کیا پاکستان سائبر جنگ کے لیے تیار ہے؟
پچھلے چند برسوں میں کمپیوٹر سسٹمز ہیک کر کے دوسرے ممالک کی اہم سول اور خصوصاً دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچانے کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں روایتی جنگوں کی جگہ سائبر وارز لے لیں گی۔
مگر انفرادی طور پر کام کرنے والے ہیکرز کو چھوڑ کر میں یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان سائبر وار کے میدان میں ابھی بھی کافی پیچھے ہے۔
دنیا کو سائبر حملوں سے جس قدر خطرہ آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ پوری دنیا کے دفاعی اور مالیاتی نظام کو ہیکرز سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہیکرز دو طرح کے ہوتے ہیں، پہلے وہ جو انفرادی طور پر کام کرتے ہیں، ان میں زیادہ تر کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم ہوتے ہیں جو محض اپنے شوق اور شہرت حاصل کرنے کے لیے سسٹمز میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے ہیکرز میں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں جو بذریعہ ہیکنگ اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی پرزور کوشش کرتے ہیں، جن میں سرِفہرست مالی مقاصد ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسرے ہیکرز وہ ہیں جو حکومتی سرپرستی میں کام کرتے ہیں اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔
پڑھیے: اخلاقی ہیکنگ کیوں سیکھنی چاہیے؟
دوسری طرح کی ہیکنگ واضح طور سائبر وار کے زمرے میں آتی ہے، جب ایک حکومت دوسری حکومت کی اہم اور حساس معلومات چرانے یا انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ایسی ہیکنگ اس وقت اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کہ جب یہ سائبر حملے نیوکلیئر پلانٹس یا دفاعی نظام کو ناکارہ بنانے کے لیے کیے جائیں۔
سب سے اہم اور خطر ناک بات یہ ہے کہ اس بات کا پتہ لگانا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ آیا سائبر حملہ کسی کی انفرادی کوشش تھی یا پھر اسے باقاعدہ حکومتی پشت پناہی حاصل تھی۔ ایسی ہی ایک مثال 2006 میں اس وقت دیکھنے کو ملی جب چین سے تعلق رکھنے والے کچھ ہیکرز نے انتہائی مہارت اور خاموشی سے امریکا کا ایک انتہائی اہم اور مہنگا ترین دفاعی پراجیکٹ ہیک کر لیا۔
جوائنٹ اسٹرائیک فائیٹر نامی یہ پراجیکٹ ایف 35 جنگی طیاروں کی تیاری میں مصروف تھا۔ یہ جنگی طیارے ٹیکنالوجی کے حوالے سے بہت پیچیدہ اور جدید تھے کیوں کہ ایسی ٹیکنالوجی اور کسی بھی ملک کے پاس نہیں تھی۔
اس پراجیکٹ کی لاگت تقریباً 337 ارب ڈالرز تھی۔ اس طرح یہ امریکا کا مہنگا ترین دفاعی پراجیکٹ تھا۔ امریکی خفیہ اداروں کو اس ہیکنگ کا تب علم ہوا جب پانی سر سے گزر چکا تھا، چینی ہیکرز اس پراجیکٹ سے جڑی بیشتر معلومات چرا چکے تھے، جس میں ان طیاروں کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کا ذکر تھا۔
چینی ہیکرز نے براہِ راست دفاعی نظام کو ہیک کرنے کے بجائے چالاکی سے ان پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے سسٹم کو ہیک کیا جو اس پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔ اس طرح بہت آسانی سے انہوں نے اپنا کام کر لیا۔
امریکا کو اس ہیکنگ کا خمیازہ اربوں ڈالرز کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پروگرام کا 70 لاکھ سطور پر مشتمل سوفٹ ویئر کوڈ دوبارہ لکھنا پڑا اور اس پر کی گئی تحقیق میں مناسب تبدیلیاں بھی کرنی پڑیں۔ علاوہ ازیں یہ پروجیکٹ ایک سال کی تاخیر کے بعد مکمل ہوا اور اس کی لاگت میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا۔
دوسری جانب چین نے بیٹھے بٹھائے ان طیاروں کے ڈیزائن میں مناسب تبدیلیاں کیں اور ایک اہم دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ یہ تو صرف ایک مثال تھی جس کا تذکرہ ایک امریکی صحافی شین ہارس نے اپنی ایک کتاب میں کیا۔ ایسے سینکڑوں واقعات موجود ہیں جن میں سائبر حملوں کی وجہ سے مختلف ملکوں کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا جن میں کچھ واقعات تو منظر عام پر آئے اور کچھ نہیں آئے۔
اسی طرح 2007 میں جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو اسے وہاں پر موجود جنگجو تنظیموں کو شکست دینے میں بہت مشکل پیدا ہوئی اور کافی نقصان بھی ہوا۔ ایسے میں امریکا نے پہلی بار سائبر ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے جنگجو گروپس کے خلاف کارروائی کی۔
