• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

کیا آفریدی الوداعی میچ کے مستحق ہیں؟

شائع September 24, 2016
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کھلاڑی صحیح وقت پر کھیل سے کنارہ کشی کا فیصلہ کریں
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کھلاڑی صحیح وقت پر کھیل سے کنارہ کشی کا فیصلہ کریں

حال ہی میں جب ایک صحافی سے ان فٹنس کی فٹنس دریافت کی انہوں نے روایتی اکھڑ مزاج میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ 'الحمدُللہ، تم جیسے دس بندے میں ابھی بھی سنبھال سکتا ہوں'۔

اسی انٹرویو میں انہوں نے دوبارہ پاکستان کی نمائندگی کی خواہش بھی ظاہر کی۔

چند میڈیا رپورٹس کے مطابق آفریدی چیف سلیکٹر انضمام الحق سے رابطے میں تھے اور ویسٹ انڈیز کے خلاف متحدہ عرب امارات میں جاری سیریز میں میچ کھیل کر کرکٹ کو الوداع کہنا چاہتے تھے تاہم فی الحال ان کی خواہش کو مسترد کردیا گیا ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں وریندر سہواگ نے ٹوئٹ کی کہ میں تمام طرز کی انٹرنیشنل کرکٹ اور انڈین پریمیئر لیگ سے ریٹائر ہوتا ہوں'۔

چند لوگوں کیلئے ایک یہ ایک حیران کن اعلان تھا کیونکہ ان کی عمر 37 سال تھی جبکہ انہوں نے اپنا آخری انٹرنیشنل میچ 2013 میں کھیلا تھا۔

تاہم ٹوئنٹی 20 ماسٹرز چیمپینز لیگ کے تناظر میں سہواگ ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ اس میں عالمی کرکٹ کھیلنے والے کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔

جذبات سے مغلوب شاہد آفریدی نے سوال کیا کہ کیا ملک کی 12 سے 13 سال تک خدمت کرنے والا ایک الوداعی میچ کا بھی مستحق نہیں؟۔ اسی طرح کا سوال ویسٹ انڈیز کے شیونارائن چندرپال نے بھی اپنے بورڈ سے پوچھا تھا۔

چندرپال، کوچ فل سمنز اور چیف سلیکٹر کے درمیان ہونے والا ای میل کا تبادلے اس تلخ کہانی کی عکاسی کرتا ہے۔

جب چندرمال کو فارم کی کمی کے سبب ٹیم سے باہر نکالنے کے بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے عرض کی کہ 'آسٹریلین سیریز کے ساتھ کیریئر کا اختتام کی درخواست کر کے میں کچھ زیادہ نہیں مانگ رہا۔ اس سے مجھے موقع ملے گا کہ میں ہوم گراؤنڈ پر اپنے سپورٹرز کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ویسٹ انڈین بورڈ کو موقع فراہم رکنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدمات پر مجھے اعزاز سے بخش سکیں۔ مجھے ریٹائرمنٹ پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم ان کی اس درخواست پر بھی غور نہیں کیا گیا تھا۔

اس کو دیکھیں اور اس کے مقابلے میں اسٹیو وا کو آسٹریلیا کی جانب سے 04-2003 میں دیے گئے خراج تحسین کو دیکھیں۔ بارڈر گواسکرسیریز کی اہمیت ایک شخص کی موجودگی اور اس کی رخصت کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔

شاہد آفریدی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران باؤلنگ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
شاہد آفریدی ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران باؤلنگ کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

دس سال بعد سہواگ کے اوپننگ پارٹنر اور عظیم بلے باز سچن ٹنڈولکر کیلئے ان کے آبائی شہر ممبئی میں ویسٹ انڈٰن جیسی آسان ٹیم کے خلاف الوداعی ٹیسٹ میچ کا انعقاد کیا گیا۔

بابائے پاکستان کرکٹ کے نام سے مشہور عبدالفیظ کاردار کی ایک رہنما کی حیثیت سے جتنی تکریم کی جاتی تھی اتنا ہی لوگوں کی ان کے مطلق العنان رویے سے ڈرتے تھے۔

1958 میں دورہ ویسٹ انڈیز کے بعد تھک ہار کر انہوں نے کرکٹ کو الوداع کہہ دیا اور فضل محمود نے ان کی جگہ ٹیم کی کمان سنبھالی تھی۔ تاہم اگلے سیزن دورہ ہندوستان سے قبل کاردار نے ریٹائرمنٹ واپس لے لی۔

قیادت یلئے ایک دوسرے کے حریف تصور کیے جانے والے دونوں کھلاڑیوں کے درمیان پہلے سے ہی سرد تعلقات تھے اور پھر دورہ ہندوستان میں دونوں سے ٹیم کی قیادت کون کرے گا، اس کا فیصلہ کرنے کیلئے ایک نمائشی میچ کا انتظام کیا گیا۔

اتفاقاً اس وقت سلیکشن پینل میں فضل کے سسر محمد سعید بھی موجود تھے۔ کاردار کے زخمی ہونے پر فضل کے سر قیادت کا تاج سجا۔

