مودی کی نئی حکمتِ عملی کے نقصانات
ہندوستانی وزیراعظم نے اپنی حکمت عملی کو صاف طور پر ظاہر کر دیا ہے جسے کچھ تجزیہ نگار 'تمام اطراف سے گھیرنے' سے تعبیر کر رہے ہیں۔ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ فوجی حملوں کا آپشن کھلا رکھتے ہوئے سرحد پار خفیہ آپریشنز میں شدت لا کر پاکستان کو کھوکھلا اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا اور معاشی طور پر مفلوج کرنے کے عزم کا بھی اظہار کر چکے ہیں۔
یہاں تک کہ وہ اس تنازعے میں پانی کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستان کا افغانستان اور خطے میں موجود دیگر ممالک کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون بڑھانے سے وہ اسلام آباد کو گھٹنوں پر لا سکیں گے۔
دیکھا جائے تو یہ ہندوستانی وزیرِ اعظم، جو کہ بڑی حد تک خطرات کو پسند کرنے کے حوالے سے جانے جاتے ہیں، کا امکانی طور پر مہنگا جوا ہے۔ بے دھڑک اٹھائے جانے والے اقدامات باآسانی کنٹرول سے باہر نکل سکتے ہیں اور ایک مکمل جنگ میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ مودی کا حساب کتاب یہ کہتا ہے کہ دنیا میں ان کے ملک کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کی ان چالوں کا کوئی نقصان انہیں نہیں ہوگا۔ مگر یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ بین الاقوامی برادری بھی دنیا کے ایک سب سے زیادہ آتش گیر خطے میں آتش زدگی کی ایسی ہی خواہش رکھتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ اڑی حملے، جو کہ مقبوضہ کشمیر میں پچھلی دو دہائیوں میں ہونے والا سب سے زیادہ جان لیوا حملہ تھا، کے بعد دنیا نے نئی دہلی سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ بھی درست ہے کہ عالمی برادری گذشتہ دو دہائیوں سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی ظلم و ستم پر خاموش بھی رہی ہے۔ مصنف پنکج مشرا کے الفاظ میں مغربی قوتوں کا یہ مؤقف ہندوستان کو چین کے خلاف استعمال کرنے کے "مغربی پالیسی سازوں کے خوابوں" کی بنیاد پر قائم ہے۔
لیکن پھر بھی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیاں اور مقبوضہ کشمیر میں اٹھنے والی بغاوت کو دبانے کی خاطر طاقت کا بدترین استعمال انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی نظروں سے بچ نہیں پایا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی مبصر ٹیم کو متنازع علاقے میں آنے کی اجازت نہ دینے پر ہندوستانی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اڑی حملے کو ہندوستان میں ماضی میں ہونے والے دہشتگردی کے دیگر واقعات جتنی توجہ نہ مل پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ جو بات ہندوستانی حکومت قبول کرنے سے انکار کرتی ہے وہ یہ کہ کشمیر میں مسئلہ بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہے — اور جس سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
گو کہ پچھلی کئی دہائیوں سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان خفیہ جنگ جاری ہے، مگر نئی دہلی کی بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک کی سرگرم حمایت سے خطے میں نیم روایتی جنگ کا ایک نیا دور شروع ہو سکتا ہے جس کے نتائج دونوں ملکوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔ ہندوستان کے اس اقدام سے پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں موجود سخت گیر افراد کو جہادیوں کی حمایت کے مؤقف میں سختی پیدا کرنے کا جواز ملے گا۔
اس سے خطے کے امن اور سلامتی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ پاکستان پہلے ہی خطے میں پراکسی وارز کے لیے عسکریت پسندی کو استعمال کرنے کی بڑی قیمت ادا کرچکا ہے۔ ہندوستان کی مداخلت سے پاکستان کی عسکریت پسندی اور پرتشدد انتہاپسندی کے خلاف جاری جنگ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان پر دباؤ بڑھانے اور گھیرا تنگ کرنے کے لیے ہندوستان کا کابل سے اپنے اسٹریٹجک تعلقات کا استعمال کرنے کا اقدام سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ اسلام آباد بہت پہلے ہی ہندوستان پر پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں کرنے کے لیے افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا الزام لگا چکا ہے اور مودی کے بیانات اسلام آباد کے ڈراؤنے خواب کو مزید تقویت بخشتے ہیں۔
