• KHI: Maghrib 6:36pm Isha 7:52pm
  • LHR: Maghrib 6:04pm Isha 7:24pm
  • ISB: Maghrib 6:08pm Isha 7:30pm
  • KHI: Maghrib 6:36pm Isha 7:52pm
  • LHR: Maghrib 6:04pm Isha 7:24pm
  • ISB: Maghrib 6:08pm Isha 7:30pm

اندھیرے میں امید کی نئی کرن

مصائب سے دوچار مسیحی برادری کی امیدوں کا بوجھ اگر کوئی اٹھا سکتا ہے تو وہ یہ دونوں نوجوان چیمپیئن پاور لفٹرز ہی ہیں۔
شائع September 7, 2016

ٹوئنکل سہیل اور سونیا عظمت کے کاندھوں پر پاکستانی مسیحی برادری کا بوجھ ہے لیکن مصائب سے دوچار اس اقلیتی برادری کی امیدوں کا بوجھ اگر کوئی اٹھا سکتا ہے تو وہ یہ دونوں نوجوان چیمپیئن پاور لفٹرز ہی ہیں۔

گزشتہ سال ٹوئنکل پاورلفٹنگ مقابلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والی پہلی خاتون بنی تھیں جہاں انہوں نے ایشین بینچ چیمپیئن شپ کے 57 کلوگرام جونیئر ایونٹ میں پہلی ہی کوشش میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ اگلے دن سونیا نے 63 کلوگرام کیٹیگری میں سونے کا تمغہ جیت کر اپنی ساتھی کی طرح تاریخ رقم کی تھی۔

ان دو نوجوان خواتین کی یہ کاوش ملک میں مستقل انتہا پسندوں کے حملوں کا شکار مسیحی اقلیتی برادری کیلئے امید کی موہوم سی کرن ہے۔ گزشتہ ایسٹر پر لاہور میں کیے گئے دہشت گرد حملے میں 72 افراد مارے گئے تھے جن میں سے اکثریت بچوں کی تھی۔

19 سالہ خاتون پاور لفٹر ٹوئنکل لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
19 سالہ خاتون پاور لفٹر ٹوئنکل لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

مسیحی برادری کے بعض افراد ملک میں توہین مذہب کے الزامات کی زد میں بھی رہے ہیں، جس کی سزا موت ہے جبکہ اس اقلیت کی اکثریت انتہائی معمولی کام کر کے اپنا گزربسر کرتی ہے۔

19 سالہ خاتون پاور لفٹر سونیا لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
19 سالہ خاتون پاور لفٹر سونیا لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

تاہم گزشتہ سال مسقط میں ہونے والے مقابلوں میں اپنی مسلمان ساتھی شازیہ کنول کے گولڈ میڈل کی بدولت مجموعی طور پر تین سونے کے تمغے جیت کر بقیہ 12 ملکوں کو چت کرنے والی ٹوئنکل اور سونیا مسیحی طبقے کیلئے امید کی کرن بن کر ابھری ہیں۔

پاکستان جیسے کرکٹ کے دیوانے ملک میں کسی اور کھیل میں کامیابی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم ان خواتین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اکتوبر میں تاشقند میں ہونے والی ایشین چیمپیئن شپ کیلئے ان پر فنڈنگ کی جا رہی ہے۔

اگر قسمت نے ساتھ اور یہ کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہیں تو آئندہ سال امریکی ریاست فلوریڈا میں ہونے والے عالمی پاور لفٹنگ میں ملک کی نمائندگی کرنے کی اہل ہوں گی۔ تاہم لاہور کے مسیحی علاقے کی تنگ و تاریک گلیوں میں پیدا ہونے والی ٹوئنکل اور سونیا کو اس مقام تک پہنچنے کیلئے طویل سفر طے کرنا پڑا۔

سونیا اور ٹوئنکل ایکسرسائز کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
سونیا اور ٹوئنکل ایکسرسائز کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

ٹوئنکل نے سائیکلسٹ کی حیثیت سے اپنا کیریئر شروع کیا تاہم جم میں ایکسرسائز کے دوران ویٹ لفٹنگ کوچز نے ان کے اندر چھپے ہنر کو پہچان لیا اور انہیں پاورلفٹنگ کے شعبے میں آنے کا مشورہ دیا۔

یہ ویٹ لفٹنگ کی ہی ایک شاخ ہے جس میں عمودی حالت میں سر سے اوپر وزن اٹھائے بغیر مختلف تکنیکوں سے وزن کو اٹھایا جاتا ہے۔

