• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:02pm

100 سال بعد زمین کیسی نظر آئے گی؟

2016 کے دوران دنیا بھر کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.2 ڈگری زیادہ ہو چکا ہے۔
شائع April 22, 2017

آپ ممکنہ طور پر اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ ہر گزرتا مہینہ پہلے سے زیادہ گرم ہوتا جارہا ہے، تاہم اگر آپ واقف نہیں تو جان لیں کہ 2016 میں جنوری سے لے کر دسبمر تک ہر مہینہ انسانی تاریخ کے گرم ترین مہینے ثابت ہوئے ہیں۔

2016 کے دوران دنیا بھر کا اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے درجہ حرارت کے مقابلے میں 1.2 ڈگری زیادہ رہا۔

اس وجہ سے ہم بہت تیزی سے 1.5 ڈگری درجہ حرارت کے اس ہدف کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ویسے تو سائنسدانوں نے 21ویں صدی کے آخر تک کے لیے طے کیا تھا تاکہ گلوبل وارمنگ کے اثرات کی روک تھام کی جاسکے تاہم اس میں ناکامی لگ بھگ یقینی نظر آتی ہے۔

ناسا کے اسپیس اسٹیڈیز کے ڈائریکٹر گیون اسکمیڈٹ کے مطابق عالمی سطح پر گرمی میں اضافہ رکنے میں نہیں آرہا جبکہ لگتا ہے کہ ہر چیز نظام کو بھوننے میں لگی ہوئی ہے۔

آسان الفاظ میں اگر کسی طرح کل زہریلی گیسوں کا اخراج صفر تک بھی پہنچ جائے تو بھی انسانوں کے باعث آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل صدیوں تک جاری رہے گا اور ہم سب جانتے ہیں کہ زہریلی گیسوں کا اخراج آج یا کل رک نہیں سکتا۔

تو ان حالات میں اس کو سست کرنا ہی کسی حد تک تکلیف دہ مراحل سے بچنے کے لیے اپنایا جاسکتا ہے۔

ہوسکتا آپ کے لیے تسلیم کرنا مشکل ہو مگر موجودہ حالات برقرار رہے تو اگلے 100 برس میں دنیا کا کیا حال ہوگا۔

ماہرین کے مطابق طویل المعیاد مقصد کے طور پر درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنا ناممکن ہے اور موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یقینی ہے کہ ہم 2030 تک ہم اس طے کردہ ہدف کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائیں گے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

تاہم ماہرین اس حوالے سے پرامید ہیں کہ صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں اب 2 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں اضافے پر پہنچنے کے بعد اسے وہاں روکا جاسکتا ہے، مگر یہ وہ ہدف ہے جس کے بارے میں اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ ایسا نہیں ہوگا یا ہم اس تک نہیں پہنچیں گے۔

چلیں تصور کریں کہ اگر ہم اس وقت ان دونوں اہداف کے درمیان کہیں رک جاتے ہیں، تو اس صدی کے اختتام پر یہ بات یقینی ہے کہ دنیا کا اوسط درجہ حرارت موجودہ دور کے مقابلے میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہوگا۔

فوٹو بشکریہ ناسا
فوٹو بشکریہ ناسا

مگر صرف درجہ حرارت میں اضافہ ہی موسمیاتی تبدیلیوں کا صحیح منظرنامہ پیش نہیں کرتا، بلکہ کسی علاقے میں معمول کا درجہ حرارت بہت تیزی سے اوپر نیچے ہوکر وہاں کے ماحول کی تباہی کا باعث بنے گا۔

مثال کے طور پر گزشتہ سال موسم سرما میں آرکٹک سرکل میں درجہ حرارت ایک دن کے لیے صفر درجہ حرارت سے بڑھ گیا، اس وقت اگرچہ فلوریڈا میں ٹھنڈ تھی مگر آرکٹک بہت زیادہ گرم ہوگیا جو کہ غیرمعمولی تھا اور ایسا بہت کچھ مستقبل میں ہونے والا ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اس طرح کے واقعات کے نتیجے میں سمندروں میں برف کی تہہ کم ہونا معمول بن جائے گا، 2050 تک موسم گرما میں گرین لینڈ سے برف کا صفایا ہونا بھی عام ہوجائے گا۔

اس حوالے سے 2015 بھی 2012 کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جب گرین لینڈ کی 97 فیصد برف کی تہہ گرمیوں میں پگھل گئی تھی، ایسا عام طور پر ایک صدی میں ایک بار ہوتا ہے، مگر اس صدی کے اختتام پر ہم اس قسم کے واقعات ہر 6 سال میں ایک بار دیکھ رہے ہوں گے۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