مگر پاکستان کے خلاف افغانستان کے استعمال پر امریکا اور دیگر مغربی اتحادیوں کو تشویش ہونی چاہیے۔ ایسے اقدامات افغانستان کو مزید عدم استحکام کا شکار بنا سکتے ہیں اور یہ پاکستان اور ہندوستان کی پراکسی وار کے لیے میدان جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے جس سے افغان مسئلے کا سیاسی حل ڈھونڈنا مزید مشکل بن جائے گا۔ ہندوستان کی جانب سے یہ اشارہ کہ وہ سندھ طاس معاہدہ، جو کہ دو ملکوں کے درمیان تین جنگوں اور دہائیوں پر محیط تنازعے کے باوجود بھی قائم رہا ہے، کو یک طرفہ طور پر رد کر سکتا ہے، ایک برا شگون ہے۔
ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ہندوستانی رہنما نے ایک ایسے معاہدے سے پھرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے مقدس تصور کیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ورلڈ بینک کے زیر اہتمام یہ معاہدہ انجام پایا تھا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان پانی کے تنازعے کو حل کیا۔
گو کہ یک طرفہ طور پر معاہدے کو ختم کرنا آسان نہیں ہوگا، مگر معاہدے کو متنازع بنانے کے مودی کے اقدامات نہایت خطرناک ہونے کے ساتھ طویل المدت سنگین نتائج کے حامل ہیں۔ ہندوستان پہلے ہی واٹر کمیشن کے رسمی اجلاس کو ’ہندوستان میں (ان کے نزدیک) "پاکستانی حمایت یافتہ دہشتگردی" کے ختم ہونے تک‘ معطل کردیا ہے۔ یہ بات بذاتِ خود اشتعال انگیز ہے۔
معاہدے میں کی ذرہ برابر بھی خلاف ورزی دونوں ملکوں کو عسکری تنازعے کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ آخر مودی حکومت نے اس مسئلے کو ابھارا ہی کیوں ہے۔ ہندوستانی وزیرِ اعظم کے لیے اس سے بھی زیادہ باعث شرمندگی یہ بات ہوگی کہ جس انتہائی مؤقف سے ان کی حکومت تنہائی کا شکار ہو سکتی ہے، اسے وہ واپس کس طرح لیں گے۔
اس میں حیرت کی بات نہیں کہ کئی ہندوستانی بھی مودی کی پاکستان کے خلاف جارحانہ پالیسی کے مخالف ہیں۔ حال ہی میں شایع ہونے والے PEW سروے کے مطابق پاکستان مخالف جذبات بڑھنے کے باوجود بھی سروے میں حصہ لینے والے نصف کے قریب افراد اسلام آباد سے متعلق مودی کی پالیسیوں کو درست نہیں مانتے۔
واضح طور پر نریندرا مودی نے غلط حساب کتاب لگایا ہے کہ وہ جنگ کی صورت میں سفارتی نقصان سے اس لیے محفوظ رہیں گے کیوں کہ ہندوستان دنیا میں آج ایک بہتر مقام رکھتا ہے۔ یقیناً تیزی سے معاشی ترقی کرنے والے ملک کے طور پر ہندوستان کا مقام دنیا میں نمایاں طور پر بہتر ہوا ہے۔ مگر ایک بہت بڑا سوال یہ ہے کیا پاکستان سے جنگ ہونے پر دنیا اس کی پوزیشن برقرار رکھنے میں اس کی مدد کرے گی؟
اس دوران مودی نے پاکستان کو بین الاقوامی برادری کی نظروں میں ایک حقیر ریاست بنانے اور اسلام آباد کو دہشت گردی کا ملزم ٹھہرا کر سفارتی طور پر تنہا کرنے کی کوششوں کو مزید بڑھانے کا عہد کیا ہے۔
بلا شک و شبہے کے ہماری اپنی کمزور پالیسیوں اور ہماری سرزمین پر کام کرنے والے تمام تر دہشتگرد اور عسکریت پسند گروپس کو باہر نکالنے میں نااہلی نے بڑے پیمانے پر بین الاقوامی شکوک و شبہات کو ابھارا ہے۔ پھر بھی مودی کا مؤقف انہیں پاکستان کو اچھوت ریاست بنانے کے مقصد میں کامیابی نہیں دلوائے گا۔
ایسا ضرور ہے کہ پاکستان مربوط خارجی اور سکیورٹی پالیسیوں کی کمی کا شکار رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ طاقت کے ایک سے زائد مراکز کا ہونا ہے، جس سے گذشتہ چند سالوں میں ہمیں سفارتی محاذ پر کئی بڑی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مگر دنیا کے لیے یہ ایک اہمیت کا حامل ملک ہے جس کی وجہ اس کی حساس جغرافیائی اسٹریٹجک پوزیشن ہے۔
خفیہ یا واضح آپریشنز کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف اس خطے کے لیے بلکہ ہندوستان کے اپنے لیے بھی سنگین مسائل کی وجہ بنے گی۔ مودی نے واضح طور پر چیلنج کر دیا ہے اور اب پاکستان کو کسی بھی قسم کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ملک کے حالات بہتر کرنے ہوں گے۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 ستمبر 2016 کو شائع ہوا۔