ایشین گیمز کے میڈلسٹ اور 2012 کے لندن اولمپکس کے آفیشل راشد ملک نے سونیا اور توئنکل کی کوچنگ کا بیڑا اٹھایا۔

بدحالی سے دوچار لاہور کے ایک جمنازیم میں ان دونوں اسٹارز کی رہنمائی کرتے ہوئے راشد ملک نے کہا کہ یہ دونوں بہترین ہیں۔

ٹوئنکل نے کہا کہ اس مقام تک پہنچنے کیلئے انہیں اپنے مسلمان ساتھیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ محنت کرنا پڑی۔

سونیا لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
سونیا لاہور کے ایک جم میں وزن اٹھانے کی تیاری کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

'چاہے اسکول ہو یا کھیلوں کے مقابلے، مسلمان کے مقابلے میں اپنی جگہ یقینی بنانے کیلئے ہمیں ہر جگہ ہی دگنی محنت کرنی پڑی'۔

سونیا کے والد نے انہیں چھوڑ دیا ہے اور ان کی والدہ گھر چلانے کیلئے متعدد کام کرتی ہیں۔

انہوں نے لاہور کے ریلوے اسٹیڈیم میں جانے والی خواتین ایتھلیٹس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ فیکٹری میں کام کیلئے جانی کی تیاریاں کر رہی ہوتی تھیں تو انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر سوچتی کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ جا سکتی، ان کی طرح جوگرز پہن سکتی اور جو یہ کرتی ہیں وہ کر پاتی۔

ٹوئنکل لاہور کے ایک جم میں ایکسرسائز کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
ٹوئنکل لاہور کے ایک جم میں ایکسرسائز کرتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

تاہم اب وہ اور ٹوئنکل اپنے آپ میں کئی لڑکیوں کیلئے مشعل راہ بن گئی ہیں۔ وہ پاکستان میں کھیلوں کی دنیا میں بلندیوں تک پہنچنے والی واحد مسیحی نہیں بلکہ اس سے قبل یوسف یوحنا(جو بعد میں مسلمان ہو گئے) سمیت کئی کھلاڑی ہاکی، کرکٹ، اور ایتھلیٹکس میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں۔

وہ نوجوان ہیں، مردانہ برتری کے حامل پاکستانی معاشرے میں عورت ہونا بھی ان کے خلاف جاتا ہے لیکن توجہ کا مرکز بنے ملک کے کئی ایتھلیٹس کے برعکس وہ فتوحات حاصل کر رہی ہیں۔

ٹوئنکل لاہور میں اپنے اپارٹمنٹ میں اپنے میڈل اور کپ دکھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
ٹوئنکل لاہور میں اپنے اپارٹمنٹ میں اپنے میڈل اور کپ دکھاتے ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی

ان دونوں سے متاثر اور عالمی سطح پر ملک کی نمائندگی کی خواہشمند ایک اور مسیحی خاتون ویٹ لفٹر شیتل آصف نے کہا کہ سونے کا تمغہ جیتنا کوئی عام بات نہیں، انہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

شیتل نے تسلیم کیا کہ میڈیا کی توجہ نہ ملنے کے سبب اس جوڑی کے کارناموں سے پوری مسیحی برادری واقف نہیں تاہم جو جانتے ہیں وہ ان سے متاثر ہو رہے ہیں۔

ٹوئنکل اپنے والد اور بھائی کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے۔
ٹوئنکل اپنے والد اور بھائی کے ساتھ اپنی رہائش گاہ پر اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے۔

ایک مسیحی سماجی کارکن شامون الفریڈ گِل نے کہا کہ ٹوئنکل اور سونیا کی کامیابی نے نوجوان مسیحی ایتھلیٹس کیلئے امید کی نئی کرن روشن کردی ہے اور عالمی سطح پر ملک کا نام روشن کرنے کیلئے مزید نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنیں گی۔

ٹوئنکل کے کالج کی ساتھی حِرا ارشد نے کہا کہ ان دونوں کی کامیابی صرف مسیحی نہیں بلکہ تمام خواتین کیلئے تحریک ہے، ٹوئنکل کی کامیابی کے بعد ہر لڑکی آگے آ کر اپنے اور اپنے ملک کیلئے شہرت کمانے کی خواہشمند ہے۔