ایاز صادق کو اسپیکر نہیں مانتا، عمران خان
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ سردار ایاز صادق کو اسپیکر قومی اسمبلی نہیں مانتے کیوں کہ وہ غیر جانبداری سے فیصلہ نہیں کرتے۔
ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی کی صدارت میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عمران خان، وزیراعظم نواز شریف اور اسپیکر قومی اسمبلی پر خوب برسے اور پاناما لیکس کے حوالے سے کھل کا اظہارِ خیال کیا۔
واضح رہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کے پاس 8 ریفرنسز جمع کرائے گئے تھے جن میں سے چار وزیراعظم نواز شریف کے خلاف، دو عمران خان کے خلاف اور ایک ایک محمود خان اچکزئی اور جہانگیر ترین کے خلاف تھا۔
تاہم اسپیکر ایاز صادق نے ان میں سے محض وہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے جو پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف تھے۔
مزید پڑھیں:عمران خان کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن بھیج دیا گیا
اسپیکر ایاز صادق کا کہنا ہے کہ دیگر ریفرنسز کے ساتھ پیش کیے جانے والے دستاویزی ثبوت ناکافی تھے لیکن پھر بھی تمام ریفرنسز الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ایاز صادق کے جانبدار فیصلے سے پارلیمنٹ کو نقصان پہنچا ہے اور عمران خان کو نشانہ بنانے سے اسپیکر کی ساکھ پر سوال آیا ہے۔
عمران خان نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ان کے خلاف ایکشن لیا جارہا ہے جو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آواز بلند کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ’غیر جانبدار رہیں‘، فہمیدہ مرزا کا اسپیکر کو مشورہ
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ وہ یہاں پر 3 باتیں واضح کرنا چاہتے ہیں۔
- اسپیکر غیر جانبدار نہیں ہیں۔
- اپوزیشن کو بلیک میل کیاجارہا ہے اور انھیں کام نہیں کرنے دیا جارہا۔
- یہ لوگ چاہتے ہیں کہ عمران خان چپ ہوجائے تاکہ وہ کھل کر کرپشن کر سکیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پاناما کمیشن کے حوالے سے حکومتی ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) چیف جسٹس نے مسترد کردیئے، جبکہ اپوزیشن کے ٹی او آرز حکومت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف وزیراعظم نواز شریف تک ہی محدود ہیں جبکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر کہا تھا کہ میں احتساب کے لیے تیار ہوں۔
یہ بھی پڑھیں:’اسپیکر کے جانبدار رویے سے اپوزیشن نالاں‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو کئی مہینے گزر گئے لیکن کوئی جواب نہیں آیا اور ہم اسپیکر کے سامنے جانے پر بھی اس لیے مجبور ہوئے کیونکہ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں جواب نہیں دیا تھا اور ان کے اور ان کے بچوں کے بیانات میں تضاد تھا۔
عمران خان نے کہا کہ میں اسپیکر سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ میرے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا، جبکہ جنھوں نے کرپشن کی ان کے خلاف ریفرنس نہیں بھیجا گیا۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے کہا کہ 'جمہورت کے اندر چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے، لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے خلاف سریم کورٹ میں درخواست دی، لیکن رجسٹرار نے اسے اعتراض لگا کر مسترد کردیا، جسے ہمارے وکلاء نے اتنی محنت سے تیار کیا تھا، اگر سپریم کورٹ، جو انصاف کا سب سے بڑا ادارہ ہے، اگر وہ بھی انصاف نہ کرے تو ہمارے پاس کون سا راستہ رہ گیا ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑکوں پر پرامن احتجاج بھی جمہوریت کا حصہ ہے، اس سے جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوتی، لیکن جب ہم پر امن احتجاج کرتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں یہ غیر جمہوری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کا 24 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ کا اعلان
یاد رہے کہ گذشتہ دنوں کراچی میں عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے 24 ستمبر کو رائے ونڈ مارچ کا اعلان کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ '24 ستمبر کو پورے ملک سے لوگوں کو رائے ونڈ لے کرآؤں گا'۔
اس سے قبل 4 سمتبر کو بھی تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے لاہور میں عوامی جلسے سے خطاب کے دوران دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن کا پیسہ ہضم نہیں کرنے دیں گے،انہوں نے پاناما لیکس پر وزیر اعظم سے چار سوالوں کے جواب بھی طلب کیے۔
انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ لندن میں خریدی گئی جائیداد کے دستاویز دکھائیں، یہ بتائیں کہ فلیٹس خریدنے کیلئے اربوں روپے کہاں سے آئے، یہ پیسے بیرون ملک کیسے گئے اور کیا اس پر ٹیکس ادا کیا گیا۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے سوال کیا کہ 'ایک آدمی جو حلال کی کمائی لے کر پاکستان آتا ہے اس کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے اور جو آدمی اپنی کرپشن کا پیسہ اپنے بچوں کے نام پر ٹرانسفر کرتا ہے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں، یہ کسی جمہوریت ہے'؟
خیال رہے کہ رواں برس اپریل میں پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟
- کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
- کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔
صحافیوں کے گروپ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پاناما پیپرز سے متعلق دستاویزات دو قسطوں میں جاری کیے تھے، دونوں اقساط میں 350 سے زائد پاکستان کی طاقت ور اور اثرو رسوخ رکھنے والے شخصیات کے نام سامنے آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : پاناما پیپرز: پاکستانیوں کے متعلق انکشافات
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، یوکرائن، آرجنٹائن اور یو اے ای کے صدور، سابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے رشتہ داروں، شام کے صدر بشار الاسد، چین کے سابق وزیر اعظم، اقوام متحدہ کے سابق سربراہ کوفی عنان کے بیٹے اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت درجنوں حکمرانوں یا ان کے عزیزوں کے نام شامل ہیں۔
مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف
پاناما لیکس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جس وقت نواز شریف اپوزیشن میں تھے انھوں نے ایک ڈچ بینک سے لندن میں موجود اپنے 4 فلیٹس پر 70 لاکھ پاؤنڈ کا قرضہ حاصل کیا تھا جو برطانیہ کی ورجن آئی لینڈ نامی آف شور کمپنی کی ملکیت تھے۔
پاناما لیکس کی جانب سے جاری کی جانے والی پہلی فہرست کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت حال اختیار کرگئے تھے اور اپوزیشن نے پاناما لیکس میں نام آنے کے باعث ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی آف شور کمپنی نیازی سروسز کے ذریعے لندن میں فلیٹ خریدنے کے معاملے اور اثاثے چھپانے پر بھی کافی بحث مباحثہ ہوا، تاہم عمران خان نے قومی اسمبلی میں دعویٰ کیا کہ 4 دسمبر 2011 اور اس کے بعد 3 اگست 2012 کو انھوں نے پریس کانفرنس کرکے اپنے اثاثے میڈیا کے سامنے ڈکلیئر کیے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ان کی کوئی جائیداد یا اثاثوں کا انکشاف 2013 کے بعد ہوا ہوتا ، تو اس پر اعتراض کیا جانا چاہیے تھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ 'میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، میرا پیسہ حلال تھا اور میں اپنی 18 سال کی کمائی پاکستان لے کر آیا تھا، لہذا مجھے ٹی او آرز کا کوئی ڈر نہیں تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا تھا'۔
انھوں نے وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'ہم کہتے ہیں پاناما لیکس پر جواب دو لیکن وزیراعظم فیتے کاٹے جارہے ہیں'، یہاں ان کا اشارہ اُن ترقیاتی منصوبوں کی جانب تھا، جن کا افتتاح وزیراعظم نے حالیہ دنوں میں ملک کے مخلتف علاقوں میں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اُس وقت تک کرپشن نہیں کرسکتا جب تک ادارے کرپشن نہ کریں، جب تک نیب اور ایف آئی اے درست کام کر رہے ہوں، کرپشن نہیں ہوسکتی۔
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ تیسری دنیا ہے ہی اس لیے کیونہ ان کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین کے خطاب کے بعد اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
اسپیکر ایاز صادق کا جواب
پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے تنقید کا جواب دیتے ہوئے اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ انھوں نے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے 2،2 ریفرنسز بھیجنے کے حوالے سے نمبر پورے نہیں کیے بلکہ میرٹ پر الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھیجے۔
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے میڈیا ونگ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں ترجمان نے اسپیکر قومی اسمبلی کے حوالے سے کہا کہ حکومت اور حزب اختلاف کی جانب سے دائر کیے جانے والے ریفرنس پر انہوں نے دستاویزات کا مکمل جائزہ لینے کے بعد آئین اور قانون کی روشنی میں رولنگ دی ۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریفرنس پر فیصلہ کرنے کا فورم الیکشن کمیشن ہے، جس نے 90 دنوں میں فیصلہ کرنا ہے، علاوہ ازیں اس سلسلے میں پاکستان کی عدالتیں بھی موجود ہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں