• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
شائع September 3, 2016 اپ ڈیٹ September 5, 2016

بچپن میں دیگر بچوں کی طرح ہم بھی دادی اماں کی کہانیاں سنتے سنتے میٹھی نیند کی آغوش میں چلے جاتے تھے۔ دادی اماں کی سنائی گئی ایک آدھ کہانی تو آج بھی یادداشت کے صفحات پر ماضی کی طرح نقش ہے۔

ایسی ہی ایک کہانی شہزادہ بہرام اور شہزادی گل اندام کے متعلق تھی جسے دادی اماں ہمیں ہفتے میں کسی ایک رات ضرور سنایا کرتی تھیں۔

ہر بار اس کہانی سے ہم ایسے محظوظ ہوتے جیسے اس کہانی کو پہلی بار سن رہے ہوں۔ مذکورہ کہانی میں تورابان دیو کا کردار منفی ہوتا ہے جو شہزادی گل اندام کو اٹھا کر لے جاتا ہے۔ جس کے بعد شہزادہ بہرام جان پر کھیل کر شہزادی کو واپس لے آتا ہے۔

اپنی کہانیوں میں دادی اماں پرستان نامی جس فرضی علاقے کی منظر کشی کرتی تھیں، آج ٹھیک اُنتیس تیس سال بعد جیسے ہی کہر کی چادر میں لپٹی بشیگرام جھیل پر پہلی نظر پڑی، تو نہ جانے کیوں اس پر پرستان کا گمان ہونے لگا۔

آج اگر دادی اماں زندہ ہوتیں اور بشیگرام جھیل کی تصاویر دیکھتیں، تو وہ بھی میرے اس دعوے کی تصدیق کرتیں۔

بشیگرام جھیل وادیء بشیگرام (مدین) کے مشرق میں واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی گیارہ ہزار پانچ سو فٹ ہے۔ اس کا شمار نہ صرف سوات بلکہ پورے پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں ہوتا ہے۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے باغ ڈھیرئی کے راستے 51 کلومیٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے بعد مدین کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ مدین تک سڑک کی صورتحال خاصی بہتر ہے۔

یہ فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں با آسانی طے ہوجاتا ہے۔ مدین سے آگے فور بائی فور جیپ درکار ہوتی ہے۔ کیوںکہ مذکورہ روڈ خستہ حالی کا شکار ہے۔

درہء کس تک فور بائے فور جیپ کے ذریعے باآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے — تصویر امجد علی سحاب
درہء کس تک فور بائے فور جیپ کے ذریعے باآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے — تصویر امجد علی سحاب

یہ فاصلہ 12 سے 14 کلومیٹرز تک کا ہے لیکن گاڑی اسے طے کرنے میں سوا ایک گھنٹے تک کا وقت لگا دیتی ہے۔ راستے میں درہء کس کے مقام پر گاڑی سے اترنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ آگے جیپ ایبل ٹریک بھی ختم ہوجاتا ہے۔

کس سے آگے کئی ہرے بھرے چھوٹے بڑے درّے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں جن میں درہء مغل مار لہلہاتے کھیتوں اور پھلدار درختوں کی وجہ قابل ذکر ہے۔ درہء مغل مار کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے اہل علاقہ لاعلم ہیں۔

وادئ بشیگرام اور اس کے اندر مختلف دروں کے لوگ بے حد مہمان نواز ہیں۔ ہر دس بارہ قدم بعد جب بھی کوئی مقامی شخص ملتا ہے تو سلام دعا کے بعد چائے پانی کا ضرور پوچھتا ہے۔

درہء کس سے دو گھنٹے پیدل سفر کے بعد ایک چھوٹا سا بانڈہ (بستی) آتا ہے جس میں بمشکل تین چار کچے کوٹھے اور ایک چھوٹی سی مسجد واقع ہے۔

درہء کس کی حدود ختم ہوتے ہی شروع ہونے والا پہلا بانڈہ — تصویر امجد علی سحاب
درہء کس کی حدود ختم ہوتے ہی شروع ہونے والا پہلا بانڈہ — تصویر امجد علی سحاب

ایک بچی دروازے کی اوٹ سے سیاحوں کو دیکھ رہی ہے — تصویر امجد علی سحاب
ایک بچی دروازے کی اوٹ سے سیاحوں کو دیکھ رہی ہے — تصویر امجد علی سحاب

بانڈہ میں 80 سالہ بزرگ ملک نے ہماری سولہ افراد پر مشتمل ٹریکنگ ٹیم کو گاڑھی چھاچھ پلائی اور دوپہر کے کھانے کی دعوت بھی دی۔

ملک کے بقول جب وہ آٹھ دس سال کے تھے تو ریاست سوات کے والی میاں گل عبدالحق جہانزیب بشیگرام جھیل کی سیر کرنے آئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ، ’’وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے جب والیء سوات بشیگرام جھیل آئے تھے۔ آس پاس کے گاؤں والوں نے ان کی اور ان کے ساتھ آنے والوں کی خوب خاطر مدارت کی تھی۔ ہم اُس روز بہت خوش تھے کہ ہمارے گاؤں بادشاہ سرکار آئے ہیں۔ میری عمر اس وقت بمشکل آٹھ دس سال تک ہوگی۔‘‘

بزرگ نے بڑے ہی پُرجوش انداز سے اپنی کہانی سنائی اور ہاتھ کے اشارے سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس وقت ان کا قد کتنا لمبا تھا۔

درہء کس سے تقریباً ایک گھنٹہ پیدل سفر طے کرنے کے بعد گھنیرے جنگل کا آغاز ہوتا ہے۔ جنگل میں سفر کے دوران مختلف پرندوں کی میٹھی آوازیں گویا کانوں میں رس گھول دیتی ہیں۔

جنگل سے نکلتے ہی چہار سو سبزہ اور رنگ برنگے پھول آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں۔ جھیل تک تقریباً ہر دس پندرہ منٹ کے پیدل سفر کے بعد میٹھے پانی کا کوئی جھرنا یا چشمہ ضرور مل جاتا ہے۔

جھیل سے نکلنے والا پانی ایک ندی کی شکل میں سیاحوں کا راستہ وقتاً فوقتاً کاٹتا رہتا ہے۔ مذکورہ ندی عبور کرنے کے لیے مختلف جگہوں پر بڑے بڑے درختوں کو کاٹ کر پل کی شکل میں رکھا گیا ہے۔

نیچے پُرشور پانی کے اوپر پل نما درخت پر گزرتے ہوئے آدمی کے دل میں عجیب سی گدگدی ہوتی ہے۔ کمزور دل افراد کو گائیڈ ان کے ہاتھ تھام کر انہیں پل نما درخت پار کرواتے ہیں۔

ندی کے اوپر رکھے گئے درخت جو پل کا کام دیتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب
ندی کے اوپر رکھے گئے درخت جو پل کا کام دیتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب

پہاڑ کے اوپر واقع ایک بڑے پتھر پر بکری اور میمنے کے بیٹھنے کا دلفریب انداز — تصویر امجد علی سحاب
پہاڑ کے اوپر واقع ایک بڑے پتھر پر بکری اور میمنے کے بیٹھنے کا دلفریب انداز — تصویر امجد علی سحاب

ندی چونکہ زیادہ تر جنگل یا پھر درختوں کے درمیان گزرتی ہے، اس لیے اس کا پانی انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اگست کے اواخر میں بھی ندی کے پانی سے منہ ہاتھ دھونا بہت مشکل ہوتا ہے۔

سیاح ٹھنڈے پانی سے بوتل بھر کر اپنے پاس رکھتے ہیں اور 10 یا 15 منٹ کے بعد جب پانی پینے لائق ہو جاتا تب ہی پانی پی پاتے ہیں۔

