’پاکستان کی پالیسی سازی میں عسکریت پسندی کا کوئی عمل دخل نہیں‘
واشنگٹن: امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے پانچ روزہ دورہ مکمل کرنے والے پاکستانی پارلیمانی وفد نے واضح کیا ہے کہ پالیسی سازی میں عسکریت پسندی کا کوئی عمل دخل نہیں جبکہ غیر ریاستی عناصر کو پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کشمیر کے معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے نامزد کردہ خصوصی نمائندوں نے پاکستانی و بھارتی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کوکم کرنے کے لیے امریکا نے مثبت کردار ادا کیا۔
کشمیر کے معاملے پر پاکستان کا موقف امریکی عہدے دارروں کے سامنے پیش کرنے کے لیے جانے والے دو رکنی وفد میں شامل مشاہد حسین سید نے کہا کہ انہیں اس بات پر کوئی حیرانگی نہیں ہوگی اگر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سارک سمٹ میں شرکت کے لیے اسلام آباد آجائیں اور نواز شریف سے بغل گیر ہوجائیں۔
وفد میں شامل رکن اسمبلی شیزرا منصب علی نے کہا کہ مذاکرات کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں اور یہی پیغام امریکا کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت کو دیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں بربریت اجاگر کرنے کیلئے 20 ارکان پارلیمنٹ نامزد
نیوز بریفنگ میں پاکستانی میڈیا میں گردش کرنے والی اس خبر کہ ’سول حکومت نے عسکری قیادت کو واضح پیغام دے دیا ہے کہ اگر کراس بارڈر حملے نہ روکے گئے تو پاکستان مکمل طور پر سفارتی تنہائی کا شکار ہوجائے گا‘ کی بھی بازگشت سنائی دی۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے ہے جہاں تمام جماعتوں نے مل کر 22 نکاتی قرار داد تیار کی ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عسکریت پسندی کو ختم کرے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی کی پالیسی سازی میں عسکریت پسندی کا کوئی کردار نہیں اور غیر ریاستی عناصر کو پاکستانی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
پارلیمانی وفد نے امریکا میں اعلیٰ حکام سے ایک درجن سے زائد ملاقاتیں کیں اور انہیں عسکریت پسندی اور خاص طور پر سرحد پار حملوں کے معاملے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
18 ستمبر کو کشمیر میں اُڑی فوجی کیمپ پر ہونے والے حملے جس میں 18 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے، اس کے بعد سے تقریباً ہر روز ہی امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون، امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس پاک بھارت کشیدگی اور کمشیر کی صورتحال پر بات کررہے ہیں۔
امریکی حکام مسلسل اپنے بیانات میں اڑی حملے کا تذکرہ کررہے ہیں اور اسے سرحد پار دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ ان حملوں کو روکے۔
اُڑی حملے سے کشمیریوں کی جدوجہد متاثر
امریکی میڈیا میں اُڑی حملے کے بعد ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے جو بھی ہمدردی پیدا ہوئی تھی وہ پس پشت چلی گئی۔
8 جولائی کو برہان وانی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والی مزاحمت کی نئی لہر نے امریکی میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی اور بڑے امریکی میڈیا اداروں نے کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کی تھی اور مسئلہ کشمیر کے حل پر زور دیا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا کا پاکستان سے پھر 'ڈو مور' کا مطالبہ
تاہم اُڑی حملے کے بعد امریکی میڈیا کی توجہ کشمیر سے ہٹ کر عسکریت پسندی کی جانب ہوگئی اور بعض رپورٹس ایسی بھی سامنے آئیں جن میں پاکستان پر اپنی سرزمین عسکریت پسندوں کو استعمال کرنے کا کھلم کھلا الزام عائد کیا گیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی پاکستان کو اسی طرح تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، وزیر اعظم نواز شریف نے کشمیر کا معاملہ بھرپور طریقے سے اٹھایا لیکن انہیں اتنی ہمدردی حاصل نہیں ہوئی جو شاید اُڑی حملہ نہ ہوتا تو حاصل ہوسکتی تھی۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے وزیر اعظم نواز شریف کی ملاقات کے بعد محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ جان کیری نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین ہر طرح کے دہشت گردوں کو بطور محفوظ پناہ گاہ استعمال کرنے سے روکے۔
دیگر اہم ممالک جیسے فرانس اور برطانیہ کے اقوام متحدہ میں موجود مشنز کی جانب سے بھی اسی طرح کے بیانات سامنے آئے تھے۔
واشنگٹن میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے نامزد کردہ خصوصی نمائندوں کو عسکریت پسندی سے عمومی طور پر پاکستان کی ساکھ اور بالخصوص کشمیر کے مقصد کو پہنچنے والے نقصان کا احساس ہوگیا ہے۔
میڈیا بریفنگ کے بعد پاکستانی نمائندوں نے کہا کہ امریکی پاکستان کو ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ مضبوط تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں جبکہ ہمیں واشنگٹن میں پاک بھارت موجودہ کشیدگی کو کم کرانے کی زیادہ خواہش نظر نہیں آئی۔
سینیٹر مشاہد حسین نے امید ظاہر کی کہ نئی امریکی انتظامیہ اوباما انتظامیہ سے بہتر ہوگی جو ممکنہ طور پر زیادہ متوازن، اسٹریٹجک اور یکساں پالیسی اپنائے گی۔
یہ خبر 9 اکتوبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی