• KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am
  • KHI: Fajr 5:25am Sunrise 6:42am
  • LHR: Fajr 5:00am Sunrise 6:23am
  • ISB: Fajr 5:07am Sunrise 6:31am

سانحہ کوئٹہ: خاموش ہوجانے والی 54 صدائیں

اپنے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے جان کی بازی ہارنے والے وکلاء کون تھے؟
شائع August 26, 2016 اپ ڈیٹ August 8, 2017

کالے کوٹ اور خون: 8 اگست 2016 کی دل دہلا دینے والی صبح کوئٹہ کے سول ہسپتال کے باہر گرد اور دھوئیں میں صرف یہی نظر آ رہا تھا۔

اس دن بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کو نامعلوم افراد نے کوئٹہ میں فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ ان کے قتل کی خبر جیسے ہی پھیلی تو شہر بھر کے وکلاء احتجاج کرنے کے لیے کوئٹہ سول ہسپتال پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس واقعے سے دو ماہ قبل ایک اور سینئر وکیل اور استاد کو کوئٹہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وکلاء کے پاس احتجاج کے سوا کچھ نہیں بچا تھا۔

لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور جیسے ہی وکلاء کا مجمع سول ہسپتال کے باہر پہنچا ایک خودکش بمبار ان کے بیچ گھسا اور خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

کوئٹہ کے ایک وکیل برخوردار خان نے ڈان کو بتایا کہ: "پانچ سال تو ہمیں صرف اس بات کا اندازہ لگانے میں لگیں گے کہ ہم نے کیا کھویا ہے۔"

دھماکے میں 70 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 54 کا تعلق وکلاء برادری سے تھا۔ یہاں ہم ان وکلاء جو کہ کسی کے شوہر، والد یا بیٹے تھے، کی زندگیوں پر ایک نظر ڈالیں گے۔

ایڈووکیٹ بلال انور کاسی
20 برس سے اس شعبے سے وابستہ تھے

بلال انور کاسی سینئر وکیل تھے اور جب انہیں کوئٹہ کے مانو جان روڈ پر مسلح افراد نے قتل کیا اس وقت وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔

ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ کاسی کے جسم پر 10 گولیاں موجود تھیں اور ان کے قتل کے بعد ہی وکلاء سول ہسپتال کوئٹہ کے ایمرجنسی وارڈ کے باہر اکھٹے ہوئے تھے اور اس موقع پرہونے والے خود کش دھماکے میں ان کی جانیں بھی چلی گئیں۔

مجموعی طور پر کاسی خاندان سے تعلق رکھنے والے 7 ارکان اس دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

فوجداری مقدمات کی پیروی کے ماہر سمجھے جانے والے ایڈووکیٹ کاسی کی عمر 46 سال تھی۔

ایڈووکیٹ باز محمد کاکڑ
20 سال سے شعبہ وکالت میں

وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بھی تھے۔

انہوں نے بلوچستان میں وکلاء تحریک میں اہم کردار ادا کیا تھا اور 2007 میں پرویز مشرف کی جانب سے ملک میں ایمرجنسی نافذ کیے جانے کے بعد انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا

وہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔

ان کے صاحبزادے آریان خان کاکڑ نے ڈان کو بتایا کہ 'میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے، میں بھی اپنے والد کی طرح وکیل بننا چاہتا ہوں'۔

ایڈووکیٹ کاکڑ نے ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی اور اس کے علاوہ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے فزکس میں پوسٹ گریجویشن بھی کیا تھا۔

ان کی عمر 45 برس تھی۔

ایڈووکیٹ چاکر رند
11 سال سے وکالت کے پیشے سے وابستے تھے۔

38 سالہ چاکر رند کا تعلق تربت ضلع کیچ سے تھا، ایل ایل بی اور سماجیات میں ماسٹرز کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔ چاکر رند متحرک سیاسی کارکن اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی سینٹرل کمیٹی کے رکن تھے۔

ان کے بھائی چاکر بلوچ نے ان کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ 'اپنے لوگوں کی خدمت اور ضرورت کے وقت ہرکسی کی مدد کرنا ان کا مقصد تھا اسی لیے انھوں نے قانون کے پیشے کاانتخاب کیا تھا'۔

