پاکستان کو خطرناک چیلنجز سے کیسے نمٹنا چاہیے؟
اسلام آباد: پاکستان کو ہندوستان اور افغانستان کی جانب سے جارحانہ بیانات اور دھمکیوں اور امریکا میں ملک دشمنی کی گونج جیسے غیر معمولی خطرناک چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں کی بغاوت کو دبانے میں ناکامی کے بعد مودی حکومت نے کشمیریوں کے احتجاج کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی ایک کوشش کے طور پر ثابت کرنے کے لیے پاکستان کے خلاف اپنی مہم تیز کردی ہے۔
کشمیر کے ضلع بارہ مولا کے علاقے اوڑی میں فوجی مرکز پر حملے کے بعد ہندوستان وادی میں اپنے مظالم پر سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر کشیدگی بڑھا سکتا ہے، ایسے میں پاکستان کو انتہائی بدترین صورتحال کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان، چین اور مسلم دنیا میں اپنے چند دوستوں کی جانب سے سفارتی حمایت کا سہارا لے سکتا ہے، تاہم اسے زیادہ توجہ اپنی دفاعی تیاری اور اپنی سفارت کاری پر مرکوز رکھنی چاہیے، ہمیں ردعمل کے لیے ایک ایسی پالیسی بنانی چاہیے، جس سے نہ صرف حالیہ خطرہ کچھ کم ہو بلکہ اس سے کشمیریوں کو بھی یہ محسوس نہ ہو کہ انھیں پس پشت ڈالا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں:کشمیر حملہ: 'پاکستان پر تحقیقات کے بغیر الزام لگایا گیا'
سب سے پہلے ہمیں افغانستان اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا، جو افغانستان میں امن کے لیے سہ فریقی عمل کے خاتمے کے بعد سے خراب ہیں۔ عراق کی طرح افغانستان میں مداخلت کے بعد سے اپنی سنگین غلطیوں کے باوجود، واشنگٹن افغانستان میں پیش آنے والی مشکلات کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے، کابل اور واشنگٹن کا ماننا ہے کہ پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانے افغانستان میں افغان طالبان کی شورش کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہورہے ہیں اور امن عمل کے لیے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے حوالے سے ہماری نیک نیتی سے کی گئی کوششوں اور کردار نے ہمیں طالبان کے ساتھی کے طور پر متعارف کروا دیا ہے، یہی وقت ہے کہ اب ہم طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں۔
ہمیں اس حوالے سے ایک واضح پالیسی بنانی چاہیے کہ پاکستان افغان طالبان قیادت کی کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتا اور ہم مصالحت اور امن عمل کے لیے طالبان اور افغان حکومت یا کابل کے سیاسی عناصر کے درمیان براہ راست روابط کا خیر مقدم کریں گے اور اگر ہم سے خاص طور سے درخواست کی گئی تو ہم اب بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان کے انکار نے مذاکرات کو 'خطرے' میں ڈال دیا
دوم یہ کہ اس بات کی توثیق ضرروی ہے کہ ہم اپنی سرزمین کو افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے، ایک ریاست کی حیثیت سے یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ ہم آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے اس تفریق کا جواز پیش نہیں کرسکتے، جس میں ہم پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ہم 'اچھے' اور 'برے' طالبان میں فرق کرتے ہیں۔ اس تجویز کا اعلامیہ اعلیٰ سطح پر بنایا جانا چاہیے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے وزیراعظم کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کا حصہ بنایا جائے، جو کہ خاص طور پر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات میں حالیہ گرما گرمی کو کم کرنے کے سلسلے میں ایک اہم قدم ہوگا۔
ہمیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ کیوں افغانستان کے رجعت پسند عناصر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ختم ہوجاتے ہیں، جن میں سے کچھ کو ہم اثاثہ کہا کرتے تھے، کیوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افغان ہم سے دور ہوگئے ہیں اور کیوں ہم نے اپنی پالیسی کو افغان نسلی تقسیم کے ہاتھوں میں جانے دیا۔ ہمیں طالبان قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات اور اثرو رسوخ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے اور ان سے پہلے افغان مجاہدین نے تنازع کے خاتمے کے لیے کبھی ہمارے مخلصانہ مشوروں پر عمل نہیں کیا، ہمیں حقانی نیٹ ورک کے ساتھ بھی سختی سے پیش آنا چاہیے اور ہم انھیں اپنی مہمان نوازی کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہمیں سرحدی معاملات کی بھی بہتر نگرانی کی ضرروت ہے، جبکہ حکومت اِن دنوں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبہ خیبر پختونخوا کو ضم کرنے میں سنجیدگی دکھا رہی ہے۔
یہاں پڑھیں:’حقانی نیٹ ورک خطے کیلئے مسلسل خطرہ‘
1990 کی دہائی میں کشمیر میں حریت پسندوں کا ساتھ دینے اور طالبان کے ساتھ منسلک ہونے سے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا ہے، ممبئی حملہ کیس میں تاخیر سے بھی یہ تاثر ہیدا ہوا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری طرح سے پرعزم نہیں ہے، اس سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے حوالے سے پاکستان کی صلاحیت متاثر ہوئی۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں بیرونی عناصر کو جواز بناکر ہندوستان، پاکستان کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائے گا، لہذا ہمیں اوڑی حملے کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی تحقیقات کے لیے ہندوستان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔
ابھی وقت نہیں ہے کہ ماضی کے واقعات کو اجاگر کیا جائے، ہندوستانی جبر، جارحیت اور حکمرانی کے خلاف جاری کشمیریوں کی جدوجہد کو یکجہتی کی ضرورت ہے اور اس بات کی توقع ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں ایسا کریں گے۔ ہندوستان کے دعوے کے مطابق کشمیریوں کو تحریک پر پاکستان نے نہیں اکسایا، کشمیر ایک پرانا متنازع مسئلہ ہے اور عالمی ایجنڈے پر اپنے حل کے انتظار میں ہے۔
مزید پڑھیں:کشمیر میں ہندوستانی مظالم:'اقوام متحدہ فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے'
سب سے بڑھ کر کشمیریوں اور امریکا اور برطانیہ میں مقیم کشمیری تارکین وطن کو اپنے مصائب اور بنیادی حقوق حاصل کرنے کے حوالے سے دنیا میں تحریک چلانے کے لیے خود کو متحرک کرنا ہوگا، جن کا اس تحریک میں اہم کردار ہے۔ پاکستان کو لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری رہنماؤں سے مشاورت کرنی چاہیے اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے رابطہ کرنا چاہیے۔
اگر پیشکش کی جاتی ہے کہ تو پاکستان، ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کو مسترد نہیں کرسکتا، کیونکہ 2 جوہری ہتھیاروں سے مسلح پڑوسی تعلقات میں کشیدگی برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے، تاہم کشمیری رہنماؤں کو بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس عمل میں شامل ہونا ضروری ہے۔
(انعام الحق، ریاض حسین کھوکھر اور ریاض محمد خان پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ رہ چکے ہیں جبکہ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود درانی پاکستان کے سابق قومی سلامتی کے مشیر رہ چکے ہیں)
یہ رپورٹ 20 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی