ہمیں شہر کی بے ہنگم زندگی کے نہ رکنے والے دائرے سے نکلنا تھا اور خود کو کہیں دور ان وادیوں میں لے جانا تھا جن کا صرف نام ہی ہم نے سن رکھا تھا، تو قرعہ فیری میڈوز کے نام کا نکلا۔
ہم تین دوستوں نے سامان سفر باندھا اور کراچی سے بذریعہ ٹرین راولپنڈی کی راہ لی۔ پنڈی کے مشہور بس اڈے پیر ودھائی سے چلاس جانے والی بس پکڑی اور 20 گھنٹے کے اس سفر پر چل نکلے جس کا ذکر بچپن کی کہانیوں میں ہی سنا تھا۔
کالے پہاڑوں میں بہتا سونا
رات کا سفر تھا، دنیا کے آٹھویں عجوبے شاہراہ قراقرم کے ترچھے کناروں پر بھاگتی بس کی کھڑکی سے نظر نیچے بہتے دریائے سندھ پر پڑتی تو دل دھڑکنا بھول جاتا۔ چاند کی چاندنی جب اس کے پانیوں پر پڑتی تو ایسا لگتا کہ کالے پہاڑوں میں سونا بہہ رہا ہے۔
کچھ ہی دیر میں بادلوں نے پورے علاقے کو گھیر لیا جس کا انجام تیز بارش کی صورت میں ہوا۔ کمال پھرتی سے بس بھگاتے ڈرائیور کی مہارت پر اعتبار کرتے ہوئے میں پھر سے دریائے سندھ کے جادوئی مناظر ڈھونڈنے لگا۔
ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے مانسہرہ اور پھر کوہستان کے ضلع شانگلہ اور تحصیل داسو سے ہوتے ہوئے ہم چلاس سے آگے رائے کوٹ پل پہنچے جسے فیری میڈوز کا دروازہ کہا جاتا ہے۔
فیری میڈوز کی سڑک
رائے کوٹ پل سے شاہراہ قراقرم کو خیرباد کہتے ہوئے بذریعہ جیپ اوپر کالے پہاڑوں کی جانب بڑھتا ہے اور پھر شروع ہوئے زندگی کے وہ پنتالیس منٹ جو شاید پنتالیس سال تک بھی نہ بھولے جا سکیں گے۔ انسانی ہاتھوں سے بنا ایک ایسا رستہ جس پر جیپ کے علاوہ کوئی اور گاڑی نہیں چل سکتی اور اس راستے کو دنیا کا دوسرا خطرناک ترین جیپ ٹریک کہا جاتا ہے۔
12 کلومیٹر لمبا ایک ایسا تنگ راستہ جس کے ایک طرف نوکیلے منہ نکالے پہاڑیاں اور دوسری طرف اژدھے جیسا منہ کھولے گہری کھائیاں، اس راستے پر سے ایک وقت میں ایک گاڑی گزر سکتی ہے، یہاں ہر سال ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں، ہر موڑ مڑتے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس راستے پر جیپ چلانا بھی عام ڈرائیور کے بس کا کام نہیں، یہ کام وہاں کے رہنے والے ماہر ڈرائیور ہی بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔
رائے کوٹ پل سے فیری میڈوز جاتے ہوئے پہلا اسٹاپ تتو نامی گاؤں کا آتا ہے، جہاں بہتے چشمے سے پانی پینے کے بعد جب پہلی بار نانگا پربت پر نظر پڑتی ہے تو آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول جاتی ہیں۔
اس کے بعد ہم مزید جوش کے ساتھ فیری میڈوز کی طرف پیدل روانہ ہوئے، اب ہمیں پانچ کلومیٹر اوپر کی طرف چلنا تھا جس میں ہمیں پانچ گھنٹے لگے، حالانکہ ہم آرام سے کسی خچر والے خرچہ دے کر ایک دو گھنٹے میں پہنچ سکتے تھے۔
سبز چادر اور قاتل پہاڑ
جب پہلا قدم فیری میڈوز میں رکھا تو ٹانگیں بے جان تھیں اور ہم سطح سمندر سے 10 ہزار 8 سو فٹ بلندی پر تھے۔ کہتے ہیں نا کہ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے، سو ہم نے بھی ذہن اور دل کا سکون پانے کے لیے جسم کا سکون کھویا تھا۔
وہاں کا نظارہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کالے پہاڑوں پر اچانک سے ایک سبز چادر بچھا دی گئی ہے، جس پر جگہ جگہ چشمے بہا دیے گئے ہیں، ان چشموں کے کنارے کئی اقسام کے پھل اگا دیے گئے ہیں۔
اس سبزے پر بھاگتے گھوڑے ان مناظر میں ایک نئی جان ڈال دیتے ہیں، اور برف سے اٹا بادلوں سے گھرا نانگا پربت بار بار اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ فیری میڈوز پہلی نظر کا پہلا پیار ہے، اور وہاں سے نظر آتا پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا نواں سب سے بڑا پہاڑ نانگا پربت جس کی ہیبت کو بیان کرنا لفظوں کا کام نہیں۔ حد نظر ختم ہوجاتی ہے، یہ پہاڑ ختم نہیں ہوتا۔
فیری میڈوز میں پانچ سے چھ ہوٹل ہیں جہاں اپریل سے ستمبر تک رش لگا رہتا ہے، زیادہ تر لوگ ٹرپ آرگنائزرز کے ساتھ آتے ہیں جبکہ باقی اپنے بل بوتے پر بھی پہنچے ہوتے ہیں۔ نسبتاً قریب ہونے کی وجہ سے اسلام آباد اور لاہور کے رہنے والے زیادہ نظر آتے ہیں جبکہ کراچی سے وہاں پہنچنے والوں کو حیرانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے دیکھا جاتا ہے۔
دن کے وقت لوگ آگے بیال کیمپ کی طرف ٹریک کرتے ہیں یا گاؤں اور قریب میں واقع دو چھوٹی جھیلیں دیکھنے نکل جاتے ہیں۔ گاؤں ایک بڑے کرکٹ گراؤنڈ کی طرح ہے جس کے اطراف لکڑی کے الف لیلوی گھر بنے ہوئے ہیں جن کے باہر کھیلتے بچے وہاں آئے سیاحوں کے کیمروں کا مرکز بنے ہوتے ہیں، خواتین پردہ کرتی ہیں اور بعض اوقات سیاحوں کو گھروں کی تصاویر لینے سے روک دیا جاتا ہے۔ موبائل کے سگنلز ایک مخصوص پوائنٹ پر ہی آتے ہیں اس لیے آپ زیادہ تر دنیا سے کٹے اور خود سے جڑے رہتے ہیں۔
میں گاؤں کی طرف نکلا تو دیکھا کہ بڑے بوڑھے ملکی سیاست اور ہلچل سے بے نیاز ایک چشمے کے کنارے گھاس پر بیٹھے لڈو کھیلنے میں مصروف تھے، لڑکے اپنے گھوڑوں اور خچروں کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے اور خواتین اپنے بچوں کے پیچھے بھاگتی نظر آئیں، زندگی کا یہ تصور ہی آپ کو سکون دینے کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن یہاں تو یہی زندگی تھی۔
رات کو ہر ہوٹل کے باہر آگ کا الاؤ جلا کر محفلیں سجائی جاتی ہیں جس میں وہاں کے لوگ سیاحوں کو نانگا پربت سے جڑے پراسرار قصے کہانیاں سناتے ہیں کہ کیسے چیک ری پبلک سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کی دشمنی نانگا پربت سے تب سے چلی آرہی ہے جب سے ان کے خاندان کا پہلا فرد اس قاتل پہاڑ سے واپس نہ لوٹا تھا، تو اب اس خاندان کے افراد تب تک اس پہاڑ کو نہیں چھوڑیں گے جب تک اسے سر نہیں کر لیتے۔
ایک اور فرد کے مطابق نانگا پربت سے بہہ کر آنے والے دریا میں ان کوہ پیماؤں کی بہت سی ذاتی چیزیں بہہ کر آتی رہتی ہیں جو وہیں رہ گئے۔
جنگل، میٹھے چشمے، پھل، بارش، ٹھندی ہوائیں اور لکڑی کے گھراور بہت سے خالی جھونپڑہ نما گھر بھی آپ کو آگے کہیں نظر آئیں گے جن میں انسانوں کا نام و نشاں بھی نہیں۔ گائیڈ سے پوچھا تو پتہ چلا کہ ضروری نہیں کہ ان گھروں میں صرف انسان ہی بستے ہوں۔ یہ جاننا ہی ہمارے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیے کافی تھا۔ ویسے بھی ہمارا گائیڈ ہمیں ایک بار انتباہ کر چکا تھا کہ اس پر بھی مغرب کے بعد جن طاری ہوجاتے ہیں۔
مسائل پر اک نظر
اگر ہم فیری میڈوز اور وہاں کے لوگوں کے مسائل کی بات کریں تو سب سے مسئلہ آمدورفت ہے۔ تنگ اور کچے راستے پر بھاگتی جیپیں حادثات کا سبب بنتی رہتی ہیں اور جہاں جیپ کا راستہ تمام ہوتا ہے وہاں سے پیدل یا خچروں پر لاد کر سامان اوپر لے جانا پڑتا ہے۔
ہمیں دوسری جو چیز فکر انگیز دکھائی دی وہ درختوں کی کٹائی ہے، ان لوگوں کی زندگی کا انحصار ہی لکڑی پر ہے، گھر سے لے کر آگ جلانے تک ہر چیز میں لکڑی استعمال ہو رہی ہے جس سے کٹائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے مگر نئے درخت لگانے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ گلوبل وارمنگ کے اس دور میں ان چیزوں پر فوقیت سب سے زیادہ ہونی چاہیے۔
لکھاری پیشے کے اعتبار سے ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹنگ سے تعلق رکھتے ہیں، ٹوئٹر کے ساتھ بطور اردو ماڈریٹر کام کرتے ہیں
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: aey@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (2) بند ہیں