'مجھے ایک ایسے آدمی کے بھائی ہونے پر فخر ہے جس نے دوسروں کے لیے اپنی زندگی گزاری اور جو دوسروں کی مدد کرکے خوش ہوتا تھا'۔

قاہر شاہ ایڈووکیٹ

22 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

قاہر شاہ ایڈووکیٹ 22 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے اور دھماکے میں ان کی ہلاکت سے محض دو روز قبل ہی ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کے عہدے کیلئے ان کے نام کی بھیجی گئی سمری پر دستخط ہوئے تھے۔

وکلاء برادری کا کہنا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کے عہدے کیلئے ان کے نام پر غور ہونا کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیوں کہ وہ نڈر اور قابل وکیل تھے۔

ایڈووکیٹ قاہر شاہ نے لاء کالج کوئٹہ سے گریجویشن کیا اور کوئٹہ میونسپل کارپوریشن میں قانونی مشیر کے عہدے پر بھی کام کرچکے تھے۔

ان کی عمر 48 سال تھی۔

بیرسٹر عدنان کاسی
10 برس سے وکالت کررہے تھے

بیرسٹر عدنان کاسی گزشتہ 10 برس سے وکالت کررہے تھے، انہوں نے انگلینڈ کی بکنگھم یونیورسٹی سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی تھی اور بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں لاء کالج کوئٹہ میں پرنسپل کے عہدے پر فائز رہے۔

موت سے قبل بیرسٹر کاسی بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے ہونے والے الیکشن میں جنرل سیکریٹری کے عہدے کیلئے مہم چلارہے تھے اور ان کی عمر 38 برس تھی۔

عدنان کاسی کا تعلق کاسی خاندان سے تھا اور اس خاندان کے 7 ارکان کوئٹہ دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

ایڈووکیٹ عسکر خان اچکزئی
7 سالوں سے وکالت کے پیشے سے وابستہ

محض 32 سال کی عمر میں عکسر خان اچکزئی کا شمار کوئٹہ کے زیرک وکلاء میں ہوتا تھا۔

ایڈووکیٹ عسکر اچکزئی عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک تھے اور اے این پی بلوچستان کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے چھوٹے بھائی تھے۔

اصغر کا کہنا تھا کہ 'وہ گہرے دوست اور بھائی تھے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'انھوں نے ہمیشہ روایتی سوچ کو چیلنج کرتے ہوئے اصولوں کی سیاست کی'۔

ایڈووکیٹ عبداللہ اچکزئی
4 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

39 سالہ عبداللہ اچکزئی حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ہمدرد تھے۔

ایڈووکیٹ ایمل خان وطن یار
وکالت کا شعبہ اختیار کیے ہوئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا

ایمل خان وطن یار نے اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد سے ایل ایل بی کیا تھا۔

ان کی عمر صرف 23 سال تھی۔

ایڈووکیٹ عین الدین نصر
10 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

انہوں نے کوئٹہ لاء کالج سے گریجویشن کی، وہ وکلا برادری میں اپنی خوش مزاجی کے باعث بے حد مقبول تھے۔

ان کی عمر 42 سال تھی۔

ایڈووکیٹ داؤد کاسی
16 سال سے وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔

جدت پسند وکیل کاسی ملک میں قانون کی بالادستی کے ایک مضبوط مہم جو تھے۔ انھوں نے سابق چیف جسٹس افتخار محمدچوہدری اور ججوں کی بحالی کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا تھا۔

کوئٹہ لاء کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے والے کاسی کو 2014 میں بلوچستان بار ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا گیا تھا۔

ان کی عمر 40 سال تھی۔

٭داؤد کا تعلق بھی کاسی خاندان سے تھا جس کے سات افراد اس حملے میں ہلاک ہوئے٭

ایڈووکیٹ عطاءاللہ کاکڑ
12 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

عطاءاللہ کاکڑ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے متحرک رکن تھے اور جوڈیشل اداروں کو مضبوط کرنے کے زبردست کے حامی تھی۔

40 سالہ ایڈووکیٹ کاکڑ نے ایل ایل بی کی ڈگری کوئٹہ لا کالج سے حاصل کی تھی۔

ایڈووکیٹ بشیر احمد زہری
14 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

انہوں نے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

ایڈووکیٹ زہری کے ایک رشتے دار اعجاز احمد نے بتایا کہ 'وہ انسان دوست شخص تھے اور کمزور اور غریب لوگوں کا مقدمہ مفت میں لڑا کرتے تھے'۔

ان کی عمر 50 سال تھی۔

ایڈووکیٹ امان اللہ لنگوو
13 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

ان کی عمر 30 برس تھی۔

ایڈووکیٹ بشیراحمد کاکڑ
8 سالوں سے وکالت کے پیشے سے وابستہ

33 سالہ بشیر احمد کاکڑ نے ایل ایل بی کی ڈگری کوئٹہ لاء کالج سے حاصل کی تھی۔

ایڈووکیٹ کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے ضلع پشین سے تھا، ان کے چچا حاجی مولا مددکاکڑ کا کہنا تھا کہ'بشیر بے زبانوں کی آواز تھے'۔

'ہم بشیر کے بعد سماجی اور سیاسی طور پر ٹوٹ گئے ہیں'۔

ایڈووکیٹ آرتھر وکٹر Victor
14 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

ان کی عمر 39 سال تھی۔

ایڈووکیٹ عبدالرشید
26 سال سے شعبہ وکالت سے وابستہ تھے

عبدالرشید نے لاء کالج کوئٹہ سے ایل ایل بی کیا تھا۔

وہ 48 سال کے تھے۔

ایڈووکیٹ فیض اللہ خان سرگراہ
28 برس سے وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے

انہوں نے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

ان کی عمر 62 برس تھی۔

ایڈووکیٹ فیروز خان
وہ 17 سال سے وکالت کر رہے تھے۔

فیروز خان کی عمر 44 سال تھی اور 1999 سے کوئٹہ میں وکالت کی پریکٹس کررہے تھے۔

ایڈووکیٹ غنی مشوانی
14 سال سے وکالت کے شعبے میں تھے

غنی مشوانی نے لاء کالج، کوئٹہ سے گریجویشن کی اور قابل احترام وکیل محمد اسلم چشتی ان کے استاد تھے۔

ایڈووکیٹ غنی 44 سال کے تھے۔

ایڈووکیٹ غوث الدین
113 برس سے وکالت کے شبعے میں تھے

ان کی عمر 41 برس تھی۔

ایڈووکیٹ غلام فاروق بدینی
تین برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

ان کی عمر 35 سال تھی۔

ایڈووکیٹ غلام محمد
پانچ سال سے پریکٹس کررہے تھے

32 سالہ غلام محمد نے 2011 میں سبی لاء کالج سے گریجویشن کی اور بلوچستان یونیورسٹی سے کامرس میں ماسٹرز ڈگری کے لیے زیرتعلیم تھے۔

ایڈووکیٹ غلام محمد اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سخت محنت کرتے تھے، مالی مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے چھ بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں داخل کرایا۔

ان کے بڑے بیٹے محمد نعیم اس وقت چوتھی جماعت میں ہے اور وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

ایڈووکیٹ گل زریں کاسی
چار سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

گل زریں کاسی پاکستان میں نابالغوں کے لیے منصفانہ نظام انصاف کی تشکیل پر یقین رکھتے تھے اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں جیسے سنجوب اور سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ کے لیے کام کررہے تھے۔

وہ امریکن بار کونسل کے بھی رکن تھے، جہاں وہ فرضی عدالتوں کا انعقاد کرتے ہیں اور اکثر تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرتے۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار کے سابق صدر ساجد ترین یاد کرتے ہیں " گل زریں ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، ان کی شخصیت ناقابل فراموش ہے"

وہ 34 سال کے تھے۔

گل زریں کاسی، کاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور اس حملے میں اس خاندان کے 7 افراد ہلاک ہوئے۔

ایڈووکیٹ حفیظ اللہ خان مندوخیل
پریکٹس کرتے ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھا۔

حفیظ اللہ خان مندوخیل لاء کالج، کوئٹہ سے فارغ التحصیل تھے۔

ان کی عمر 32 سال تھی اور وکیل کے طور پر اپنی زندگی کے لیے ان کے متعدد خواب تھے۔

ایڈووکیٹ حفیظ اللہ مینگل
گزشتہ 3 برس سے وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔

وہ بلوچستان ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس غلام مصطفیٰ مینگل کے صاحبزادے تھے۔

ان کی عمر 36 برس تھی۔

ایڈووکیٹ جمال عبدالناصر
12 سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

