رنگین کھلونے بنانے والوں کی بے رنگ زندگی
سندھی زبان کے عظیم شاعر شیخ ایاز نے لکھا ہے کہ "اگر پھولوں کو پیٹ ہوتا تو وہ بھی پیشہ (کاروبار) کرتے۔" مطلب کہ اس فانی جہان میں تمام نفوس کو فنا ہونے سے پہلے ہر روز رزق کی تگ و دو کرنی پڑتی ہے، ورنہ زندگی کے عوض ملی سانسیں ریزہ ریزہ ہونے لگتی ہیں۔
محرم الحرام کا مہینہ تمام عالم کو کربلا کے واقعے کی یاد دلاتا ہے اور غمِ حسین میں ڈوبے وجود آج بھی جب کربلا کا تصور کرتے ہیں تو آنکھیں آبدیدہ ہو جاتی ہیں۔
جہاں اس ماہ میں ہمیں مجالس، جلوس، تعزیے، اور ماتم کرتے لوگ دکھائی دیتے ہیں، وہاں حیدرآباد میں ایک بستی ایسی بھی ہے جہاں آباد کولہی قبیلے کے لوگوں کے لیے روزِ عاشور روزگار کے دروازے کھول دیتا ہے۔
یہ قصہ ہے ان جوان اور بوڑھے ہاتھوں کا، ان کے سسکتے اور بلکتے بچوں کا، جو کئی دہائیوں سے آج تک نو اور دس محرم کو بچوں کے کھلونے اور دیگر اشیاء بناتے ہیں۔ حیدرآباد میں رانی باغ کے قریب واقع پیون کالونی میں موجود ان ٹوٹے پھوٹے مکانوں میں کئی عورتیں اور مرد محرم الحرام میں یہ اشیاء بناتے ہیں اور محرم الحرام کے ایام میں بازار میں فروخت کرنے نکل پڑتے ہیں۔
حیدرآباد شہر محرم الحرام کے کلچر کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں اس شہر میں مسلمان آبادی کے عَلم ہیں، وہاں ہندو اور عیسائی لوگوں کے نام سے منسوب عَلم بھی نصب ہیں۔ حیدرآباد کا یہ کلچر مذہبی رواداری کا ایک عمدہ مثال پیش کرتا ہے۔
ویسے تو یہ تمام لوگ حیدرآباد شہر میں سبزی فروش ہیں مگر امام حسین سے ایک خاص عقیدت کی وجہ سے وہ خود کو ان دنوں ایسا مصروف رکھتے ہیں کہ سبزی بیچنے کا کام تھم جاتا ہے۔
ایک گنجان آبادی اور تنگ گلیوں والی اس کالونی میں واقع کولہی قبیلے کے زیادہ تر لوگوں کے گھروں کی چھتیں سرکنڈوں سے بنی ہوئی ہیں، جبکہ دیواروں کی اینٹیں اکھڑ رہی ہیں۔
میں وہاں موجود ایک خاتون کے قریب بیٹھ گیا جو اس وقت رنگیں کاغذ کے پنکھے بنانے میں مصروف تھیں۔ اس کے ہاتھ اس رنگین کاغذ کو مسلسل اس طرح موڑ رہے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں ایک خوبصورت سا پنکھا بن جاتا۔
"آپ اسے کتنے میں بیچتی ہیں اور ان اشیاء کی تیاری کب سے جاری ہے؟" میں نے دریافت کیا۔
"کافی دن ہو گئے ہیں بھائی، اب تھوڑے دن جا کر بچے ہیں، سامان تیار ہونے کے بعد یہاں سے شہر روانہ کر دیا جائے گا، مگر معلوم نہیں کہ اس بار پولیس والے ہمیں یہ سامان بیچنے بھی دیں گے یا نہیں۔"
پچھلے برس ہم نے سامان تیار کیا اور فروخت کرنے لے جانے لگے تھے کہ انہوں نے ہمارے ریڑھے روک لیے تھے اور سارا خرچا گلے پڑ گیا تھا،" وہ پنکھا بناتے ہوئے بنا نظریں اٹھائے بڑبڑاتی رہیں۔ میں نے ان کے لہجے میں تلخی محسوس کر لی تھی۔
پچھلے برس دہشتگردی کے خدشات کے باعث ان مزدوروں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں خالی ہاتھ ہی لوٹنا پڑا۔
میرے پاس اس عورت کے سوال کا جواب تو نہیں تھا مگر وہ خاتون بنا کسی وقفے کے پنکھے بناتی رہیں۔ ان کے مطابق ہر سال تیار کیے گئے سامان میں سے اتنی اجرت مل جاتی ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے تھوڑی بہت آسانیاں ضرور پیدا ہو جاتی ہیں۔
محرم کے مہینے میں بستی کا ہر کمرا چھوٹے سے کارخانے کی صورت اختیار کر لیتا ہے، کہیں چھوٹے ڈھول بن رہے ہوتے ہیں، کہیں لکڑی کی تلواروں کی سجاوٹ جاری ہوتی ہے، کہیں رنگین طوطے بنائے جا رہے ہوتے ہیں تو کہیں پر کلہاڑیاں بن رہی ہوتی ہیں۔
ان اشیاء کی تیاری میں زیادہ تر رنگ برنگی کاغذوں، پلاسٹک کی شیٹوں اور سجاوٹ کے دیگر سامان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان تمام اشیاء میں مہنگی سے مہنگی چیز ڈھول ہوتا ہے جو دو سو روپے تک فروخت کیا جاتا ہے جبکہ سب سے سستی چیز چھوٹی ڈگڈگی ہے جو بیس روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ گوند، گتا، کاغذ، لکڑیاں، رنگین پنکھ اور دیگر سامان سے یہ کھلونے تیار کیے جاتے ہیں.
