابی گیند کے عالمی سطح پر استعمال کا آغاز گزشتہ سال ایڈیلیڈ میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلے گئے کرکٹ کی تاریخ پہلے ڈے نائٹ ٹیسٹ میچ سے ہوا تھا جس پر ملے جلے تاثرات سامنے آئے تھے۔

فیکٹری کا مزدور گلابی گیند کی پیمائش کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
فیکٹری کا مزدور گلابی گیند کی پیمائش کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

گیند بنانے کیلئے چمڑے کو کاٹا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
گیند بنانے کیلئے چمڑے کو کاٹا جا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

تاہم کرکٹ میں شائقین کی عدم دلچسپی اور اسٹیڈیم میں شائقین کی کم حاضری کے سبب کرکٹ کے کرتا دھرتاؤں نے ڈے نائٹ ٹیسٹ کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگوں کی توجہ اس فارمیٹ کی جانب مبذول کرائی جا سکے۔

کئی سالوں تک مختلف سطح پر ٹرائل ہونے کے بعد کرکٹ حکام نے رواتی لال گیند کی جگہ فلڈ لائٹ میں گلابی گیند کے استعمال کا فیصلہ کیا کیونکہ یہ دن اور رات دونوں میں نظر آنے کے ساتھ ساتھ سفید کپڑوں کے ساتھکھیلنے کیلئے موزوں بھی ہے۔

انور خواجہ نے بتایا کہ گزشتہ سال ہم نے ہر رنگ کی ایک لاکھ 20 ہزار کرکٹ کی گیندیں بنائیں لیکن ہماری مانگ بڑھ رہی ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں اس سال کم از کم ڈیڑھ لاکھ گیندیں بنائیں۔

ٹیسٹ کرکٹ کھیل کا سب بڑا اور روایتی فارمیٹ ہے جہاں پانچ دن کھیل کے باوجود کبھی کبھار میچ ڈرا پر ختم ہوتا ہے۔

ایک مزدور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گیند کی سلائی کر رہا ہے۔ اے ایف پی
ایک مزدور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ گیند کی سلائی کر رہا ہے۔ اے ایف پی

کھانے اور چائے کے وقفے کے حامل اس میچ میں کو دیکھ کر گزرے عہدوں کا خیال دماغ میں آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ پہلے ون ڈے اور پھر جدید ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کے منظر عام پر آنے سے آہستہ آہستہ اپنی اہمیت کھوتا جا رہا ہے۔

گیند کو رنگنے کیلئے ایک مزدور گلابہ رنگ بنا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
گیند کو رنگنے کیلئے ایک مزدور گلابہ رنگ بنا رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

رنگ برنگی کٹ، چیئر لیڈرز، تیز میوزک اور چوکوں اور چھکوں سمیت تفریح سے بھرپور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا میچ محض تین گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔

تاریخ کا پہلا ٹیسٹ میچ انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان 1877 میں کھیلا گیا تھا۔

ان دو ملکوں کے علاوہ ہندوستان یا پھر کسی حد تک بنگلہ دیش میں ٹیسٹ کرکٹ کے پانچوں دن لوگوں کی بڑی تعداد میچ دیکھنے کیلئے اسٹیڈیم کا رخ کرتی ہے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ اس فارمیٹ کیلئے اشتہارات لانا بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان کو اس سلسلے میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے کیونکہ مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس پر لاہور میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد کسی بھی غیر ملکی ٹیم نے ٹیسٹ میچ کھیلنے کیلئے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔

گزشتہ ماہ پاکستانی ٹیم کو عالمی نمبر ایک کے منصب تک پہنچانے والے کپتان مصباح الحق کو یقین ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کا مستقبل نائٹ ٹیسٹ میچوں سے وابستہ ہے۔

ایک مزدور چمڑے پر گلابی رنگ کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ایک مزدور چمڑے پر گلابی رنگ کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

رنگائی کے بعد چمڑے کی ایک شکل۔ فوٹو اے ایف پی
رنگائی کے بعد چمڑے کی ایک شکل۔ فوٹو اے ایف پی

