خون آلود کوٹ: ہسپتال میں قیامت صغریٰ
صوبائی دار الحکومت کوئٹہ میں یہ دن بھی باقی دنوں جیسا ہی تھا؛ ایک اور قیمتی جان گئی تھی اور لاش کوئٹہ سول ہسپتال لائی گئی تھی۔
بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے مقتول صدر بلال انور کاسی ہسپتال کے پیرامیڈک نعیم احمد کے سامنے ایک ٹیبل پر تھے۔
ایمرجنسی روم کے باہر ان کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے کئی وکلاء جمع تھے جن کا غصہ محسوس کیا جا سکتا تھا۔
ہسپتال کے اسٹاف ممبران خوفزدہ تھے، کیوں کہ سول ہسپتال ماضی میں بھی دہشتگردی کے کئی واقعات جھیل چکا تھا۔
نعیم نے 8 اگست 2016 کی تکلیف دہ یادیں دہراتے ہوئے بتایا کہ "ہم نے وکلاء کو ایمرجنسی کے باہر کھڑے ہونے سے منع کیا تھا۔ وہ سب اس وقت بہت جذباتی تھے، اور ہماری بات سننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھے۔ ہر گزرتے منٹ کے ساتھ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔"
آج ان میں سے زیادہ تر وکلاء ہمارے درمیان نہیں ہیں۔
پھر اس تکلیف دہ احساس کو جھٹکتے ہوئے نعیم واپس اپنے کام میں لگ گئے اور کاسی کی لاش کو مردہ خانے سے ایکسرے روم میں منتقل کرنے لگے۔
کچھ ہی منٹ کے بعد ایمرجنسی کے باہر موجود مجمع میں ایک خودکش بمبار گھسا اور خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
ہسپتال کا اسٹاف اپنے اپنے کمروں کی جانب بھاگا۔ نعیم کے مطابق "اسٹاف کو اندر ہونے کی وجہ سے نقصان نہیں پہنچا تھا۔"
مگر ہسپتال کے ایک چپراسی فیروز خان اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ وہ باہر پانی لانے کے لیے گئے تھے مگر دھماکے کی زد میں آ گئے۔
بجتے ہوئے کانوں کے ساتھ انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو کالے کوٹوں میں ملبوس افراد کو مدد کے لیے چلاتے ہوئے دیکھا۔ کیوں کہ فیروز دھماکے کی جگہ سے دور تھے، اس لیے ان کی صرف ٹانگیں زخمی ہوئی تھیں۔
نعیم بتاتے ہیں کہ "دھماکے کے بعد ہسپتال کی ایک عمارت کے اوپر سے فائرنگ کی آواز آئی۔ خدا جانے وہ فائرنگ کون کر رہا تھا، دہشتگرد یا پولیس۔" اس فائرنگ سے مزید افراد زخمی ہوئے۔
اور اس کے بعد کے لمحات نعیم کی زندگی کے سب سے صبر آزما لمحات میں سے تھے۔
ایک اور بم دھماکے کے خوف سے ہسپتال کے اسٹاف نے 20 منٹ تک اندر انتظار کیا۔ اور جب وہ بالآخر باہر نکلے، تو فوراً اپنے کام میں لگ گئے، ان کے پاس اپنے ارد گرد ہونے والی خون ریزی کو غور سے دیکھنے کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔
ڈان سے بات کرتے ہوئے نعیم کا کہنا تھا کہ "ہم فوراً زخمی وکلاء کی مدد کے لیے بھاگے اور تقریباً 25 افراد کو ابتدائی طبی امداد دی۔"
اس حملے میں تقریباً 70 افراد ہلاک ہوئے۔ ایک ریسکیو کارکن محمد جنید کے مطابق نقصان اس سے بھی زیادہ ہو سکتا تھا۔
ان کے اندازے کے مطابق دھماکے کے وقت ایمرجنسی کے باہر 150 سے زائد وکلاء جمع تھے۔
وکلاء کا ایک اور گروپ ہسپتال سے ابھی چند ہی گز کے فاصلے پر تھا۔ اگر حملہ آور نے کچھ منٹ بعد بٹن دبایا ہوتا تو اس سے بھی زیادہ جانوں کا نقصان ہوتا۔
اس کے بعد انتظامی نااہلی کے ایسے کئی واقعات ہوئے جو پاکستان میں بدقسمتی سے معمول بن چکے ہیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن کی ایمبولینسوں کے علاوہ تمام ہی ایمبولینسیں حادثے کی جگہ پر دیر سے پہنچیں۔
جنید نے بتایا کہ "ہم نے زخمیوں کو پولیس موبائلوں، رکشوں، اور ذاتی گاڑیوں میں سی ایم ایچ کوئٹہ منتقل کیا۔"
سول ہسپتال کے ڈاکٹر انعام الحق٭ نے افسوس کرتے ہوئے بتایا کہ "ہلاک شدگان کی تعداد میں اضافہ اس لیے ہوا کیوں کہ زخمیوں کا علاج سول ہسپتال ٹراما سینٹر میں ہونے کے بجائے انہیں دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کرنا پڑا۔"
ہسپتال کا ٹراما سینٹر "سیاست" کی وجہ سے دو سال سے بھی زیادہ عرصے سے بند ہے۔
حملہ چاہے جتنا بھی خوفناک تھا، مگر ڈاکٹر انعام الحق کے لیے یہ حیران کن نہیں تھا۔ ان کے مطابق سول ہسپتال میں داخل ہونا کوئی مشکل کام نہیں، کیوں کہ احاطے میں داخلے کے لیے 5 اینٹری پوائنٹس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ایک ڈاکٹر، ڈاکٹر درین سرجیکل وارڈ میں ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے زخمی ہو گئی تھیں۔ ڈاکٹر درین کا اب آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں علاج ہو رہا ہے۔
حملے کے بعد سول ہسپتال کوئٹہ میں مریضوں کی آمد میں خاصی کمی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق کے مطابق پہلے ہسپتال میں ہر شفٹ کے دوران 500 کے قریب مریض ہوا کرتے تھے۔
اب وہ 50 کے قریب مریضوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اس افسوسناک دن کو یاد کرتے ہیں جب کوئٹہ کی وکلاء برادری کی کمر توڑ دی گئی، مگر ان کا ہسپتال ان کے لیے کچھ زیادہ نہیں کر سکا۔
٭نام شناخت کے تحفظ کے لیے تبدیل کر دیا گیا ہے۔