مزید پڑھیے: بھارتی مسافر طیاروں میں پاکستانی ترانے کیسے چلنے لگے؟
امریکی ماہرین سائبر ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لوگوں کے مواصلاتی آلات اور کمپیوٹرز کو کو ہیک کرتے رہے، ان کے تمام حملوں کی پیشگی اطلاعات امریکا میں بیٹھے بیٹھے حاصل کر لیتے، اور ان کے حملوں سے پہلے ہی ان کو ٹریک کر کے ٹھکانے لگا دیتے تھے۔
امریکی فوج نے عراق میں بہت سی کامیابیاں اپنی فوج کی بہادری یا ان کی پیشہ ورانہ تربیت کے بجائے اس حکمت عملی کے ساتھ اپنے کمپیوٹر سائنسدانوں کی بدولت حاصل کیں۔
یوں امریکی فوج کا کم سے کم جانی و مالی نقصان ہوا، امریکی فوج نے یہ سلسلہ افغانستان میں موجود طالبان اور دیگر جنگجو گروپس کی جاسوسی کے لیے بھی استعمال کیا۔
امریکا نے اپنی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے سائبر ماہرین کے ذریعے طالبان کے کئی اہم رہنماؤں کی جاسوسی کی، جنہوں نے ان کے موبائلز فون اور لیپ ٹاپس کو ہیک کر کے انہیں ٹریک کیا اور پھر ڈرون حملوں سے ہلاک کر دیا۔
یہ کام امریکی حکام نے امریکا میں بیٹھ کر کیا، اس کی تازہ ترین مثال مُلا منصور کی ہلاکت ہے جس میں خفیہ معلومات نہ ہی پاکستانی اور نہ ہی افغان حساس اداروں سے حاصل کرنی پڑیں۔
دوسری طرف پاکستان ابھی بھی جاسوسی کے روایتی ذرائع استعمال کر رہا ہے جبکہ امریکا اور دیگر ممالک مسلسل اس شعبے میں اپنی استعداد کو بڑھا رہے ہیں۔
امریکا میں ابھی بھی دس لاکھ سائبر سکیورٹی اسپیشلسٹس کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکا نے حال ہی میں "ہیک دی پینٹا گون" نامی پروگرام شروع کیا ہے۔
اس پروگرام کے تحت امریکی نوجوانوں کو امریکی حکومت کی ویب سائٹس میں پائی جانے والی کمزوریوں کا پتہ لگائے جانے پر نا صرف پرکشش معاوضہ دیا جاتا ہے بلکہ ان کے لیے امریکی خفیہ اداروں میں ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کیے جا رہے ہیں تاکہ آنے والے دور میں ایک باصلاحیت سائبر فورس تیار ہو سکے۔
پاکستان کو بھی اب اس شعبے میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے پروگرام شروع کیے جائیں جس میں ہیکنگ کے شعبے میں پاکستانی نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ حوصلہ افزائی ہو سکے۔
پڑھیے: پنٹاگون کو ہیک کریں انعام پائیں
پاکستان میں بھی سائبر سکیورٹی ماہرین کی ایک خاصی تعداد درکار ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے اہم یہ ہوگا کہ سائبر سیکورٹی کے حوالے سے یونیورسٹی سطح پر ڈگری پروگرامز شروع کیے جائیں، جن کا معیار کسی بھی طور پر عالمی سطح سے کم نہ ہو۔
اس کے علاوہ سائبر سکیورٹی کے حوالے سے ملکی سطح پر مقابلوں کا انعقاد کیا جائے جن میں پرکشش انعامات رکھے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ان میں حصہ لیں اور ان میں سے ذہین اور کامیاب نوجوانوں کا انتخاب کیا جانا ممکن بن سکے۔
سکیورٹی اداروں کے سائبر ونگز کو مزید فعال بنایا جائے اور ان کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ سول سطح پر ایک سائبر سکیورٹی کا ادارہ قائم کیا جائے جو اس شعبے میں دلچسپی اور مہارت رکھنے والوں کو ملازمت اور ریسرچ کے مواقع فراہم کرے۔
تمام سرکاری یونیورسٹیوں کے کمپیوٹر سائنس شعبہ جات میں سائبر سکیورٹی ریسرچ ایسوسی ایٹس تعینات کیے جائیں۔ عالمی سطح کی سائبر سکیورٹی کا معیار حاصل کرنے کے مقصد سے حکومت بیرون ملک اسکالرشپس فراہم کرے اور سائبر سکیورٹی اسپیشلسٹس کو ایسی مراعات فراہم کی جائیں کہ یہ ذہین نوجوان پاکستان میں اپنی خدمات ادا کر سکیں۔
باقائدگی سے ایسے سیمنار اور ورکشاپس کا انعقاد کیا جائے جن میں عالمی سطح کے تسلیم شدہ سائبر سکیورٹی اسپیسلسٹ کو مدعو کیا جائے اور ان کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکے۔
ذہین نوجوانوں کی صلاحیتوں کو باقاعدہ حکومتی سرپرستی میں لے کر ان سے ملکی دفاع مستحکم کرنے کا کام لیا جا سکتا ہے۔ اگر اس طرف توجہ نہ دی گئی تو نہ صرف یہ کہ ایسی صلاحیتوں کا غیر قانونی سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا امکان رہے گا، بلکہ یہ بھی کہ کسی دوسرے ملک کی سائبر فورس کے حملوں کی صورت میں ہم اپنا قیمتی ڈیٹا محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔
تبصرے (3) بند ہیں