• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سندھ شدید بیمار ہے سائیں

شائع September 22, 2016 اپ ڈیٹ September 23, 2016
آٹھ سالوں سے حکومت میں ہونے کے بعد اب پیپلز پارٹی کو سندھ کا شعبہ صحت ٹھیک کرنے کے لیے اور کتنا وقت درکار ہے؟ — اے ایف پی/فائل
آٹھ سالوں سے حکومت میں ہونے کے بعد اب پیپلز پارٹی کو سندھ کا شعبہ صحت ٹھیک کرنے کے لیے اور کتنا وقت درکار ہے؟ — اے ایف پی/فائل

صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مسلسل آٹھ برس طویل دور اقتدار میں اس صوبے میں جو ترقی ہوئی ہے، وہ صوبے کے بنیادی ڈھانچے کی خستہ حالی اور عوام تک تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سے صاف واضح ہے۔

دوسرے شعبہ جات کو چھوڑیے، واحد شعبہء صحت کی حالت دیکھ لیجیے۔ صحت کی بہتر سہولیات کا فقدان صرف تھر میں ہی نہیں، بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع کے بڑے ہسپتالوں کی حالت زار عوام تک معیاری طبی سہولیات کی فراہمی میں شعبہء صحت کا کردار بتا رہی ہے۔

اس کی ایک مثال گزشتہ ماہ صوبہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے ٹیچنگ ہسپتال کا درجہ رکھنے والے سول ہسپتال سکھر میں دیکھنے کو ملی جہاں ڈاکٹروں کی غفلت اور بچوں کے وارڈ میں انکیوبیٹر خراب ہونے کی وجہ سے ایک ہی دن میں 6 بچے فوت ہو گئے۔

اسی طرح بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری رہا اور ہفتے کے اندر تعداد 11 تک پہنچ گئی۔

بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ بچوں کے وارڈ میں ایک تو انکیوبیٹر خراب تھا اور دوسرا بستروں کی بھی شدید کمی تھی۔

ہمارے ملک میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے مختلف مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا جاتا، بلکہ پراجیکٹس کی دوڑ میں ادارے قائم کر دیے جاتے ہیں۔ باقی اس سے پھر کوئی سروکار نہیں کہ جس علاقے میں ادارہ قائم کیا جا رہا ہے، وہاں آبادی کتنی ہے اور کیا ادارہ اتنے لوگوں کا بوجھ اٹھا بھی پائے گا یا نہیں؟

پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

یہی حال سکھر سول ہسپتال کا بھی ہے۔ ہسپتال میں اس قدر بستروں کی کمی ہے کہ ایک مقامی اخبار کے مطابق ہسپتال میں ایک بستر پر دو بچوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً علاج تو دور مسائل اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔

سکھر ہسپتال کی ایسی صورتحال کے باوجود حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی فوراً نوٹس لینے کے بجائے اس پورے معاملے پر یہ مؤقف پیش کر رہی ہے کہ ہسپتال کی حالت پہلے سے کافی زیادہ خراب ہے جسے ٹھیک کرنے میں وقت درکار ہے۔

حد تو یہ ہے کہ آج تک سندھ میں ایک سرکاری ریسکیو سروس بھی نہیں ہے، حالانکہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ایسی سروس موجود ہے۔ سندھ کے عوام ایدھی، چھیپا اور دیگر مقامی تنظیموں کی فلاحی ایمبولینسوں کے ہی منتظر رہتے ہیں جو کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بہرحال کم ہیں۔

میں پیپلز پارٹی کے نمائندگان سے پوچھتا ہوں کہ آپ اب تک آپ کیا کر رہے تھے؟ آپ کتنی بار صوبائی راج پر تخت نشین ہوئے ہیں؟ آپ کو اور کتنا وقت درکار ہے؟

صحرا کی کہانی تو شہروں سے بھی درد بھری ہے، جہاں بچوں کی اموات کا سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے۔ کچھ دن پہلے مزید تین بچوں کی موت واقع ہوئی۔ گزشتہ 7 سے 8 مہینوں میں سینکڑوں بجے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھ چکے ہیں۔

سندھ میں کروڑوں روپے کے بجٹ سے چلنے والے سرکاری ہسپتال طبی عملے اور زیادہ تر ڈاکٹروں کی غیر حاضری، اور ادویات و دیگر ضروری سہولیات کی شدید کمی کا شکار ہیں۔