بستی میں موجود فقیرو گزشتہ کئی برسوں سے کاغذ اور گتے کے گھر بناتا آ رہا ہے۔ اس کے اپنے گھر کی چھت کی بات کریں تو کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب بارش کے زور پر زمین بوس ہوجائے مگر اسی کمزور چھت کے تلے کاغذی در و دیوار سے بنے رنگین اور خوبصورت گھر تعمیر کرتا ہے۔
کاغذ اور گتوں سے چھوٹے گھروندے بنانے کا ہنر وہ بخوبی جانتا ہے۔ ہنر اور اپنی محنت کی مدد سے اس وقت تک وہ کئی گھر بنا چکا ہے جو ریڑھے پر جانے کے لیے تیار ہیں۔
میں نے فقیرو سے کہا، "آپ کے ہاتھ میں بڑی صفائی ہے، بہت خوبصورت گھر بنائے ہیں آپ نے."
فقیرو کہتا ہے کہ "ہاں صاحب بس کیا کریں، محرم کے دنوں میں اس طرح کچھ روزگار کا جگاڑ ہو جاتا ہے، چند پیسے مل جاتے ہیں مگر بہت محنت کرنی پڑتی ہے، ان گھروں کو بنانے کا سامان بھی مہنگا ملتا ہے۔ میں باقی لوگوں کی طرح سبزی بیچتا ہوں مگر ان دنوں میں ایسے کاغذی گھروں کی تیاری میں لگ جاتا ہوں۔"
"آپ کو اس کے کتنا پیسے مل جاتے ہیں؟"
اس نے لاچاری سے کہا، "بس شکر ہے جی، ایک گھر سو روپے تک بک جاتا ہے، اگر اس بار پولیس والوں نے نہ روکا تو امید ہے کہ میرا سارا سامان فروخت ہو جائے گا اور اگر روکا تو یہ سارا خرچہ جو میں نے کیا ہے ضایع ہو جائے گا."
اس پر غربت کے سائے عیاں تھے، جس کی گواہی اس کی کٹیا کی وہ دیواریں بھی دے رہی تھیں، جن میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔
ان تمام اشیاء کے خریدار بچے ہوتے ہیں جو نو اور دس محرم کو ان کھلونوں سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ ان مزدوروں کے محنت کش ہاتھ ہی ہیں جو دیگر بچوں کو چند لمحات کی خوشیاں فراہم کرتے ہیں، مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ ان کے اپنے بچے جیسے تیسے زندہ رہنے کی جدوجہد میں رہتے اور اسکول کی دہلیز تو بہت دور کی بات ہے، وہ انہی گھروں کے تنگ کمروں اور چھوٹے آنگنوں میں اپنا وقت گزارتے نظر آتے ہیں۔
میں بستی کے جس گھر بھی گیا وہاں ہر کسی کے لب پہ یہی شکایت تھی کہ گزارا نہیں ہوتا، غربت نے مار ڈالا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی ڈر لگا رہتا ہے کہ ان کے بنائے ہوئے سامان کے خریدار تو بہت ہیں مگر پچھلے برس جس طرح پولیس کی لاٹھی ان پر برسی تھی اس ڈر سے وہ اس سال کافی سہمے ہوئے دکھائی رہے تھے۔
اس روز ان کے ریڑھے تیار نہیں تھے، ابھی سامان کے بننے کا سلسلہ جاری تھا۔ مجھے ان سجتے ہوئے ریڑھوں کو بھی دیکھنا تھا۔ مگر اس کے لیے مجھے ایک دن اور انتظار کرنا پڑا۔
میں ایک بار پھر اگلے روز وہاں پہنچا، جہاں تمام تیار شدہ سامان کو ریڑھوں پر سجایا جا رہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں یہ ریڑھے رنگوں سے سج گئے۔
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ ان لوگوں کے خواب بھی اتنے ہی رنگین ہوں گے، جو اب تک شرمندہء تعبیر نہیں ہو پائے۔ چند لمحوں میں ان ریڑھوں کی صورت یکسر تبدیل ہو گئی، کچھ دیر قبل لکڑی کا بے رونق سا چار پہیوں والا ڈھانچہ تھا، اب اس میں جا بجا رنگ ہی رنگ تھے۔ کہیں اس میں ڈھول لٹک رہے تھے تو کہیں تلواریں رکھی تھیں، کہیں ہوا پر وہ کاغذی رنگین پنکھے جھول رہے تھے، جنہیں بڑی محنت سے عورتوں کے محنت کش ہاتھوں نے تیار کیا تھا۔
یہ ریڑھے چلتی پھرتی رنگین گاڑی بن گئے تھے، جن کے رنگ آنکھوں کو موہنے کا باعث بن رہے تھے۔ اب ان کی منزل حیدرآباد شہر کے گلی کوچے تھے، جہاں ان چیزوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔
یہ تمام اشیاء صرف حیدرآباد تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ان میں چند کاریگر ایسے بھی ہیں جو صرف کراچی میں اپنا سامان بیچتے ہیں۔
اسی بستی میں بیمار وجود بھی سالوں سے بستر پر پڑے ہیں، جن کے لیے دوا لینا بھی بہت مہنگا سودا ہے۔ مگر یہ چند روز انہیں امید دلاتے ہیں کہ ان کے ہاتھوں سے کی ہوئی محنت ان کی مشکلوں اور دکھوں کا مداوا کرنے میں کام آئے گی۔
اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں، اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر ریے ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (7) بند ہیں