سوگ میں ڈوبی برادری
کوئٹہ: یوں تو کوئٹہ کے سینڈمین پروونشل سول ہسپتال میں 8 اگست کے روز خون اور دھوئیں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، مگر پھر بھی یہ واضح تھا کہ ایک چھوٹے سے شہر کے کئی گھرانے صرف ایک بٹن کے دبانے سے زندگی بھر کے لیے غم اور پریشانی میں دھکیل دیے گئے تھے۔
اور وکلاء برادری کے لیے تو یہ دھماکہ ان کی صفیں تباہ کر دینے کے برابر تھا: اس دن ہلاک ہونے والے 70 سے زائد افراد میں سے اکثریت - 54 - وکلاء کی تھی۔
قانون دانوں کی ایک پوری نسل مٹا دی گئی ہے اور یہ ایسا خلاء ہے جسے پر ہونے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔
ہلاک ہونے والوں میں 11 افراد سپریم کورٹ کے مشہور وکلاء تھے۔
ان میں سے سب سے زیادہ نمایاں نام بلوچستان بار کونسل کے نائب صدر قاہر شاہ، اور دو ممبران باز محمد کاکڑ اور داؤد کاسی کے ہیں۔
ہلاک شدگان میں سے عبدالغنی مشوانی، نوراللہ کاکڑ، رشید کھوکھر، قاضی بشیر، منذر صدیقی اور عدنان کاسی بھی سپریم کورٹ کے وکلاء تھے۔
بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والے کوئی آدھا درجن کے قریب بیرسٹرز میں سے تین صوبائی دارالحکومت میں پریکٹس کرتے تھے۔
ان میں سے بیرسٹر امان اللہ اچکزئی، جو لاء کالج کوئٹہ کے پرنسپل بھی رہ چکے تھے، کو 8 جون کو دفتر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، جبکہ ہسپتال میں ہونے والے دھماکے میں بیرسٹر عدنان کاسی کی جان گئی۔
جب دھماکے سے چند لمحے قبل وکلاء برادری سول ہسپتال میں جمع تھی، تو بیرسٹر عامر لہری سول ہسپتال نہیں پہنچ پائے تھے لہٰذا ان کی جان بچ گئی۔ وہ اب صوبے کے واحد مقامی بیرسٹر ہیں۔
وکلاء برادری کے ان سینیئر ترین ارکان کی ہلاکت نے اس شعبے میں ایک خلاء پیدا کر دیا ہے۔
جہاں ایک طرف کئی گھرانے اجڑ گئے ہیں تو وہیں صوبے بھر میں مدعیوں کے لیے بھی مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے لیے سرگرمی کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے: ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر، جو اپنے کریئرز کی ابتداء یا وسط میں تھے، انسانی حقوق کے کارکن تھے اور 'وکلاء تحریک' میں فعال کردار ادا کر چکے تھے۔
ان میں سے کئی افراد جو 'لاپتہ' افراد جیسے مسائل پر آواز اٹھاتے تھے، یا آزاد عدلیہ کی ضرورت پر زور دیتے تھے، اب خاموش کروا دیے گئے ہیں۔
ایڈووکیٹ حبیب طاہر نے مجھے بتایا کہ "ان (وکلاء) کی بڑی تعداد مڈل کلاس گھرانوں سے تعلق رکھتی تھی اور ملک کے بہترین تعلیمی اداروں، یہاں تک کہ بیرونِ ملک سے بھی تعلیم یافتہ تھی۔"
"مگر ایک دھماکے سے یہ سب ختم ہوگیا ہے، اور اب ان کے گھرانوں اور ان کے دوستوں کے لیے زندگی بھر کا دکھ قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔ اگر آپ ان کی عمریں دیکھیں، تو سب ہی 40 سے 50 سال تک کی عمروں کے تھے، یعنی ان کے پیچھے ان کے چھوٹے بچے رہ گئے ہیں۔"
غم و غصہ
کوئٹہ میں کچھ وکلاء کا ماننا ہے کہ ان کی برادری پر یہ حملہ حقیقتاً 8 جون کو ہونا تھا جس دن امان اللہ اچکزئی کو قتل کیا گیا تھا، مگر اس وقت اتنی بڑی تعداد میں وکلاء جمع نہیں ہوئے تھے۔
چنانچہ یہ مانا جاتا ہے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بالکل دو ماہ بعد ویسی ہی کوشش کی گئی، اور اس دفعہ ٹارگٹ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سربراہ بلال انور کاسی کو کیا گیا جنہیں 8 اگست کو عدالت جاتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔
اور یہ گھناؤنا منصوبہ اب کی بار کامیاب رہا۔ ان کی لاش کو سینڈمین ہسپتال منتقل کیا گیا اور شہر بھر سے وکلاء بڑی تعداد میں ہسپتال پہنچے تو وہاں موت ان کی بھی منتظر تھی۔
بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات 13 اگست کو ہونے تھے اور وکلاء میں سہ فریقی انتخابات کو لے کر کافی جوش و خروش تھا۔
مگر دھماکوں کے بعد عدالتیں ویران ہیں کیونکہ زیادہ وکلاء سیشن، ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹ کے بار رومز میں تعزیتیں وصول کر رہے ہیں۔
وکلاء تنظیموں کے زیادہ تر عہدیداران کراچی میں ہیں جہاں وہ زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں۔ متاثرہ خاندانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے کوئٹہ کے وکلاء آج کل عدالتوں میں پیش نہیں ہو رہے۔
بلوچستان اور دیگر صوبوں کی مرکزی وکلاء تنظیموں کے عہدیداران کوئٹہ میں ہائی کورٹ بار روم آ رہے ہیں، تعزیتیں پیش کر رہے ہیں، اور آئندہ کے لائحہء عمل پر بات کر رہے ہیں۔