جہاں ضلعی سطح کے ہسپتالوں کا یہ حال ہو وہاں تعلقہ سطح کے ہسپتالوں کی حالت کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کچھ تعلقہ ہسپتال سوائے ایک سرکاری عمارت کے اور کچھ بھی نہیں ہیں۔

ہسپتالوں کے حوالے سے اقدامات کا تو پتہ نہیں البتہ دوروں کا دور دورہ رہتا ہے۔ وزیر صحت اور دیگر رہنما ہسپتالوں کا دورہ کرتے ہیں، ہدایات جاری ہوتی ہیں، میڈیا سے گفتگو ہوتی ہیں مگر سلسلہ جوں کا توں جاری رہتا ہے۔

کچھ دن پہلے قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ نے سکھر کے سرکاری ہسپتال کا اچانک دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران ہسپتال کی ناقص حالت کے مناظر ٹی وی چینلز پر نشر بھی ہوئے۔ مگر انہوں نے بجائے حکومت کی غلطی تسلیم کرنے کے وہی باتیں دہرائیں جو ہمیشہ سے دہرائی جاتی رہی ہیں، یعنی وقت لگے گا، ایسا کچھ نہیں ہے، اخباری اطلاعات غلط ہیں، وغیرہ۔

پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

ہمارے پاس سیاست کا ایک کلچر ہے جو شاید دنیا میں اور کہیں نہیں پایا جاتا، اور تقریباً تمام سیاستدان اس کلچر کا حصہ ہیں۔ اس کلچر میں جوشیلے خطاب، پرانے وقتوں کے رہنماؤں کی شخصیت کو کیش کرنا، لسانی اور صوبائی منجن بیچنا، اگر وفاق میں کسی دوسری جماعت کی حکومت ہے تو اپنی ہر غلطی وفاقی حکومت پر ڈال دینا، اور دیگر غیر ضروری اور لایعنی بنیادوں پر اپنی سیاست چمکانا ہے۔

یہی حال سندھ حکومت کا بھی ہے جو گذشتہ آٹھ سالوں سے حکومت میں ہونے کے باوجود نظامِ صحت میں اصلاحات لانے میں ناکام رہی ہے اور جب بھی اس جانب ان کی توجہ دلائی جائے تو وہی پرانے دکھڑے، وفاقی حکومت پر الزامات، مارشل لاؤں کو موردِ الزام ٹھہرانا، اور اپنی کوتاہیوں سے صرفِ نظر کرنا۔

صحت کی سہولیات کی فراہمی کسی بھی ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتی ہے اور ریاست کی جانب سے بہتر صحت کا حصول ہر ایک شہری کا حق بھی ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارا ملک عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق صحت کے شعبے میں سالانہ اپنی جی ڈی پی کا 2 اعشاریہ 8 فیصد حصہ خرچ کرتا ہے۔ یہ رقم نہ تو بطور ترقی پذیر ممالک کے کم ہے، بلکہ بیشتر جنوبی ایشیائی ممالک سے بھی کم ہے۔

پر اگر یہ 2.8 فیصد بھی صحیح سے استعمال ہوجائے تو کیا بات ہے۔ سرکاری ہسپتالوں اور طبی مراکز کا حال دیکھ کر یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر حکومت پیسہ جاری کر بھی دے، تو بھی وہ درست جگہ استعمال نہیں ہوتا۔

سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں، اور گاؤں گوٹھوں میں رہنے والی آبادی غیر متوازن غذا، ماحولیاتی آلودگی اور وبائی بیماریوں کا شکار ہو کر جب سرکاری ہسپتال کا رخ کرتی ہے تو صحت کے ناقص انتظام ان کی مشکلات میں اضافے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔

قائم علی شاہ صاحب کے بعد سندھ میں وزارت اعلیٰ کے منصب پر اب ایک نئے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ براجمان ہوئے۔ لیکن جب میں نے ان کے اپنے انتخابی حلقے واقعہ بھان سید آباد کے ہسپتال کی حالت معلوم کی تو مجھے کافی افسوس ہوا کہ وہاں ڈاکٹر اور عملہ نہیں ہے اور لوگ صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔

پڑھیے: اگر کچھ بچے مر گئے تو کیا ہوا؟

میڈیا اطلاعات کے مطابق ہسپتال کے سابق ایم ایس کے تبادلے کے بعد ہسپتال میں علاج معالجہ تعطل کا شکار ہے۔ وہاں 15 ڈاکٹرز کی جگہ صرف دو ڈاکٹرز کو مقرر کیا گیا ہے مگر وہ بھی ہمیشہ اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر رہتے ہیں۔