42 سالہ جمال عبدالناصر معزول ججز کی بحالی کی جدوجہد میں وکلاء برادری کے ایک سرگرم رکن تھے۔

زندگی کے اختتام سے قبل ایڈووکیٹ جمال عبدالناصر کوئٹہ میں پروفیشنل لائرز فورم کے قیام کی مہم چلا رہے تھے۔

سنیئر وکیل ایڈووکیٹ منیر احمد کاکڑ کے مطابق " میں کبھی بھی جمال کا مسکراتا چہرہ بھول نہیں سکتا"

"جمال میرا دوست اور ساتھی تھا، میں اسے بہت زیادہ یاد کروں گا"

ایڈووکیٹ جمیل الرحمان قاضی
گزشتہ 11 برس سے وکالت کررہے تھے

2013 میں خضدار میں مسلح افراد نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا تھا اور ان کے پائوں پر تین گولیاں لگی تھیں۔

اس واقعے کے بعد وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کوئٹہ منتقل ہوگئے تھے۔

جمیل الرحمان کے والد کہتے ہیں کہ 'آپ ہماری بدقسمتی کا اندازہ لگائیں، ہم خضدار سے کوئٹہ منتقل ہوئے تاکہ محفوظ رہ سکیں اور یہاں ہم نے اپنا بیٹا کھو دیا۔'

جمیل الرحمان قاضی کی عمر 40 برس تھی۔

ایڈووکیٹ ملک وزیر کاسی
9 سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

توانائی سے بھرپور وکیل ملک وزیر کاسی کے اندر سماجی کارکن کی روح تھی جبکہ وہ مشرف دور میں معزول ہونے والے ججز کی بحالی کے لیے چلنے والی تحریک کا حصہ تھے۔

ایڈووکیٹ ملک وزیر کاسی کی عمر 37 سال تھی۔

ملک وزیر کاسی، کاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جن کے 8 رشتے دار اس حملے میں ہلاک ہوئے۔

ایڈووکیٹ منظر صدیقی
19 سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

46 سالہ منظر صدیقی کو ان کے ساتھی ایک منکسر المزاج اور معاون وکیل کے طور پر یاد کرتے ہیں جو معاشرے کے استحصال زدہ طبقے کے لیے آواز بلند کرتے تھے۔

ایڈووکیٹ میر محمود احمد لہری
10 سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

میر محمود احمد لہری نے لاء کالج کوئٹہ سے ڈگری لی ، جبکہ بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا۔

ایڈووکیٹ لہری کی عمر 43 سال تھی۔

ایڈووکیٹ محمد علی ستکزئی
16 سال سے پریکٹس کررہے تھے۔

45 سالہ ایڈووکیٹ محمد علی ستکزئی کوئٹہ کے ایک سیشن جج تھے۔

محمد اشرف سلہری ایڈووکیٹ
16 برس سے وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے

وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ کوئٹہ کے معروف آرٹسٹ بھی تھے، ان کی عمر 56 سال تھی۔

کوئٹہ کے ایک فنکار امان اللہ ناصر کہتے ہیں کہ اشرف سلہری بلوچستان اور پاکستان کا اثاثہ تھے۔

ایڈووکیٹ محمد ایوب سدوزئی
گزشتہ 17 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

ایڈووکیٹ محمد ایوب گوادر میں ایڈیشنل سیشن جج بھی رہ چکے تھے۔

تاہم بعد ازاں وہ کوئٹہ آگئے تھے اور یہاں بطور وکیل کام کررہے تھے، ان کی عمر 44 برس تھی۔

ایڈووکیٹ محمد عمران شیخ
وکالت کا شعبہ اختیار کیے 5 برس ہوئے تھے۔

ایڈووکیٹ محمد عمران شیخ کو وکالت کا شعبہ اختیار کیے محض پانچ برس ہوئے تھے۔

انہوں نے ایل ایل ایم اور ایل ایل بی کی ڈگریاں لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کیں اور ان کی عمر محض 31 برس تھی۔

ان کے ساتھی ایڈووکیٹ اکرم شاہ کہتے ہیں کہ ایڈووکیٹ عمران شیخ انتہائی محنتی اور پر عزم انسان تھے اور بہت کی کم عرصے میں انہوں نے قانونی حلقوں میں اچھی شہرت حاصل کرلی تھی۔

