سری لنکن ٹیم پر حملے کے ملزمان ’مقابلے‘ میں ہلاک
لاہور: سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے 3 ملزمان سمیت 4 دہشت گرد لاہور میں ایک مبینہ مقابلے میں ہلاک ہوگئے۔
پنجاب کے محکمہ انسداد دہشت گردی ( سی ٹی ڈی) کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ’27 اگست کو رات 11 بجے کے قریب سی ٹی ڈی کی ٹیم 2008 کے مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن دھماکے اور 2009 میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے میں ملوث دہشتگردوں کو لکھو ڈیہر کے علاقے میں ایک گھر کی شناخت کیلئے لے جارہے تھے جہاں انہوں نے مذکورہ حملے کی منصوبہ بندی کی تھی‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جب سی ٹی ڈی کی ٹیم میاں ٹاؤن برج کے قریب ایسٹ سروس روڈ پر پہنچی تو 6 سے 7 دہشتگردوں نے حملہ کردیا۔
سی ٹی ڈی کے مطابق حملہ ہوتے ہی ٹیم نے دفاعی پوزیشنز سبنھال کر اپنے دفاع میں جوابی کارروائی شروع کردی اور جب فائرنگ کا تبادلہ رکا تو چار دہشتگردوں کو مردہ حالت میں پایا گیا جو حملہ آوروں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت زبیر عرف نیک محمد، عبدالوہاب، عدنان ارشد اور عطیق الرحمٰن کے نام سے ہوئی ہے۔
سی ٹی ڈی کے مطابق ان میں سے تین دہشت گرد مارچ 2009 میں لاہور کے لبرٹی چوک میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے میں بھی ملوث تھے جس میں 6 پولیس اہلکار ہلاک اور کئی کرکٹرز زخمی ہوئے تھے۔
سی ٹی ڈی کا کہنا تھاکہ حملہ آور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوگئے جبکہ جائے وقوع سے بڑی تعداد میں اسلحہ برآمد کیا گیا۔
حیرت انگیز طور پر حملہ آوروں یا پولیس میں سے کوئی بھی شخص اس مقابلے میں زخمی نہیں ہوا، جبکہ پولیس نے حملہ آوروں کا پیچھا بھی نہیں کیا۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ حملے کے بعد فرار ہونے والے دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے تحقیقات شروع کردی گئیں ہیں۔
یاد رہے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جون میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے الزام میں کالعدم تنظیم کے چھ کارکنوں پر فرد جرم عائد کی تھی۔
ان ملزمان میں عبیداللہ، جاوید انور، ابراہیم خلیل، عبدالوہاب، زبیر اور عدنان ارشد شامل تھے، ان میں سے ابتدائی تین ملزمان ضمانت پر رہا ہیں جبکہ دیگر جیل میں تھے۔
تمام ہی ملزمان نے بے گناہ ہونے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ کوٹ لکھپت جیل میں ان کیمرہ سماعت میں مقدمہ لڑنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لشکرِ جھنگوی کے سربراہ 14ساتھیوں سمیت ہلاک
یاد رہے کہ قبل ازیں کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق بھی اسی طرح کے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گئے تھے، ان پر سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ ہونے کا الزام تھا، اس وقت بھی سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کیا جس میں 14 ملزمان مارے گئے، ہلاک ہونے والوں میں ملک اسحاق کے 2 بیٹے اور 11 حملہ آور شامل تھے۔
گلبرگ پولیس نے ملک اسحاق اور دیگر کے خلاف سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمہ درج کیا تھا۔
مزید پڑھیں:لشکر جھنگوی سے کوئی تعلق نہیں، فوج
اس حملے سے محض ایک ہفتے قبل ہی سی ٹی ڈی نے ملک اسحاق اور ان کے دونوں بیٹوں کو حراست میں لیا تھا۔
2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے حملے میں 9 کھلاڑی زخمی ہوئے تھے، جبکہ اس میں 8 پاکستانی شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی تھی۔
سری لنکا کی ٹیم پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان 2011 کرکٹ ورلڈ کپ کی میزبانی سے محروم ہو گیا تھا۔
10 سال قبل جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں لشکر جھنگوی پر پابندی عائد کر دی تھی۔
کالعدم لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق پر قتل کے متعدد مقدمات تھے، ان کو 1997 میں گرفتار کیا گیا تھا البتہ 14 سال جیل میں رہنے کے بعد 2011 میں ان کو ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
2011 کے بعد سے ملک اسحاق کو عمومی طور پر نظر بند ہی رکھا جاتا تھا کیوں کہ ان کے خطبوں سے فرقہ وارانہ تشدد پھیلنے کا خطرہ تھا۔
2013 میں کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کے بعد ملک اسحاق کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ہزارہ برادری پر پہلا حملہ 10 جنوری 2013 میں ہوا تھا جس میں 92 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ 16 فروری 2013 کو ہونے والے حملے میں 89 افراد مارے گئے تھے، ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم لشکر جھنگوی نے ہی قبول کی تھی۔