دوسری جانب ضلع دادو کے سول ہسپتال میں ڈاکٹرز کی کمی کے باوجود سیکریٹری صحت نے سات ڈاکٹرز کا وہاں سے تبادلہ کر دیا ہے۔ اس طرح وہاں ڈاکٹرز کی شدید کمی ہو گئی ہے۔

ایک خبر کے مطابق سول ہسپتال میں ایک بھی سرجن یا فزیشن موجود نہیں ہے۔ جبکہ بچوں کے ڈاکٹر سمیت دماغ اور ناک کا بھی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔

اگر ایسا حال وزیر اعلیٰ سندھ کے اپنے علاقے کا ہے تو باقی علاقوں کا حال کیا پوچھنا؟

نئے وزیرِ اعلیٰ سندھ سے صوبے بھر کے عوام تبدیلیوں کی امید لگا بیٹھے ہیں۔ امید ہے کہ وزیر اعلیٰ بھلے ہی اپنے حلقے سے شروع کریں مگر صوبے میں صحت اور ہسپتالوں کی بہتری کے لیے انقلابی و عملی اقدامات اٹھائیں گے۔

کم از کم آٹھ سالوں کے بعد تو 'مزید وقت چاہیے' کی گردان ختم ہونی چاہیے۔

رحمت علی تنیو

رحمت علی تنیو سندھی روزنامے میں صحافی ہیں۔ ادب اور حالاتِ حاضرہ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

atif Sep 22, 2016 11:33am
The Government should be ashamed and think that what if their child will be sick and there will be no procurement for them. God will never forgive you. Every person who is showing this rather helping them is also responsible. The People of Pakistan should be really ashamed that what are we and what are we doing only to run after money. Please be on right path whatever it takes. Remember that one day you all will die and then there will be no one who could save you. Take your responsibility if God gave you. Thanks
Bilal Iqbal Sep 22, 2016 11:54am
That's because of unqualified people selection, Mr Rahmat Ali your article is valuable.
Imran Sep 22, 2016 03:49pm
@Bilal Iqbal unqualified ye ajeeb baat ker di aap nay. zardari oxford say nai parha aur bhi assay kafi hain jo parhay likhay hain. wazeer sehat ko deekh lo sindh k. its not about qualification its all about loot.
Ibrahim Buriro Sep 22, 2016 11:04pm
The timely article on pressing issue. Recently in Larkana I have witnessed how poor people suffer due to inefficient facilities in hospitals, especially in children related hospitals. Sindh government's record in almost all areas is so poor, we have become sick. its not just health, but education, transportation all are in worse state. well done Rehmat for highlighting greivences of poor people of rural areas, which hardly mentioned in so called 'national' media.
Parvez Ahmed Sep 22, 2016 11:09pm
Buht bahtreen waazahat ki hai , Keep up good work .
BK Sep 23, 2016 01:25am
Sl*p on the face of PPP. . .
Rahmat Ali Sep 23, 2016 01:28pm
@Ibrahim Buriro . Definitely, its clear from the infrastructure of the province and basic departments that relate directly to people. Hence we know that what the Government's priorities are, only establishing vote bank, and they play the game for musical chair.
Zohaib Sep 23, 2016 01:40pm
Informative, very good writing piece. That is the performance of Sindh Government !...
Anas Buriro Sep 23, 2016 10:48pm
Very good. Keep it up
Younis Sep 23, 2016 10:49pm
very nice. its true that Sindh province's health is seriously ill.
Farooq rajper Sep 24, 2016 12:45am
If this is the condition of sindh then what the hell nap and nab are doing in sindh province? Here in Pakistan a lower class person can't get education, no health facilities no jobs just letting them to die...
Yasir junejo Sep 24, 2016 11:24am
That's the real depiction of health condition in rural sindh and the bold writer's approach toward the issue is appreciatable. Keep going on@Mr: Rehamat Ali Tunio
zafarullah Sep 24, 2016 07:44pm
ہمرے حکمرانو اس بارے میں سوچنا چاہے
Rasool Bux Bodani Sep 28, 2016 03:10pm
rehmat tunio app sehat ke hawale se buht acha likha , sindh sehat ke shobe samain taleem aur shobe main shadeed beemar he,, ku k jab tak ppp k mutbadal koi nai aajata tab tak ye beemarii utarne ka nam nahi le gii,,
Rahmat Ali Tunio Sep 30, 2016 04:58pm
@Rasool Bux Bodani, absolutely right.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024