جنگی جنون اور ڈیڑھ ارب انسان
تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان اور بھارت کئی بار بارود کا کھیل کھیل چکے ہیں۔ کبھی اِس تو کبھی اُس پار سے الزام تراشی کا ایسا سلسلہ چل نکلتا ہے کہ دونوں ملکوں میں جنگی جنون اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کو اس جنون میں مبتلا کر دیا ہے۔ اُڑی حملے کے بعد بھارت کی طرف سے آزاد کشمیر میں سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا گیا تو پاکستان کی طرف سے بھی جوابی کارروائی میں بھارت کو شدید نقصان پہنچانے کا دعویٰ سامنے آیا۔
اس کے بعد سے اب تک ٹوئٹر ٹرینڈز سے لے کر دونوں ملکوں کے ٹی وی ٹاک شوز میں صرف اور صرف ایک ہی موضوع زیرِ بحث ہے اور وہ ہے پاک بھارت جنگ۔ دونوں طرف کے چند حلقوں کا اپنی اپنی حکومتوں پر مسلسل دباؤ ہے کہ جنگ کو ٹی وی شوز سے نکال کر حقیقی میدان میں لایا جائے، مگر کیا یہ واقعی اس خطے کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے مفاد میں ہے؟
مسلح جنگ ہونے کی صورت میں جو نقصان ہوگا سو تو ہوگا مگر جنگ کا ماحول بنائے رکھنے سے جو نقصان ہو رہا ہے اور مستقبل قریب میں ہوگا وہ بھی کسی طور پر کم نہیں۔
پڑھیے: جنگ سے زیادہ اہم اور ضروری کام
جنگی جنون کو ہوا دینے سے جہاں ایک طرف بھارت میں انتہا پسند ہندو جماعتیں بشمول بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مضبوط ہوں گی، وہاں دوسری طرف پاکستان میں بھی چند مسلح گروہ مستحکم ہوں گے، جس کا نتیجہ دونوں ملکوں کی اندرونی حالات میں مزید شدت پسندی کی صورت میں نکلے گا۔
جب بھی کسی ملک کی حکومت میں جنگی جنون عود کر آتا ہے تو سب سے پہلے وہ میڈیا کے ذریعے عوامی رائے پر اثرانداز ہونا شروع کرتی ہے جس کی مثال حال ہی میں ہونے والا سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ ہے۔ بغیر کسی ثبوت کے بھارت نے اپنے عوام کو یہ کہانی زور و شور سے سنائی کہ اس نے پاکستان میں کارروائی کر کے 'دہشتگردوں' کو ٹھکانے لگایا ہے۔
اس پوری کہانی کا مقصد صرف یہ تھا کہ عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اپنی حمایت اور مقبولیت میں اضافہ کیا جائے۔ اس کا قلیل مدتی فائدہ تو شاید مودی حکومت کو ہو، پر اگر پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے تحمل اور بردباری سے کام نہ لیا جاتا تو صورتحال قابو سے باہر بھی نکل سکتی تھی جس کا خمیازہ دونوں طرف کے عوام بھگتتے۔
جنگوں کا محاذ سستا نہیں ہوتا، معیشت کا ایک کثیر حصہ اس میں صرف ہو جاتا ہے۔ جنگوں کا مالی بوجھ تو ایک طرف رکھیں مگر جنگ کے لیے تیار رہنا بھی گھاس کھلانے پر مجبور کر دیتا ہے۔
فوجوں کو تیار رکھنے سے لے کر جدید اسلحہ اور گولہ بارود حاصل کرنے پر اربوں ڈالرز لگتے ہیں۔ جنگوں میں کچھ غیر مسلح پروپیگنڈے شامل ہوتے ہیں جن پر بے تحاشہ وسائل کا زیان ہوتا ہے۔ مسلح جنگ سے قبل ایک طویل سیاسی اور معاشی لڑائی لڑی جا رہی ہوتی ہے اور اس کے لیے اتحاد بنائے جاتے ہیں، وفاداریاں خریدی جاتی ہیں، دوست اور دشمن الگ کیے جاتے ہیں۔
جانیے: مودی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے؟
ان سب کاموں پر وسائل خرچ ہوتے ہیں اور پاکستان اور بھارت دونوں اس وقت یہ اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔
عام حالات میں جو بجٹ تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کے لیے مختص ہوتا ہے جنگی ماحول میں وہ دفاع کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان اور بھارت جہاں پہلے سے ہی تیس تیس فی صد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندہ رہ رہی ہے ، جہاں صحت، تعلیم، پانی، روزگار جیسی بنیادی سہولتیں اکثریتی آبادی کی پہنچ سے دور ہیں، وہاں اگر اس جنگی جنون کے ساتھ چند سال اور گزرے تو مستقبل قریب میں دونوں طرف غربت، بیماری، جہالت اور دکھ درد کی شرح اور بھی زیادہ بلند سطح پر ہوگی جبکہ بے پناہ درد پھیلا ہوگا کہ جس کا شاید ابھی پیمانہ دریافت ہی نہیں ہوا۔
ہاں یہ درست ہے کہ جب بیرونی دشمن کے حملے کا ڈر ہو توعموماً کسی بھی قوم و ملک کے لوگ آپس کے اختلافات بھلا کر دشمن کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں مگر وقتی ضرورت کے پیشِ نظر بننے والے ایسے اتحاد مصنوعی اور عارضی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی جنگ کا خطرہ ٹلتا ہے یا جنگ ہو کر ختم ہو جاتی ہے تو آپس کے اختلافات پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
پڑھیے: اب معاشرے کو دفاع کی ضرورت ہے
پاکستان اور بھارت میں ایسی مثالوں کی کمی نہیں۔ جہاں پاکستان کے ماضی سے سقوطِ ڈھاکہ ہمارے سامنے ہے وہاں بھارت کے ماضی سے خالصتان اور ناگا لینڈ کی تحریکیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ جنگ پرستی کی انتہا تقسیم در تقسیم ہی ہے۔
پاکستان اور بھارت اگر اپنے مسائل کو امن اور سنجیدگی سے حل نہیں کرتے تو دونوں اندرونی مسائل کے دلدل میں وہاں تک دھنس جائیں گے جہاں سے نکلنا ممکن نہیں رہے گا۔