بشیگرام جھیل تک جانے والا راستہ چونکہ لمبے لمبے پہاڑوں اور گھنے جنگلات کے درمیان گزرتا ہے اس لیے گرمی اور پیاس کم لگتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق ماہِ جولائی کے ابتدائی ہفتے تک جھیل برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ تاہم وہاں سیر کے لیے جولائی یا اگست کے اوائل کا وقت بہترین آپشن تصور کیا جاتا ہے۔

آخری چڑھائی چڑھنے کے بعد جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر — تصویر امجد علی سحاب
آخری چڑھائی چڑھنے کے بعد جھیل پر پڑنے والی پہلی نظر — تصویر امجد علی سحاب

بشیگرام جھیل کی حدود شروع ہوا چاہتی ہیں — تصویر امجد علی سحاب
بشیگرام جھیل کی حدود شروع ہوا چاہتی ہیں — تصویر امجد علی سحاب

مذکورہ ایام میں دھند اور بادل کے ٹکڑے جھیل کے احاطے میں آنکھ مچولی کھیل رہے ہوتے ہیں اور ماہ ستمبر کے گزرتے ہی یہاں باقاعدہ طور پر برف باری شروع ہوجاتی ہے۔

جھیل چوںکہ زیادہ اونچائی پر واقع ہے، اس لیے اگست کے اواخر میں جہاں، ایک طرف ملک کے دیگر حصوں میں حبس زدہ گرمی سے لوگوں کی جان نکل رہی ہوتی ہے، وہاں دوسری طرف برف کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جھیل کے نیلگوں پانی میں تیرتے دکھائی دیتے ہیں، جنہیں دیکھ کر سیاحوں پر عجیب سی سرخوشی طاری ہو جاتی ہے۔

اس خوبصورت جھیل کو تین اطراف (مشرق، شمال، جنوب) سے فلک بوس پہاڑوں نے گھیر رکھا ہے۔ مغرب کی طرف پانی کے نکلنے کا راستہ ہے۔ یوں پانی ایک چھوٹے سے آبشار کی شکل میں نیچے گرتا ہے جو دور دور سے دکھائی دیتا ہے۔

سوات کی دیگر جھیلوں کی طرح بشیگرام کے حوالے سے بھی کئی عجیب و غریب فرضی کہانیاں مشہور ہیں۔ ہمارے گائیڈ عظیم خان کے بقول، ’’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ یہاں ہر جمعے کے روز دوپہر کی اذان کے بعد دو سونے کے کٹورے پانی کی سطح پر تیرتے نظر آتے تھے۔ ایک دن چند لوگوں نے جمعے کی نماز چھوڑی اور مذکورہ کٹوروں کو حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔ وہ دن اور آج کا دن، پھر مذکورہ وقت سے کسی کو کٹورے نظر نہیں آئے۔‘‘

بشیگرام جھیل — تصویر امجد علی سحاب
بشیگرام جھیل — تصویر امجد علی سحاب

بشیگرام جھیل کا دوسرا منظر — تصویر امجد علی سحاب
بشیگرام جھیل کا دوسرا منظر — تصویر امجد علی سحاب

دوسری فرضی کہانی میں جمعے کی رات کو سونے کے صرف ایک کٹورے کے نکلنے کا حوالہ ملتا ہے جبکہ تیسری کہانی دل دہلا دینے والی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دسمبر یا جنوری کے مہینے میں مقامی پہاڑوں میں شادی کی بارات کا جھیل کے احاطے سے گزر ہوا تھا۔

زیادہ برف پڑنے کی وجہ سے درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے گر گیا تھا، جس کی وجہ سے جھیل کی سطح منجمد ہو کر ایک وسیع میدان کی شکل پیش کر رہی تھی۔

جھیل تک پہنچتے پہنچتے چوںکہ شام کے سائے گہرے ہوگئے تھے، اس لیے باراتیوں میں کسی کو گماں تک بھی نہ گزرا کہ وہ جھیل کے پانی کے اوپر جمی برف کی تہہ پر سفر کر رہے ہیں۔

اسی دوران کسی نے مشورہ دیا کہ کیوں نہ رات اس وسیع میدان (منجمد جھیل) پر گزار دی جائے۔ یوں ایک تیر سے دو شکار ہوجائیں گے، یعنی تھکن بھی دور ہوجائے گی اور پیٹ کی پوچا پاٹ بھی ہوجائے گی۔ باہمی مشاورت کے بعد خیمے لگائے گئے۔

کہر کی چادر میں لپٹے بشیگرام جھیل کا تیسرا منظر — تصویر امجد علی سحاب
کہر کی چادر میں لپٹے بشیگرام جھیل کا تیسرا منظر — تصویر امجد علی سحاب

کہر ختم ہونے کے بعد جھیل کا ایک دلفریب منظر — تصویر امجد علی سحاب
کہر ختم ہونے کے بعد جھیل کا ایک دلفریب منظر — تصویر امجد علی سحاب

راستے میں جابجا جنگلی پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب
راستے میں جابجا جنگلی پھول دعوت نظارہ دیتے ہیں — تصویر امجد علی سحاب

اپنے ساتھ خچروں پر لائی گئی خشک لکڑیوں کی مدد سے آگ روشن کی گئی، تا کہ نہ صرف کھانا تیار کیا جاسکے بلکہ آگ تاپ کر ٹھٹھرتی سردی کا مقابلہ بھی کیا جاسکے۔

یوں آگ روشن کی گئی اور باراتی دو پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک پارٹی کھانے کی تیاری جبکہ دوسری مع دلہن آگ تاپنے میں مشغول تھے۔

شعلے اُٹھنے لگے، تو جلد ہی جھیل کی سطح پر جمی برف میں دراڑیں پڑ گئیں۔ دونوں پارٹیاں اپنے انجام سے بے خبر اپنے اپنے کام مشغول تھیں کہ دفعتاً منجمد جھیل کی سطح بیٹھ گئی۔

نتیجتاً نئی نویلی دلہن، جہیز، باراتیوں، خچروں اور حفاظت پر مامور کتوں سمیت جھیل کے برفیلے پانی کی نذر ہوگئی۔

جھیل چوں کہ الپائن چوٹیوں پر واقع ہے، اس لیے کافی فاصلے تک اس کے ارد گرد درخت کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔

گیارہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر جب بشیگرام جھیل کہر کی چادر سر پر تان لیتی ہے تو سیاح یہ منظر دیکھتے ہی پہلی نظر میں اس کے عاشق ہو جاتے ہیں۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (28) بند ہیں