مگر اچھی بات یہ ہے کہ انٹارکٹکا کی برف کافی حد تک مستحکم رہے گی اور سمندر کی بلند ہوتی سطح پر کچھ زیادہ اثرات مرتب نہیں کرے گی۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ایک اور بڑا مسئلہ سمندروں کی سطح میں اضافہ ہے اور سب سے بہترین صورت میں بھی 2100 تک سمندروں کی سطح میں اوسطاً 2 سے 3 فٹ اضافے کا امکان ہے، جو تباہ کن ثابت ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کسی سمندر کی سطح میں تین فٹ کا اضافہ ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں 40 لاکھ افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

سمندروں کو قطبوں میں کم برف کے مسئلے کا ہی سامنا نہیں ہوگا بلکہ ان کے پانیوں میں تیزابیت میں بھی اضافہ ہوگا۔ دنیا بھر کے سمندر اپنی سطح پر ایک تہائی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ گرم اور زیادہ تیزابی ہو رہے ہیں۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

اگر موسمیاتی تبدیلیوں کے اضافے کا سلسلہ موجودہ شرح سے جاری رہا تو سمندروں کے اندر موجود مونگوں کی تمام چٹانیں ختم ہوجائیں گے، اگر اس حوالے سے کچھ زیادہ پرامید بھی رہا جائے تو بھی 50 فیصد ایسی چٹانیں تاحال خطرے کی زد میں نظر آتی ہیں۔

کریٹیو کامنز فوٹو
کریٹیو کامنز فوٹو

مگر صرف سمندر ہی درجہ حرارت سے ابل نہیں رہے، اگر ہم زہریلی گیسوں کے اخراج کو کم کر بھی لیں تو بھی 2050 کے بعد دن کے اوقات میں مرطوب علاقوں میں گرمی کی شدت میں 50 فیصد تک اضافہ ہوگا، اگر ہم شمال کی جانب بڑھیں گے تو ہر سال کے دن 10 سے 20 فیصد زیادہ گرم ملیں گے۔

یہ تو زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کی صورت میں ہے، اگر موجودہ صورتحال ہی برقرار رہی ہے تو دنیا بھر میں موسم گرما کے دوران درجہ حرارت ناقابل برداشت حد تک بڑھے گا، یعنی اتنی گرمی ہوگی جو ابھی تو غیرمعمولی لگے گی مگر اس دور میں یہ معمول کا حصہ بن جائے گی۔

اے ایف پی فوٹو
اے ایف پی فوٹو

درجہ حرارت میں معمولی اضافہ بھی پانی کے ذرائع کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا اور 2013 کی ایک تحقیق کے مطابق جلد دنیا کو شدید قحط سالی کے ایام کا اکثر سامنا ہوگا، اگر موجودہ حالات برقرار رہتے ہیں تو موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں شدید قحط سالی کی شرح 40 تک بڑھ جائے گی جو آج کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہوگی۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اور پھر موسم کے مسائل الگ ہوں گے، 2015-2016 میں ایل نینو کی شدید لہر کا اشارہ سمجھیں تو ہمیں مستقبل قریب میں ڈرامائی قدرتی آفات کا زیادہ سامنا ہوگا، زیادہ تباہ کن طوفان سامنے آئیں گے، جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات بڑھیں گے جبکہ 2070 تک ہیٹ ویو معمول بن چکی ہوگی۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

اس وقت انسانیت ایک چٹان پر کھڑی ہے، ہم انتباہی علامات اور آلودگی کو اپنی حد تک نظرانداز کرسکتے ہیں مگر یہ جان لیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں آئندہ چند دہائیوں کے بعد ہم کسی 'بہت مختلف سیارے' میں رہنے پر مجبور ہوجائیں گے، یعنی موجودہ دور کے موسم سے بالکل مختلف زمین ہمارا مقدر ہوگی۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

یا ہمیں تخلیقی حل کی جانب جانا ہوگا، اوپر دیئے گئے بیشتر منظرناموں کی بنیاد 2100 تک زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی صورت میں ہے۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر حال میں 2100 میں پہنچنے پر ہم ایسی زمین پر ہوں گے جو ' آج کے مقابلے میں کچھ زیادہ گرم یا بہت زیادہ گرم ہوگی'۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو

مگر کچھ گرم اور بہت زیادہ گرم کے درمیان کا فرق کروڑوں زندگیوں کو بچانے یا خاتمے کا پیمانہ طے کرے گا۔

رائٹرز فوٹو
رائٹرز فوٹو