پاکستان مردہ باد کا نعرہ قابل قبول نہیں، عاصم باجوہ
راولپنڈی : پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب بلاتفریق کیا گیا۔
راولپنڈی میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 15 جون 2014 کو آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور اس آپریشن کے حوالے سے کئی گائیڈ لائنز طے کی گئی تھیں، ان میں اہم ترین گائیڈ لائنز یہ تھیں کہ آپریشن بلاتفریق ہوگا، دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا، عام شہریوں اور املاک کے نقصان سے بچنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔
لیفٹننٹ جنرل عاصم سلیم باوجوہ نے کہا کہ جب آپریشن شروع ہوا تو اس وقت کوئی شمالی وزیرستان جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور یہ علاقہ ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کا مرکز بنا ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ جب فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کرکے دتہ خیل تک پہنچی، وادی کو کلیئر کیا اور جب فوج سرحد کی طرف جارہی تھی تو کچھ دہشتگرد افغانستان سے ہوتے ہوئے خیبر ایجنسی میں چلے گئے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب دہشتگرد خیبر ایجنسی میں اکھٹا ہونا شروع ہوئے تو ہم نے خیبر ون اور خیبر ٹو کے نام سے وہاں بھی آپریشن شروع کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ آپریشن سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگاہ کیا گیا، افغان صدر، افغان فوج اور دیگر حکام کو آگاہ کیا گیا اور درخواست کی گئی کہ سرحد کے دوسری طرف تمام ضروری اقدام کریں اور بھاگ کر وہاں جانے والے دہشتگرد آپ کے لوگ ہیں لہٰذا ان کے خلاف جو مرضی کارروائی کریں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔
عاصم باجوہ نے بتایا کہ آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں اسلحہ، گولہ بارود اور نفرت انگیز مواد بھی ضبط کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دہشتگردوں نے اتنا بارود اکھٹا کررکھا تھا کہ اگر اس سے روزانہ پانچ بم بنائے جاتے تو 21 سال تک یہ مواد چل سکتا تھا اور اس سے ایک لاکھ 34 ہزار ہلاکتیں ہوسکتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان انتہائی مشکل علاقہ ہے لیکن سردی اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر پاک فوج کے جوانوں نے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے بھی زیادہ مشکل خیبر ایجنسی کے علاقے تھے، یہاں برفانی پہاڑیاں تھیں اور یہاں مورچے بنے ہوئے تھے، یہاں ہمارا بہت زیادہ نقصان ہوا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 900 دہشتگرد مارے اور وہاں ہر طرح کا دہشتگرد مارا اور ان کے نیٹ ورک ختم کیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کامیابیاں ایسے ہی حاصل نہیں کیں، صرف ضرب عضب میں 535 شہید 2272 زخمی ہوئے۔
ضرب عضب کی کامیابیوں کی وجہ سے ملک بھر میں پرتشدد واقعات کی شرح میں کمی آئی اور ہم اسے مکمل طور پر ختم کرنے کیلئے پر عزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے افراد کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے اور 66 فیصد آئی ڈی پیز واپس جاچکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ملک بھر میں 168 کومبنگ آپریشنزہوچکے ہیں اور جہاں بھی ضرورت ہوتی ہے ہم کومبنگ آپریشن کرتے ہیں۔
داعش کی موجودگی
ڈی جی آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا کہ ہم کہتے رہتے ہیں کہ داعش کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیںگے، داعش نے ہمارے علاقوں میں بھی پہنچنے کی کوشش کی۔
10 جنوری 2015 کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگوں نے داعش کی بیعت کی اور یہ نیعت افغانستان میں کی گئی اور وہیں سے ویڈیو ریلیز کی گئی، 26 جنوری کو مشرق وسطیٰ سے ان کی بیعت قبول ہونے کا پیغام آیا۔
انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر داعش سے تعلق رکھنے والے 309 افراد گرفتار کیا جن میں 25 غیر ملکی تھے، 157 چھوٹے گروپس بھی ملوث تھے، لوگوں کو ہزار ہزار روپے دے کر بھی کام کرائے جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حافظ عمر داعش میں پاکستان کا امیر تھا اس نے 15 قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ہلاک کیا اور میڈیا ہاؤسز پر بھی حملے کیے۔
کراچی آپریشن
انہوں نے کہا کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں دہشتگردی میں 74 فیصد، ٹارگٹ کلنگ میں 94، بھتہ خوری میں 95 فیصد اور اغواء کی وارداتوں میں 89 فیصد کمی واقع ہوئی جبکہ رینجرز کے 30 اہلکار شہید اور 89 زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے ہمدردوں کو بھی گرفت میں لیا گیا اور ان کی افغانستان میں موجودگی بھی ہمارے لیے ایک چیلنج ہے پاکستان میں ان کا سایہ بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے خلاف آنے والے دنوں میں کچھ ایکشن ہوں گے کچھ ہوچکے ہیں، پاکستان مردہ باد کے نعرے کسی بھی طرح سے قابل قبول نہیں،پاکستان مخالفت بیانات دینے والا شخص برطانوی شہری ہے۔
انہوں نے الطاف حسین کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آپ ایک ایسے شخص کی بات کررہے ہیں جو یہاں سے 5 ہزار کلو میٹر دور کسی دوسرے ملک میں بیٹھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر وہ پاکستان مخالف کوئی بات کرتے ہیں تو وہ کسی طرح سے کسی بھی پاکستانی کو قبول نہیں ہوسکتا،آپ یہ بات کررہے ہیں کہ انہوں نے فوج یا کسی اور ادارے کو کچھ کہا، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس شخص نے پاکستان کے خلاف بات کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آپ نے دیکھا کہ پاکستان میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسے مسترد نہ کیا ہو، حکومت اس کے خلاف ایکشن لے رہی ہے، گرفتار لوگوں سے تحقیقات ہورہی ہیں، سندھ حکومت بھی کارروائیاں کررہی ہے۔
افغان سرحد پر درپیش چیلنجز
انہوں نے کہا کہ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کی 26 سو کلومیٹر طویل سرحد ہے جہاں 18 بڑے کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں، دونوں طرف قبائل آباد ہیں، اس چیلنج کو سمجھتے ہوئے بارڈر مینجمنٹ پر کام شروع کیا اور تمام کراسنگ پوائنٹس پر گیٹ بنائے جائیں گے اور عملہ تعینات کیا جائے گا۔
پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین ہیں ان ہی میں آکر چھپنے والے دہشتگردوں کو ڈھونڈنا بھی بڑا چیلنج ہے، ان کی باوقار واپسی کے بعد یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ مہاجرین کی واپسی حکومت کا مسئلہ ہے، ہمارا کام صرف سیکیورٹی کی حد تک محدود ہے، فاٹا کو کلیئر کرنے کے بعد ہم نے بارڈر مینجمنٹ کا کام شروع کیا اور طورخم پر گیٹ کی تعمیر اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
حقانی نیٹ ورک
انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے دیے گئے بیان پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اچھے اور برے طالبان کا کوئی تصور نہیں، ہم نے آپریشن شروع کرنے سے قبل کہا تھا کہ یہ بلاتفریق ہوگا اور بلا رنگ و نسل کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک اور افغان طالبان سمیت تمام دہشتگردوں کو ہلاک کیا اور اس حوالے سے بیان درست نہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہیں کررہا۔
بلوچستان
بلوچستان کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کے بیان کا رد عمل آپ نے بلوچستان میں دیکھ لیا۔
انہوں نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بلوچستان میں سیاسی استحکام آیا ہے اور فوج نے بحیثیت ادارہ بہت تعاون کیا ہے، باہر سے ہونے والا پروپیگنڈہ وہی لوگ کررہے ہیں جنہیں یہاں مسترد کیا جاچکا ہے۔
بلوچستان میں مثبت چیزیں بھی ہورہی ہیں انہیں بھی دیکھنا چاہیے، کلبھوشن کی گرفتاری کے بعد ایک نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی کہ پاکستان میں ہندوستانی مداخلت ہے۔
تبصرے (1) بند ہیں