ARA Sep 03, 2016 04:09pm
Thanks Mr. Sahab ... I wish I also get a chance to hike to that beautiful place.
محمد اعظم Sep 03, 2016 06:38pm
امجد علی سحاب صاحب بہت اچھا لگا پڑھ کر اور جھیل کو دیکھنے کی بیچینی ہورہی ہے۔
Komal Malik Sep 03, 2016 08:08pm
Likhny ka andaz acha hai or mazed behtar ho sakta hai ache koshiah hai.
احسان علی خان Sep 03, 2016 09:39pm
بہت خوب! قدرت نے تو اپنا کام کردیا ہے، اب ہمیں چاہیے کہ ان قدرت مقامات کی قدر کریں۔
Abuzar khan Sep 03, 2016 09:39pm
Interpretatn is very mch gud (Y)
zaima zaima Sep 03, 2016 09:54pm
its just beautiful...and your way of presenting its story and capturing also fablous...
Shahid Mahmood Sep 03, 2016 11:04pm
آپ کا شکریہ آپ نے بڑی اچھی معلمت دی اللہ پاک آپ کوسلامت رکھے امین اگرہم اس طرح یہ تمام معلمت ایک دوسر سےشیر کریں تو کچھ میرےجسیے لوگ بھی سیر کر لیں گے میں نے ساری کھانی پڑی اور سیر بھی کی بہت بہت شکریہ آپ بھائی۔ ۔شاہد محمود لاہور،
Muhammad Hussain Sep 04, 2016 09:36am
Assalam o Aalikum, Amjid Ali Sir Kabhi Lasbela Ki Tehsil Bela main Aao lasBela siayahat K Liye Bout Acha Illaqa hai Humare yaha Lasbela Dist ka ik Chota sa illaqa hai, waha Dhukane (Shops) hain, lekin un ko darwaze nai, aur us ilaqe ka Bambal peer hai. Shereen Faryad b Lasbela main hain. G aur b bout Aajube hain Jin ko dekhe bagir aap ko yaqeen nai aaye ga...Khuda Hafiz
KHALID EXPAT Sep 04, 2016 10:23am
Excellent
Kamran Khan Sep 04, 2016 10:32am
Dear Brother, Very nice, keep it up.............. You are nice man and you have a nice thinking. Regards, Kamran Khan..KSA
Afzal basher Sep 04, 2016 11:02am
Best by Amjid Ali sahab
Wanderlust Sep 04, 2016 01:43pm
What a beauty of nature. Please share with us the Coordinates of this Lake.
Nasar Sep 04, 2016 04:06pm
Very nice sir... good effort Shayed itna khubsorat b na wo... jetna bayaan karne ka tareqa..... super ..keep it up
amin ur rehman Sep 05, 2016 06:37pm
ڈان نیوز کے ایسے مزےدار اور تریخ سے جڑے پوسٹ بہت اچھے لگتے ہے مجھے ہمیں ایسے تریخی مقامات دکھانے پر ہم ڈان نیوز کے بہت مشکور ہیں۔
Vaqar Naqvi Sep 06, 2016 10:37am
Mashallah - It's a lovely valley keep it up and show some more unexplored places like this -
Imran Sep 06, 2016 10:38am
Bht wadiya G
nazar jan Sep 06, 2016 11:14am
yay sab qudrat kay haseen nazaray a .well photograpy
Tauseef Amjad Mir Sep 06, 2016 12:31pm
Tauseef Amjad Mir.Islamabad امجد علی سحاب صاحب بہت اچھا لگا پڑھ کر اور جھیل کو دیکھنے کی بیچینی ہورہی ہے۔
Tauseef Amjad Mir Sep 06, 2016 12:37pm
Explore Pakistan , we Love our earth & Sea harbor, Glaciers, Visit, every place, with Families, Or in Groups with camping in July-to Oct. Tauseef Amjad Meer.
M.Ramzan tairq Sep 06, 2016 03:19pm
Sir, great effort, good to see this place in pictures but i want to visit it, as early as possible, as it is wonderful place, rich source of natural beauty.
Touqeer Ahmed Sep 06, 2016 04:58pm
JNAB MAZA A GAYA YE TAHREER PARH KA ......UMEED HA OR KUCH BHI ASA PARNA KO MILA GA.
Muhammad Adnan Sep 07, 2016 08:46am
آپ کا شکریہ آپ نے بڑی اچھی معلمت دی اللہ پاک آپ کوسلامت رکھے
kashi f adnan Sep 07, 2016 02:38pm
great job sir , keep it up
kashi f adnan Sep 07, 2016 02:38pm
great job sir, keep it up
ansar ali Sep 07, 2016 09:56pm
Islam zikar mine ny phlay bhi souna tha
SYED KHALID JAVAID BUKHARI ASC Sep 07, 2016 11:00pm
ہمیں چاہیے کہ ان قدرت مقامات کی قدر کریں۔
Shaukat Ali Khan Sep 08, 2016 02:46pm
Nicely written. Photo are awesome.
princekhan Sep 09, 2016 08:49pm
etney hasseen manzar kam hi dekhne ko milte haien mein ne bhi sawat dekha hai bohot khubsurat hai magar ye manzar dil khinch rahe haien subhan allah kia dil gudaz ankho mien bas jane waley manzar hai dil bagh bagh hogaya aur aik bar phir swat dekhne ko dil machal gay ap ki nazar haseen hai jo manzir ko es andaz mien pesha kia hai subhan allah bohot khub hai ap ki kawish .