سعید کا اپنا کیریئر بھی اس سے قبل مایوس کن انداز میں یکدم اختتام پذیر ہوا تھا جب جسٹس آر اے کورنیلس نے ان کا انتخاب کر کے سعید کی جگہ انہیں کپتان بنا دیا تھا۔

سعید نے ٹیم میں واپسی کی کوشش کی لیکن کاردار نے مبینہ طور پر ان کا کیریئر ختم کرنے کیلئے صدر اسکندر مرزا سے رابطہ کیا۔

ایک مروایت اور مثال قائم ہو چکی تھی؛ پاکستان کرکٹ کے اولین ہیروز نے اس چیز کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی جو پہلے ہی ان سے آگے نکل چکی تھی۔

اب ساٹھ سال گزر چکے ہیں لیکن زیادہ کچھ نہیں بدلہ۔

جب امتیاز احمد اور حنیف محمد نے جب فضل محمود کے کیریئر کے اختتام پر انہیں باہر نکالا تو فضل کو لگا کہ انہیں دھوکا دیا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد سیریز کے درمیان ہی حنیف محمد کو ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا۔

ماجد خان نے اپنا آخری ٹیسٹ اس وقت کھیلا جب ان کے کم عمر کزن عمران خان نے کی زیر قیادت ٹیم سے انہیں نکال دیا گیا۔

عبدالحفیظ کاردار لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
عبدالحفیظ کاردار لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بیٹھے ہیں۔

مشتاق محمد نے اپنے دوست آصف اقبال پر ٹیم سے نکالنے کا الزام عائد کیا۔

ٹیم میں اپنی جگہ کے حصول کیلئے کوشاں جاوید میانداد کے کیریئر کا اختتام 1996 ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل میں شکست کے ساتھ ہوا۔ وسیم اکرم، وقار یونس اور سعید انور کے کرکٹ کیریئر کا اختتام سابق کپتان اور چیف سلیکٹر عامر سہیل کے ہاتھوں ہوا۔

اگر آپ عبدالرزاق اور محمد یوسف جیسے اسٹاراز پر نظر ڈالیں تو یہ کہنا بہت مشکل ہو گا کہ کیا وہ کبھی واقعی ریٹائر ہوئے تھے۔

اکثر اوقات وہ خود بے یقینی کے عالم میں پاکستان کرکٹ میں امید اور غیریقینی کی سولی پر لٹکے ہوئے جہاں کچھ بھی ممکن ہے۔

ایسا اکثر ہوتا ہے اور یہ فہرست بہت طویل اور دردناک ہے۔

کرکٹ میں مکمل اعزاز کے ساتھ رخصت کرنے کا چلن شروع ہوا ہے تاہم ماضی میں ایسی مثالیں شازونادر ہی ہوتی تھیں اور عمران خان کی طرح الوداع کہنا اور بھی مشکل ہے۔

یونس خان پاکستان کیلئے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی جیتنے کے بعد کھیل کے اس فارمیٹ سے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن ایک روزہ کرکٹ سے ان کی ریٹائرمنٹ متنازع رہی۔

ایک روزہ ٹیم میں شمولیت کیلئے مستقل اصرار کے بعد انہوں نے ٹیم میں واپسی کے ساتھ ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا۔

شاہد آفریدی پریکٹس میچ دیکھتے ہوئے۔
شاہد آفریدی پریکٹس میچ دیکھتے ہوئے۔

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ شہریار خان نے کہا کہ میں ناصرف ان کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے بلکہ اس کے وقت سے بھی مایوس ہوا ہوں۔

یونس نے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انہوں نے ایک دم سے نہیں کیا تھا بلکہ کئی مرتبہ اس بارے میں خواب دیکھ چکے تھے لیکن اس بات کو اپنے دل میں دبا کر رکھا۔

کھلاڑیوں کیلئے صبح کے اخبار کے ذریعے یا میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے دوستوں سے اپنی ریٹائرمنٹ کی خبر سننا ایک عام سی بات ہے اور پی سی بی کی کھلاڑیوں سے خراب روابط کی تاریخ رہی ہے۔

اسی طرح کرکٹرز بنا سوچے سمجھے وعدے کر کے تیزی سے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے اسے واپس لیتے ہیں۔

عام طور پر ٹیم میں انتخاب کیلئے عوام اور میڈیا کو دباؤ بڑھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور آفریدی کے معاملے میں تمام حلقوں کی جانب سے دباؤ تھا۔

آفریدی نے حال ہی میں کہا کہ میں نے ہمیشہ اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ پاکستان میں کھلاڑیوں حتیٰ کہ بڑے ناموں کی جانب سے بھی باعزت طریقے سے ریٹائر ہونے کی روایت نہیں۔ ہر کھلاڑی بہترین کارکردگی کے ساتھ اختتام کا خواہشمند ہوتا ہے اور میں کوئی مختلف نہیں۔

