وفاق پر تحفظ پاکستان ایکٹ سے متعلق جلد فیصلے کیلئے دباؤ
لاہور: حکومت پنجاب نے وفاق پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد تحفظ پاکستان ایکٹ (پوپا) 2014 کے مستقبل کا فیصلہ کرے تاکہ اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی خصوصی عدالتوں کی قانونی حیثیت واضح ہوسکے۔
وفاقی حکومت کو بتایا گیا ہے کہ چونکہ تحفظ پاکستان ایکٹ کی معیاد ختم ہوچکی ہے لہٰذا اس کے تحت قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی اور اس قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے ملزمان کو حراست میں رکھنا بھی غیر قانونی ہوگیا ہے۔
پنجاب حکومت کے ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ پوپا کے تحت قائم کیے گئے مقدمات کا سامنا کرنے والوں کو اب جیل کی سلاخوں کی پیچھے رکھنا غیر قانونی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحفظِ پاکستان ایکٹ: 'توسیع کی مخالفت کی جائے گی'
واضح رہے کہ جولائی 2014 میں پارلیمنٹ نے ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ملزمان کے مقدمات کی فوری سماعت کے لیے تحفظ پاکستان ایکٹ کی منظوری دی تھی جس کی معیاد دو برس رکھی گئی تھی۔
اب وفاقی حکومت کے قانونی معاونین نے یہ مشورہ دیا ہے کہ پوپا کی معیاد میں توسیع کے بجائے ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا جائے اور پوپا کے تمام مقدمات کو انسداد دہشتگردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں منتقل کردیا جائے۔
اس حوالے سے کوئی صدارتی آرڈیننس بھی جاری نہیں کیا گیا لہٰذا مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالت میں منتقل نہیں کیے جاسکتے۔
پنجاب میں تین خصوصی عدالتیں لاہور، راولپنڈی اور ملتان میں قائم کی گئی تھیں تاہم رواں برس 15 جولائی کو قانون کی معیاد ختم ہونے کے بعد سے انہوں نے کام بند کردیا ہے۔
مزید پڑھیں:تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع پر حکومت تذبذب کا شکار
ان میں سے کسی عدالت نے اس دوران کوئی سزا بھی نہیں سنائی اور پنجاب حکومت کے عہدے دار کا کہنا ہے کہ چوں کہ اب عدالت کی قانونی حیثیت باقی نہیں رہی لہٰذا مقدمات جاری رکھنے اور ملزمان کو گرفتار رکھنے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں۔
ان خصوصی عدالتوں کے پریزائڈنگ آفیسرز ایڈیشنل اینڈ سیشن ججز تھے جن کی تقرری لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے کی گئی تھی۔
لاہور اور راولپنڈی کی خصوصی عدالتوں کے ججز قانون کی مدت ختم ہونے کے بعد واپس لاہور ہائی کورٹ آچکے ہیں جبکہ ملتان کی خصوصی عدالت کے جج انسداد دہشتگردی عدالت کے پریزائڈنگ افسر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ڈان کو دستیاب دستاویز کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دو سال میں پوپا کے تحت پنجاب میں کل 67 مقدمات ، 26 لاہور، 12 راولپنڈی اور 29 ملتان میں درج کیے۔
یہ بھی پڑھیں:جماعت اسلامی کا تحفظ پاکستان ایکٹ کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان
اس کے علاوہ دیگر 25 مقدمات جن میں سے لاہور میں 11، راولپنڈی میں دو اور ملتان میں 12 کیسز زیر تفتیش ہیں۔
درج ہونے والے مقدمات میں سے 36 مقدمات کے چالان عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں جبکہ ایک کیس انسداد دہشتگردی کی عدالت سے خصوصی عدالت منتقل ہوا۔
کسی بھی مقدمے پر سزا نہیں سنائی گئی اور جب قانون کی مدت ختم ہوئی اس وقت 31 مقدمات خصوصی عدالتوں میں زیر سماعت تھے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ جلد از جلد پوپا کے تحت قائم کیے جانے والے مقدمات کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔
ایک سینئر عہدے دار نے بتایا کہ ہم نے وفاق کو آگاہ کردیا ہے کہ جو بھی کیسز پوپا کے تحت قائم کیے گئے تھے قانون کی مدت ختم ہونے کے بعد عدالت اس کی سماعت نہیں کرسکتی۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اب اس قانون کے تحت گرفتار کیے جانے والے ملزمان کو حراست میں رکھنا بھی غیر قانونی ہے کیوں کہ جب خصوصی عدالت ہی موجود نہیں تو ان ملزمان کی حراستی مدت میں اضافہ کون کرے گا؟ ہر 15 روز بعد ملزمان کی مدتِ حراست میں توسیع کرانا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے حوالے سے جلد کوئی فیصلہ کیا جانا ضروری ہے ورنہ مقدمات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہ جائے گی اور ہمیں تمام ملزمان کو مجبوراً رہا کرنا پڑے گا۔
**یہ خبر 5ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی **