سلمان بٹ کی واپسی کرکٹ کیلئے کتنی تباہ کن ہو گی؟
'اگر آپ اپنی اقدار و روایات سے واقف ہوں تو فیصلے کرنا مشکل نہیں ہوتا' رائے ڈزنی کا یہ پیغام تمام قائدین کیلئے ایک انتہائی جامع پیغام رکھتا ہے ۔۔۔۔ خصوصاً ان کیلئے جو ان اقدار کا پاس رکھتے ہیں۔
لیکن خصوصاً ہمارے جیسے بے ترتیب اور الجھن زدہ معاشرے میں قانون اور اخلاقی اقدار کے درمیان انتخاب کی بحث انتہائی طوالت اختیار کر جائے گی کیونکہ نہ ہی یہ مکمل طور پر قانون کی پابندی کرتا ہے اور اس کی وسیع تر ثقافتی روح کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔
سلمان بٹ کے بارے میں اس طرح کی افواہیں زیر گردش ہیں کہ بدنام زمانہ سابق کپتان متحدہ عرب امارات میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ہونے والی ایک روزہ سیریز کیلئے ٹیم میں جگہ بنا رہے ہیں۔
ڈومیسٹک سطح پر اچھی بیٹنگ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بائیں ہاتھ کے بلے باز خود بھی اس بارے میں کافی پرامید ہیں تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس حوالے سے اپنے لب سیے ہوئے ہیں۔
2010 کے لارڈز ٹیسٹ میں اسپاٹ فکسنگ کے جرم میں سزا یافتہ 31 سلمان بٹ برطانوی عدالت کی جانب سے لگائی گئی پابندی بھگت چکے ہیں لہٰذا ان کی قومی ٹیم میں دوبارہ سلیکشن کے بارے میں غور کی قانون یقیناً ضرور اجازت دیتا ہے اور وہ بحالی کے عمل سے بھی گزرے ہیں جسے ڈومیسٹک کرکٹ میں واپسی سے قبل پی سی بی نے ضروری قرار دیا تھا۔
اگر سلمان بٹ کی قومی ٹیم میں واپسی کے حوالے سے قیاس آرائیوں میں کوئی سچائی ہے تو اقدار اور صاف کرکٹ پر یقین رکھنے والے پرجوش پاکستانی شائقین کے پاس یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ 'آخر ہماری کرکٹ کہاں جا کر ختم ہو گی'۔
جب سزا کے خاتمے اور بحالی کے عمل سے گزرنے کے بعد محمد عامر کو رواں سال کے آغاز میں قومی ٹیم میں دوبارہ طلب کیا گیا تو تمام ماہرین، سابق کرکٹرز اور شائقین نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ سلمان بٹ اور محمد آصف کے برعکس عامر ان تینوں میں سب سے کم عمر تھے جنہوں نے تفتیشی حکام سے مکمل تعاون کیا لہٰذا وہ دوسرا موقع ملنے کے مستحق ہیں۔
لیکن اگر سلمان بٹ کا دوبارہ قومی ٹیم کی نمائندگی کیلئے انتخاب کیا جاتا ہے تو پی سی بی اس کی کیا منطق پیش کرے گا؟
یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر کرپٹ و بدعنوان عناصر کے خلاف ہم کب ایک لائن کھینچیں گے تاکہ اپنی کرکٹ کو ایک شفاف اور تنازعات سے پاک ماحول میں پروان چڑھا سکیں۔
کیا پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہمیت اور حساسیت کے حامل اس معاملے کو پی سی بی کو سنجیدگی اور واضح سوچ کے ساتھ حل کرنا چاہیے تھا؟
سلمان بٹ کو دوبارہ قومی ٹیم میں واپسی کا موقع فراہم کر کے انضمام الحق کی زیر قیادت قائم سلیکشن کمیٹی ملک کے ہزاروں نوجوانوں کو کیا پیغام دے رہی ہے کہ وہ راتوں رات اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے کسی بھی جرم میں ملوث ہو جائیں اور اگر پکڑے جائیں اور ان پر جرم ثابت ہو جائے تو معافی مانگ کر سزا کو قبول کر لیں اور پھر قومی ٹیم میں دوبارہ واپس آ جائیں؟
مزید یہ کہ اپنے ملک، ٹیم کھلاڑیوں کے کھلاڑیوں اور کروڑوں شائقین کو دھوکا دینے والے سلمان بٹ کے بارے میں ہم یہ سوچ بھی سکتے ہیں کہ وہ پاکستان کرکٹ کیلئے ناگزیر ہیں جبکہ ہمارے پاس درجنوں باصلاحیت کھلاڑی موجود ہیں جو قومی ٹیم میں شمولیت کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں؟۔
باصلاحیت کھلاڑیوں کی کھوج کیلئے پی ایس ایل فرنچائزوں لاہور قلندرز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی حالیہ مہمات کو شاندار کامیابیاں مل چکی ہیں جبکہ وہ ملک کے دیگر اضلاع میں بھی ٹرائلز جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اگر سلمان بٹ جیسے بدنام زمانہ کھلاڑی کو عالمی کرکٹ میں واپسی کی اجازت دی جاتی ہے تو یہ فرنچائزیں کس طرح نوجوان باصلاحیت کھلاڑیوں کو کس طرح دیانتداری کے ساتھ کھیلنے پر آمادہ کر سکیں گے۔
کئی لوگوں کو یاد ہو گا کہ جب 2006 میں اسلام آباد کے امریکی سفارتخانے کے گراؤنڈ میں کھیلے گئے مختصر میچ میں شرکت کیلئے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش آئے تو بہتر تعلیمی پس منظر اور روابط کی صلاحیت کی وجہ سے انہیں اس کے کپتان انضمام الحق کا ساتھ دینے کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔
یہ ان کیلئے بڑا اعزاز تھا لیکن اس سے سیکھنے کے بجائے بدقسمتی سے انہوں نے چار سال بعد کرپشن کا راستہ چنا۔
پاکستانی معاشرے میں کرکٹ کا کھیل اس حد تک رچ بس چکا ہے کہ کوئی بھی غلط فیصلہ کسی نہ کسی طریقے سے پورے سماجی نظام پر اثرانداز ہو گی۔
باوقار اور غیرمتزلزل عزم کے حامل کپتان مصباح الحق ٹیسٹ ٹیم کو عالمی نمبر ایک کے منصب پر پہنچانے پر آئندہ چند دنوں میں آئی سی سی کی ٹیسٹ میس وصول کریں گے۔
ایسے تاریخی موقع پر اگر کھیل اور ملک کو بدنام کرنے والے سلمان بٹ کی واپسی کی باتیں تابوت میں آخری کیل کی مانند ثابت ہو گی۔