پنجاب بار کونسل کے نائب چیئرمین چوہدری محمد حسین نے بلوچستان ہائی کورٹ بار روم میں وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ملک بھر کے وکلاء کو کلاشنکوفوں اور صحافیوں کو تیس بور کی پستولوں کے لائسنس دیے جائیں تاکہ وہ اپنی حفاظت کر سکیں۔"
مگر ان کی اس بات سے سب متفق نہیں ہیں۔
آزاد وکلاء پینل کے سربراہ سردار طاہر حسین کہتے ہیں کہ "یہ مضحکہ خیز مطالبہ ہے۔ کیا وکلاء کندھے سے کلاشنکوف لٹکائے ہوئے عدالتوں میں پیش ہوں گے؟"
معاوضوں کے وعدے
اس خوفناک دھماکے کے بعد وکلاء برادری کے شدید احتجاج کے خدشے سے بلوچستان حکومت نے ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے ایک ایک کروڑ روپے، اور شدید زخمیوں کے لیے 50-50 لاکھ روپے معاوضے کا اعلان یا ہے۔
اس کے علاوہ حکومت نے زخمیوں کے سی ایم ایچ کوئٹہ اور آغا خان ہسپتال کراچی میں علاج، لاشوں اور زخمیوں کی منتقلی اور زخمیوں کے تیمارداروں اور وکلاء تنظیموں کے عہدیداران کے کراچی آنے جانے اور رہائش کے اخراجات اٹھانے کا وعدہ کیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کوئٹہ کا دورہ کیا اور معاوضے کی رقم تقسیم کی: ہلاک شدگان کے لیے 5-5 لاکھ روپے اور زخمیوں کے لیے ڈھائی ڈھائی لاکھ روپے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثناءاللہ زہری نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے وکلاء کے بچوں کی تعلیم کے اخراجات حکومت اٹھائے گی، اور اس کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا جس کے تحت ان بچوں کو نہ صرف ملکی یونیورسٹیوں میں، بلکہ بیرونِ ملک بھی تعلیم کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔
منیر کاکڑ ڈان ڈاٹ کام سے فون پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "حکومت ہمیشہ جلد بازی میں بہت سے وعدے کر لیتی ہے، مگر ان پر عملدرآمد بہت سست ہوتا ہے۔ زخمی اور ان کے تیماردار رہائش، سفر اور کھانے پینے کے انتظامات میں بہت دشواری کا سامنا کر رہے ہیں۔"
وہ مجھے بتاتے ہیں کہ ایک زخمی چوہدری اکرام ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں مگر ان کے تیماردار، جن میں ان کی اہلیہ، بہن اور دو چھوٹے بچے شامل ہیں، دوستوں اور رشتے داروں کے گھر رہنے پر مجبور ہیں۔
"اس کے علاوہ ہسپتالوں میں علاج معالجے کے مسائل بھی ہیں کیونکہ ہسپتال بھی آج کل شفا خانوں کے بجائے کاروباری مراکز بن چکے ہیں۔"
"ڈسچارج ہونے والے افراد میں سے تین — محراب کاکڑ، عباس، اور حمید — کو دو دن بعد ہی ایک اور سرجری کے لیے داخل کرنا پڑا، مگر حکومت میں سے کوئی بھی ذمہ داری لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔"
مقدمات کھٹائی کا شکار
دھماکے سے براہِ راست متاثر ہونے والوں کے بعد جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وہ ان غریب لوگوں کا ہے جن کے مقدمات صوبے کی مختلف عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں مگر ان کے وکلاء مارے جا چکے ہیں۔
وہ تمام اپنے مقدمات کو لے کر غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں، اور سوچ رہے ہیں کہ آیا اسی لاء فرم کے ساتھ مقدمہ جاری رکھا جائے یا کوئی نیا وکیل تلاش کیا جائے۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کے پاس انہی فرمز کے ساتھ منسلک رہنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
محمد حسین، جو مقدمات کا ریکارڈ رکھنے میں وکلاء کی مدد کرتے ہیں، اس سب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ "یہاں تک کہ جنازوں کے دن بھی کلائنٹس ہمیں فون پر فون کرتے رہے کہ ہمارے کیس کی فائلیں ہمیں واپس کر دیں۔"
ایک مدعی عامر علی آغا کہتے ہیں کہ "اس اندوہناک سانحے کو اب تین ہفتے ہو چکے ہیں مگر لاء چیمبرز یا تو اب بھی بند ہیں، یا مکمل طور پر فعال نہیں ہیں۔ مگر صورتحال ہی ایسی ہے، جب ان کا اتنا بڑا نقصان ہوا ہے، تو ہم ان سے کیا مطالبہ کریں، کیسے کریں؟"
ایک اور مدعی ظہیر احمد کا کہنا تھا کہ "ہاں، ظاہر ہے میں اپنے مقدمات کے حوالے سے پریشان ہوں کہ ان کا اب کیا ہوگا۔ میں پہلے ہی تقریباً 80 فیصد فیس دے چکا ہوں۔ اس دن سول کورٹ نے فیصلہ سنانا تھا۔ اب مجھے بتایا گیا ہے کہ مرحوم منذر صدیقی کے سینیئر ساتھی غیاث نوشیروانی ان کے تمام مقدمات دیکھیں گے۔ مگر کن شرائط پر، یہ معلوم نہیں۔"
رنج اور غیر یقینی کیفیت کوئٹہ پر چھائی ہوئی ہے اور شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے غم جھیلنے کی کسی کی بھی استطاعت سے زیادہ سانحات دیکھے ہیں۔
اور جب کہ وکلاء برادری ماتم کناں ہے، تو آسمان پر امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔
ہیڈر فوٹو: اے ایف پی