آفریدی کی ٹیم میں ممکنہ واپسی کے حوالے سے پہلی رپورٹس کے مطابق پی سی بی چیئرمین انتہائی مایوس ہیں اور انہوں نے کہا کہ جب آفریدی کو کپتان بنایا گیا تو انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اب اگر انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے تو انہیں عوامی سطح پر بیانات دینے کے بجائے میرے پاس آنا چاہیے تھا۔

آفریدی اور پی سی بی کے درمیان معاملہ طے ہوا تھا کہ کپتان ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے جس کے بعد شاید ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں باعزت طریقے سے تقریب کا انعقاد کر کے رخصت کیا جاتا اور اس وقت جاری ڈرامے اور میڈیا سرکس کے بجائے سب کچھ بخوشی منطقی انجام کو پہنچ جاتا۔

بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کھلاڑی صحیح وقت پر کھیل سے کنارہ کشی کا فیصلہ کریں کیونکہ وہ اندر سے فائٹر ہوتے ہیں اور ان کے اندر کبھی نہ ہار ماننے والا جذبہ ہوتا ہے۔

اپنی پوری زندگی وہ فارم، انجریز، بدقسمتی اور دیگر کئی چیزوں سے لڑتے ہیں اور ان کو شکست دیتے ہیں۔

تاہم وہ تمام صفات جو ان میں مہارت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نکھارتی ہیں، وہی انہیں گزرتے وقت کی حقیقتوں کو تسلیم کرنے سے روک دیتی ہیں۔

ان کے اعمتاد کو جلا بخشنے کیلئے والدین، بیوی، بچے اور دیگر اہلخانہ موجود ہوتے ہیں جو اچھے یا برے وقتوں میں اسے صحیح غلط ثابت کرتے ہیں۔

ہمارے جیسے ملک اور ثقافت میں اس کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ دنیا بھر میں کھلاڑیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

وسیم اکرم اور جاوید میانداد۔ فوٹو اے ایف پی
وسیم اکرم اور جاوید میانداد۔ فوٹو اے ایف پی

کسی بھی کھلاڑی کو الوداعی سیریز یا میچ کھیلنے کا موقع دینے کا فیصلہ میرٹ کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ پی سی بی اس معاملے میں کمزور واقع ہوا ہے۔

سلیکٹرز کو ایک بہترین ٹیم منتخب کرنے عہدہ سونپا جاتا ہے یا کسی ڈوبتے سورج کی انا کو بچانے کیلئے؟

خوبصورت انداز میں کسی کھلاڑی کو الوداع کہنے سے ڈریسنگ روم کا مورال بڑھا جاتا ہے جہاں موجودہ کھلاڑیوں کو اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ ایک ہم بھی اسی طرح باعزت طریقے اور اعزاز کے ساتھ رخصت ہوں گے لیکن کھیلوں کے معیار کی قربانی دے کر یا کسی مستحق کھلاڑی کو قربانی کا بکرا بنا کر کسی کو ایسے اعزاز سے نوازنا یقیناً زیادتی ہے۔

39 سالہ سعید اجمل بھی ٹیم میں واپسی کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اپنی شرائط پر رخصت ہونا چاہتے ہیں۔

البتہ ان کا طریقہ کار آفریدی سے مختلف ہے۔

جہاں ایک طرف آفریدی کا انحصار عوام اور میڈیا کی سپورٹ پر رہا وہیں سعید اجمل حال ہی میں ختم ہونے والے نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر تھے۔

یہ عزت حاصل کرنا آفریدی کا حق ہے اور اجمل کو اس کیلئے سخت محنت کرنی پڑی۔

حال ہی میں پی سی بی کی ایگزیکتو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے ٹوئٹ کیا کہ پی سی بی آفریدی اور اجمل کو بھرپور انداز میں الوداع کہے گا، میں آئندہ ہفتے ان سے مل کر اس بارے میں بات کروں گا۔

کچھ حاصل کرنے کیلئے پہلے عزت کرنی پڑتی ہے اور یہی چیز کرکٹ بورڈ اور اس کے سب سے انسانی وسیلے یعنی کھلاڑی پر بھی لاگو ہوتی ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

بورڈ کو عمدہ کیریئر کے حامل کسی بھی کھلاڑی کو الوداع کہنے کے حوالے سے واضح پالیسی اپناتے ہوئے کچھ قواعد و ضوابط طے کر لینے چاہئیں اور پھر کھلاڑیوں کو ان پر عمل کرنا چاہیے۔

شان آغا

شان آغا بچپن سے ہی کھیلوں سے عقیدت کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اس قدر کہ ’’دی کرکٹر’’ میگزین کے اوراق کو نہایت مقدس مانتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: گیم آن

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

shaalim Sep 25, 2016 01:15pm
Of course he deserve to play his farewell match. Unfortunately he have resigned many times purposely. This time also the same story. I don't know why we have so many insiders who are busy all the time to make space for old names although they should not be in the team.

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024