انہوں نے گزشتہ ہفتے رپورٹرز سے گفتگو میں کہا کہ کھیل شائقین اور حاضرین کیلئے کھیلا جاتا ہے، نائٹ کرکٹ ہی مستقبل ہے اور یہ یقیناً کرکٹ کیلئے اچھی ہے۔

بافخر تاریخ

سیالکوٹ میں کھیلوں کی مصنوعات بنانے کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس کا آغاز 19ویں صدی میں ہوا جب مقامی افراد نے برطانوی فوج کیلئے فٹبال بنانا شروع کی اور پھر آہستہ آہستہ مہارت حاصل کر کے اس شعبے میں نام بنایا۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق آج اس شہر سے سالانہ 900ملین ڈالر کی برآمدات ہوتی ہے اور اس نے 2014 کے فیفا ورلڈ کپ سمیت متعدد عالمی مقابلوں کیلئے گیندیں بنائیں۔

ایک مزدور سیالکوٹ کی ملک اسپورٹس فیکٹری میں گلابی گیند کی سلائی کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
ایک مزدور سیالکوٹ کی ملک اسپورٹس فیکٹری میں گلابی گیند کی سلائی کر رہا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

گیند تیاری کے حتمی مراحل سے گزر رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
گیند تیاری کے حتمی مراحل سے گزر رہی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

1953 میں قائم ہونے والے گریز آف کیمبرج پاکستان میں کھیلوں کی مصنوعات بنانے کا مشہور و معروف نام ہے جو آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ملکوں کیلئے سفید، لال، گلابی اور اورنج رنگ کی گیندیں بناتا ہے۔

اور اب مقامی صنعت کاروں کو امید ہے کہ ان کے پاس مزید آرڈر کی بھرمار ہو گی۔

انور خواجہ نے مزید بتایا کہ ہم گزشتہ سات آٹھ سال سے گلابی گیند بنا رہے ہیں اور اسے خصوصاً آسٹریلیا اور انگلینڈ برآمد کر رہے ہیں۔

کرکٹ کی گیند کا عمومی طور پر وزن 142 سے 163 گرام تک ہوتا ہے تاہم اس کا دارومدار اس بات ہر ہوتا ہے کہ جس طرز کی گیند بنائی جا رہی ہے اور اس کی قیمت چار سے 25 ڈالر کے درمیان ہوتی ہے۔

ان کو چمڑے کے چار ٹکڑوں کے ساتھ سلائی کی جاتی ہے جنہیں دو گول کپ نما شکل میں منتقل کر کے رنگا جاتا ہے جس کے بعد حتمی سلائی سے قبل اسے مشین پر گیند کی شکل دی جاتی ہے۔

گیندوں کو اس کے بعد کرسٹل کے پولی تھین باکس میں کور کر کے ہارڈ باکس میں رکھا جاتا ہے تاکہ بیرون ملک بھیجا جا سکے۔

گلابی گیند کی پیکنگ کی جا رہی ہے۔ اے ایف پی
گلابی گیند کی پیکنگ کی جا رہی ہے۔ اے ایف پی

گیند کی تیاری سے قبل تمام اجزا کے ساتھ اس کا وزن کیا جا رہا ہے۔ اے ایف پی
گیند کی تیاری سے قبل تمام اجزا کے ساتھ اس کا وزن کیا جا رہا ہے۔ اے ایف پی

گلابی گیند کو آزمائشی طور پر دنیا کی مختلف لیگوں میں استعمال کیا گیا لیکن آسٹریلای اور نیوزی لینڈ نے گیند کے سوئنگ نہ ہونے کی شکایت کی اور یہ کہ یہ بہت جلد نرم پڑ جاتی ہے جس سے بلے بازوں کو رن بنانے میں مشکل ہوتی ہے۔

تاہم مصباح کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ کھلاڑی خود کو صورتحال کے مطابق ڈھل لیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم رات میں جتنا زیادہ کھیلیں گے اتنا ہی ہمیں اس کے بارے میں پتہ چلے گا اور کھلاڑی اسے کھیلنے کے عادی ہوتے جائیں گے۔