• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

شعیب شیخ منی لانڈرنگ کیس میں بری

شائع August 24, 2016

کراچی: ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) شعیب احمد شیخ کو منی لانڈرنگ کیس میں بری کردیا۔

شعیب شیخ کے وکیل شوکت حیات نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 249 اے کے تحت درخواست دائر کر رکھی تھی، جس میں موقف اختیار گیا تھا کہ ان کے موکل کا ایک ہی نوعیت کی درخواستوں پر دو بار ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔

شعیب شیخ پر الزام تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے اپریل 2014 میں، دبئی کی ایک فرم ’چندا ایکسچینج کمپنی‘ میں 17 کروڑ سے زائد رقم منتقل کی۔

یہ بھی پڑھیں: ایگزیکٹ کے سی ای او شعیب شیخ کی ضمانت منظور

درخواست میں چندا ایکسچینج کمپنی کے ڈائریکٹرز محمد یونس اور محمد جنید کو کیس میں شریک ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

کیس کی ایف آئی آر ’فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ 1947‘ کے تحت درج کی گئی تھی۔

کیس کی سماعت کے دوران شوکت حیات نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ منی لانڈرنگ کے الزام میں جس اکاؤنٹ کا ذکر کیا گیا ہے، اسے پہلے ہی ان کے موکل پر جعلی ڈگری کیس کے دوسرے مقدمے میں منجمد کردیا گیا تھا، لیکن شعیب شیخ کو اس کیس میں 15 اگست کو ضمانت مل چکی ہے۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ویسٹ) سہیل احمد لغاری نے شوکت حیات کے دلائل سننے کے بعد شعیب شیخ کو کیس سے بری کرتے ہوئے کہا کہ کیس میں سزا کے امکانات پہلے ہی کم تھے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی کمپنی پر دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں بیچنے کا الزام

یاد رہے کہ 15 اگست کو سندھ ہائی کورٹ نے جعلی ڈگری کیس میں شعیب احمد شیخ اور دیگر 14 ملزمان کی درخواست ضمانت منظور کی تھی۔

تمام ملزمان پچھلے 15 ماہ سے زیر حراست تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایگزیکٹ اسکینڈل: کون کتنا ذمہ دار؟

واضح رہے کہ ایگزیکٹ اسکینڈل مئی 2015 میں سامنے آیا تھا جب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ مذکورہ کمپنی آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کرکے لاکھوں ڈالرز سالانہ کماتی ہے۔

یہ رپورٹ منظر عام پر آتے ہی ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے مارے گئے تھے اور ریکارڈ ضبط کرکے انہیں سیل کردیا گیا تھا جبکہ سی ای او شعیب شیخ اور دیگر اہم عہدیداروں کو حراست میں لے کر الزامات کی تحقیقات شروع کردی گئی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024