ایڈووکیٹ محمد سلیم بٹ
29 سال سے وکالت کے شبعے سے وابستہ تھے

ایڈووکیٹ محمد سلیم بٹ 29 سال سے وکالت کے شبعے سے وابستہ تھے، انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی اور پھر بلوچستان یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا۔

وکالت ان کا پیشہ تھا لیکن وہ سیاست میں بھی بہت سرگرم تھے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن تھے، ان کی عمر 54 برس تھی۔

محب اللہ ایڈووکیٹ
10 برس سے وکالت کررہے تھے

محب اللہ نے لاء کالج کوئٹہ سے گریجویشن کیا اور ان کی عمر 39 برس تھی۔

ان کے ساتھی خلیل پانزئی کہتے ہیں کہ ایڈووکیٹ محب اللہ ایک محنتی اور پر عزم وکیل تھے۔

منیر احمد مینگل ایڈووکیٹ
11 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

منیر احمد مینگل کے ساتھی کہتے ہیں کہ منیر احمد انتہائی رحم دل شخص تھے جو معاشرے کے ستائے ہوئے لوگوں کیلئے کام کرتے تھے۔

ان کی عمر 46 سال تھی۔

ایڈووکیٹ نقیب اللہ ترین
ایک سال سے وکیل تھے

ایڈووکیٹ نقیب اللہ ترین کو وکالت کا پیشہ اختیار کیے صرف ایک برس ہوا تھا.

ان کی عمر 31 سال تھی۔

ایڈووکیٹ نصیر لنگوو
پانچ سال سے وکالت کررہے تھے

نصیر لنگوو نے ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے رکن بننے کے بعد ایڈووکیٹ لنگوو کی شہرت میں خاصہ اضافہ ہوگیا تھا، ان کی عمر 32 سال تھی۔

ایڈووکیٹ نور الدین رخشانی
گزشتہ 15 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

نور الدین رخشانی وکلاء تحریک کے سرگرم رکن تھے اور ملک میں قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کررہے تھے۔

ان کی عمر 45 برس تھی۔

ایڈووکیٹ نور اللہ کاکڑ
16 برس سے وکالت کررہے تھے۔

نور اللہ کاکڑ نے لاء کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی اور وہ گزشتہ 16 برس سے وکالت کررہے تھے۔

وہ بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے رکن تھے اور آبائی طور پر ان کا تعلق پشین سے تھا۔ ان کی عمر 39 سال تھی۔

ایڈووکیٹ عبدالناصرکاکڑ
13 سال وکالت کے پیشے سے وابستہ

انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی۔

ان کی عمر 43 سال تھی۔

ایڈووکیٹ قیصر شیرانی خان
4 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

قیصر شیرانی خان، ضلع شیرانی سے تعلق رکھتے تھے، جو کہ بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔

انہوں نے گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسمعیل خان سے ایل ایل بی کیا۔

ان کے رشتے دار اختر شاہ شیرانی جو بلوچستان کے علاقے دشت میں قاضی بھی ہیں، نے بتایا " قیصر ایک منکسر المزاج اور قابل وکیل تھا"

ایڈووکیٹ قیصر شیرانی خان کی عمر 30 سال تھی۔

قاضی بشیر ایڈووکیٹ
19 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

قاضی بشیر نے لاء کالج کوئٹہ سے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔

وہ سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور نیشنل پارٹی کے لائرز ونگ کے سیکریٹری تھے۔

نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر اسحاق بلوچ کہتے ہیں کہ قاضی بشیر عظیم انسان تھے اور بلوچ قوم کیلئے اثاثے کا درجہ رکھتے تھے۔

ان کی عمر 46 سال تھی۔

ایڈووکیٹ رحمت خروتی
6 سال سے وکالت کررہے تھے

ایڈووکیٹ رحمت نے لاء کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی تھی۔

انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات عامہ میں ماسٹرز کی ڈگری بھی حاصل کی تھی۔

سینئر وکیل خلیل احمد پانیزئی کا کہنا ہے رحمت خروتی انتہائی قابل وکیل تھے۔

ان کی عمر 32 سالی تھی۔

ایڈووکیٹ صابر علی
دو برس سے وکالت کے شبعے سے وابستہ تھے۔

صابر علی کی عمر 29 برس تھی۔

ایڈووکیٹ سنگت جمال دینی
16 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

اسنگت جمال دینی بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں فنانس سیکریٹری کے عہدے کے امیدوار تھے۔

ان کے ایک رشتے دار سردارزاد شہزاد مینگل کا کہنا ہے کہ 'سنگت جمال دینی سیشن جج بننا چاہتے تھے اور بلاتفریق انصاف کی فراہمی کے خواہاں تھے'۔

انہوں نے بتایا کہ 'وہ مجھے کہتے تھے کہ ہمارے عدالتی نظام میں کئی خامیاں ہیں اور جب میں جج بنوں گا تو عدلیہ کو مستحکم کرنے کیلئے کام کروں گا۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'والد کے سینیٹر ہونے کے باوجود ایڈووکیٹ سنگت جمال دینی نے اپنا مقام خود بنایا، انہوں نے کبھی اپنے والد کی گاڑی نہیں استعمال کی بلکہ محنت کرکے اپنی گاڑی خریدی'۔

ان کی عمر 35 سال تھی۔

ایڈووکیٹ سرفراز شیخ
11 برس سے وکالت کررہے تھے

سرفراز شیخ نے اپنی گریجویشن لاء کالج کوئٹہ سے مکمل کی۔

ان کی عمر 42 سال تھی۔

ایڈووکیٹ شیر گل دوی
4 سال سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

ایڈووکیٹ شیر گل نے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

ان کی عمر 29 برس تھی۔

ایڈووکیٹ سید غنی جان آغا
16 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے

سید غنی جان آغا کا تعلق قلعہ سیف اللہ کے علاقے قلی پائی زئی کے علاقے سے تھا اور وہ گزشتہ 16 برس سے وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔

انہوں نے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

ایڈووکیٹ آغا سیاست میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے اور 10 سال تک پشتونخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایگزیکٹو رکن رہ چکے ہیں۔

ایڈووکیٹ ظفر ملازئی کہتے ہیں کہ 'میں غنی آغا کا چہرہ نہیں بھول سکتا، وہ میرا دوست اور بھائی تھا اور بہت ہی نیک انسان تھا۔'

ان کی عمر 52 سال تھی۔

سید ضیاالدین
دو سال سے وکیل تھے

سید ضیاالدین کا تعلق ضلع پشین سے تھا۔

انہوں نے اپنا ایل ایل بی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے کیا تھا اور ان کی عمر 26 سال تھی۔

ایڈووکیٹ تیمور شاہ کاکڑ
وکالت کے شعبے میں صرف ایک سال ہوا تھا

تیمور شاہ کاکڑ کی عمر 29 برس تھی اور انہیں وکالت کے شعبے سے وابستہ ہوئے صرف ایک سال ہوا تھا۔

ایڈووکیٹ وقاص خان جدون
4 برس سے وکالت کررہے تھے

ایڈووکیٹ وقاص نے لاء کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی تھی اور ان کی عمر 31 سال تھی۔

ایڈووکیٹ غلام حیدر کاکڑ
وکالت کے شعبے میں محض 2 ماہ ہوئے تھے۔

ایڈووکیٹ غلام حیدر کو وکالت کی پریکٹس شروع کیے ہوئے محض دو ماہ ہوئے تھے۔

ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ سے تھا اور انہوں نے اپنی ایل ایل بی کی ڈگری لاء کالج کوئٹہ سے حاصل کی تھی۔

ان کی عمر 37 برس تھی۔

ایک نسل کا خاتمہ

قانون دانوں کی ایک پوری نسل مٹا دی گئی ہے اور یہ ایسا خلاء ہے جسے پر ہونے میں کئی دہائیاں لگیں گی۔


'ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونجتی ہیں'

اس وقت ہسپتال میں موجود ان واحد خاتون میڈیکل افسر کو پاکستان ہلالِ احمر سوسائٹی کی اعزازی رکنیت دی گئی۔


خون آلود کوٹ: ہسپتال میں قیامت صغریٰ

'دھماکے کے بعد ہسپتال کی ایک عمارت کے اوپر سے فائرنگ کی آواز آئی۔ خدا جانے وہ فائرنگ کون کر رہا تھا۔'


آپ سب کا مخلص جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

شہداء کے ورثاء اور غازیوں کے نام