گاؤں میں یونیورسٹی یا خوش فہمی؟
"تو پھر کون سی یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے رہی ہو؟"
میں نے امتیازی نمبروں سے بی اے کے امتحانات پاس کرنے والی گاؤں سے آئی اپنی کزن سے پوچھا.
اس کا جواب تھا، "یونیورسٹی؟ ہمارے گاؤں میں تو ابھی یونیورسٹی بنی نہیں ہے۔"
اسے یہ خوش فہمی تھی کہ اس کے گاؤں میں ایک یونیورسٹی بھی قائم ہوگی۔
میں نے کہا، "تو بھئی گاؤں میں کون کہہ رہا ہے. میں تو شہر کی بات کر رہی ہوں۔"
حیران کن لہجے میں آنے والے جواب نے بھی میری گرم جوشی کم نہ کی۔
"مطلب گھر سے دور کسی شہر میں؟"
میری کزن کی آنکھیں جیسے حیرت سے پھیل گئیں۔
"ہاں نہ، کیوں انسان نہیں پڑھتے کیا شہروں میں؟"
"نہیں آپی، آپ سمجھی نہیں، وہ دراصل ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کو شہر نہیں بھیجتے پڑھنے کے لیے، ابو نہیں مانیں گے، کھبی بھی نہیں۔"
میرے چڑنے پر مندرجہ بالا وضاحت آئی۔
"اب ابو کہاں سے آگئے یار، پڑھنا تمہیں ہے یا ابو کو، بی اے بھی تو ابو نے ہی کروایا ہے ناں۔"
"لیکن وہ تو میں نے اپنے گاؤں میں ہی رہ کر کیا ہے، خود ہی، بس گھر کے قریب اکیڈمی جاتی تھی۔"
"اوہ، تو پرائیویٹ بی اے کیا ہے تم نے، گاؤں میں کوئی کالج بھی نہیں کیا؟"
ہاں نہیں ہے ناں آپی، ابو کہتے ہیں گاؤں میں رہ کر جتنا پڑھنا ہے پڑھ لو، میں شہر نہیں جاسکتی، کوئی نہیں جاتا ہمارے گاؤں سے شہر پڑھنے۔"
"مطلب کوئی لڑکی نہیں جاتی۔"
میری حیرانگی کی کوئی حد نہ رہی۔
"لوگ باتیں کرتے ہیں، جانے کہاں گئی ہے، کیا کرتی ہے، عجیب عجیب باتیں۔"
"حد ہے۔ تم سے ایسی باتوں کی توقع نہیں تھی مجھے۔"
میرا صبر جیسے جواب دے گیا تھا۔
"اس کا قصور نہیں بیٹے، جو وہ سنے گی اور دیکھے گی، اس کی سوچ بھی تو ویسی ہی ہو گی ناں۔"
بظاہر میری امی سے باتوں میں مصروف، قریب بیٹھی میری پھپھو یعنی میری کزن کی امی اچانک بول اٹھیں۔
"وہ گئی تھی ناں ایک لڑکی ہمارے گاؤں سے شہر پڑھنے، مگر اس کے بارے میں لوگوں نے کیا کیا باتیں نہیں کیں۔ کوئی کہتا تھا وہاں کام کرتی ہے، کوئی کہتا لڑکوں کے ساتھ پھرتی ہے، گاؤں میں رشتہ تک نہیں ہوا اس کا۔ بچیوں کو بہت شوق ہے پڑھنے کا، آگے بڑھنے کا، لیکن کیا کریں لوگوں کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔"
ایک عرصے بعد اپنی پھپھو کے گھرانے سے ہونے والی ملاقات مجھ پر حیرت طاری کیے جا رہی تھی۔
دنیا مریخ پر بسنے کی تیاری کر رہی ہے اور کرہء ارض کے اس حصے پر آج بھی یہ باتیں ہوتی ہیں۔
میرے لیے ان باتوں پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے، آخر یہ عمل کس شخص کو قابل قبول ہوگا کہ اس کے تعلیمی سفر میں فرسودہ ریت و رواج کی رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں؟
تلخ ہی سہی، مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ دیہی علاقوں میں بسنے والی آبادی کی اکثریت آج بھی خواہش کے باوجود آگے بڑھنے کی لگن پر خود ساختہ پہرے بٹھائے ہوئے ہے۔
تعلیم کے زیور میں ہی ترقی کے جواہر اپنی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ تعلیم ضرورت ہے، دیہاتوں میں تعلیمی ادارے تباہ حال ہیں، معاشرتی مسائل تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، لوگوں میں تعلیم کے حوالے سے آگاہی کی قلت ہے، ایسے مسائل کا رونا لکھتے لکھتے قلم خشک ہوگئے۔
یہ توجہ دلاتے دلاتے گلے بھی سوکھ گئے ہیں کہ کس صوبے کی کتنی آبادی ہے، کتنے اسکول، کتنے بچے اسکول نہیں جاتے، کیوں نہیں جاتے، اعداد و شمار کے حوالوں سے سر چکرا اٹھے گا۔
اسکول ہے استاد نہیں، استاد ہے اسکول نہیں، ایسے مناظر دکھا دکھا کر کیمروں کے لینز اکتا گئے ہیں۔ مگر یہ تمام معلومات فراہم کرنے سے کیا ہوا؟
مجھے تعلیمی آگاہی سے سرشار تحریر لکھنا مقصود نہیں تھا، بس یہ بتانا تھا کہ پاکستان کہلانے والے کرہ اراض کے ایک ایسے حصے میں جہاں پرائمری سطح کی سرکاری تعلیم کو تعلیم کہنے کے قابل نہ بنایا جاسکا، وہاں ایک گاؤں میں بستی ایک لڑکی ایم اے کرنے کے لیے اپنے گاؤں میں یونیورسٹی کی خواہش رکھتی ہے۔
میرا قلم اٹھا تو اس لڑکی کی خوش فہمی پر۔