ڈی ایچ اے کے خلاف قیوم آباد کی طویل جنگ
کراچی: 2005 کے آخر میں اس وقت کے کور فائیو کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل سید اطہر علی شاہ نے ایک اجلاس طلب کیا جس میں یونیفارم پہنے ہوئے افراد کا ایک گروپ تو موجود تھا ہی لیکن سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے متعدد افسران کو بھی طلب کیا گیا تھا۔
اجلاس میں اس وقت کے سٹی ناظم مصطفیٰ کمال، میونسپل کمشنر لالہ فضل الرحمان کے علاوہ کچی آبادی اور محکمہ لینڈز کے بلال منظر اور مظہر خان وغیرہ بھی شریک تھے۔
اجلاس میں موجود ذرائع کے مطابق سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی( سی ڈی جی کے ) کے عہدے داروں کی سخت سرزنش کی گئی تھی کیوں کہ وہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کیلئے مسائل پیدا کررہے تھے، اس وقت ڈی ایچ اے کے ایگزیکٹو بورڈ کے سربراہ کراچی میں کور فائیو کے کمانڈر تھے۔
کراچی میٹروپولیٹن ( کے ایم سی) کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کچی آبادی ( پلاننگ) عادل عباسی کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس فوجی حکام کی جانب سے سویلین افسران کو اپنی طاقت کے مظاہرے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کیلئے طلب کیا گیا تھا۔
اس روز طلب کیے جانے والے اجلاس میں فوجی حکام جس 'مسئلے' کا حل چاہتے تھے وہ کے ایم سی اور سی ڈی جی کے، کے بعض عہدے داروں کی جانب سے گزشتہ 20 برس سے کی جانے والی مزاحمت تھی۔
ڈی ایچ اے کراچی، کے پی ٹی فلائی اوور کے قریب قیوم آباد اور کورنگی روڈ کے اطراف کچی آبادی کی سہولیات کیلئے مختص کردہ زمین سے دستبرداری کا مطالبہ کررہا تھا لیکن کے ایم سی اور سی ڈی جی کے کے بعض عہدے دار اس مطالبے کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے۔
بیوروکریسی میں موجود سندھ حکومت کے بدعنوان افسران نے ذاتی مفادات کی خاطرڈی ایچ اے کے مطالبے کو تسلیم کرلیا تھا اور 2 فروری 2005 کو اس حوالے سے ایک نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا تھا۔
سندھ حکومت نے کس طرح گٹھ جوڑ کرکے فوجی حکام کی فرمانبرداری کی وہ آپ آگے اسی مضمون میں پڑھ سکیں گے۔
سندھ حکومت کے فیصلے کے باوجود لوکل گورنمنٹ کے بعض عہدے دار ڈٹے ہوئے تھے اور اس زمین سے دستبردار نہیں ہونا چاہتے تھے جو قیوم آباد میں تفریحی مقامات کی تعمیر کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔
سول عہدے داروں کی جانب سے کی جانے والی اس مزاحمت کے بعد ڈی ایچ اے نے اس معاملے میں اعلیٰ عہدے داروں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔
دسمبر 2015 میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات نے قیوم آباد کے رہائشیوں کو اس زمین کی واپسی کیلئے نئی مہم چلانے کا موقع فراہم کیا جس پر وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔
زمین کی واپسی کیلئے جدوجہد کرنے والوں میں قیوم آباد یونین کونسل کے نومنتخب یو سی ناظم شمشاد خان بھی شامل ہیں۔
شمشاد خان سینئر مقامی سیاستدان کے بیٹے ہیں اور ان کے اور دیگر علاقہ مکینوں کے مذکورہ زمین کے حوالے سے ڈی ایچ اے کے عہدے داروں سے کئی بار جھگڑے بھی ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈی ایچ اے اب تک زمین پر عملی طور پر قبضہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
شمشاد خان کہتے ہیں کہ 'ایک بار میں نے ڈی ایچ اے لینڈ ڈپارٹمنٹ کے عہدے دار ریٹائرڈ میجر تطہیر عباس کی پٹائی کی تھی جب وہ قبرستان کی دیوار گرانے کیلئے آئے تھے، انہیں 22 ٹانکے آئے تھے۔'
80 مربع گز کے گھر اور کوئی دیگر سہولتیں نہیں
قیوم آباد کی کچی آبادی 109 ایکڑ کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے اور کراچی کے گنجان آباد ترین اور آلودہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔
یہاں پختون، پنجابی، سندھی، بلوچ، اردو بولنے والوں کے علاوہ عیسائیوں اور ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد آباد ہے اور یہاں کی مجموعی آبادی 70 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔
یہاں واقع گھروں کا رقبہ 80 مربع گز سے زیادہ نہیں اور جگہ کی گنجائش پیدا کرنے کیلئے کئی کئی منزلہ عمارتیں تعمیر کردی گئی ہیں اور غیر قانونی طور پر کئی منزلہ رہائشی عمارتوں کی تعمیر کی وجہ سے یہاں کے رہائشیوں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
کے ایم سی کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ 'قیوم آباد میں ایک شخص کو رہنے کیلئے جتنی جگہ ملتی ہے اس سے زیادہ تو ڈی ایچ اے قبرستان میں دفن مردوں کو دستیاب ہے۔'
شمشاد خان کا کہنا ہے کہ علاقے میں کوئی سرکاری اسکول نہیں ہے، نہ ہی کھیل کا میدان ہے اور نہ ہی کوئی ڈسپنسری موجود ہے۔
بظاہر ایسی بہت کم باتیں ہیں جن کی وجہ سے کبھی دلدل کی طرح نظر آنے والا یہ علاقہ 80 کی دہائی سے ڈی ایچ اے ، کے ایم سی اور سی ڈی جی کے کے درمیان وجہ تنازع بنا ہوا ہے۔
قیوم آباد میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے الاٹ کی جانے والی زمین اور کچی آبادی کے جنوب میں واقع ڈی ایچ اے کے بقیہ علاقے ایک دوسرے سے ملحقہ بھی نہیں ہیں۔
درحقیقت قیوم آباد کے ساتھ واقع 30 ایکڑ کی یہ زمین ضلع جنوبی میں ڈی ایچ اے کے 8 فیز میں سے کسی ایک کی حدود میں بھی نہیں آتی بلکہ یہ ضلع کورنگی کے اندر آتی ہے۔
بہرحال کمرشل ڈیویلپرز نے ہمیشہ اس 30 ایکڑ زمین کو تجارتی نقطہ نگاہ سے انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں پلاٹ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی نظر آتی ہیں۔
1960 کی دہائی میں کراچی کے ضلع جنوب میں واقع ایک پسماندہ علاقہ تھا لیکن جب 1968 سے 1976 کے دوران جب اس وقت کے کمشنر کراچی نے ڈی ایچ اے فیز ون اور ٹو کے لئے جگہ بنانے کیلئے کالا پل کے قریب غیر قانونی طور پر آباد افراد کو ہٹایا تو وہ لوگ یہاں آکر آباد ہوگئے۔
یہ زمین کورنگی روڈ، ملیر ندی اور منظور کالونی نالہ کے درمیان واقع ہے اور یہاں کے غریب مکین کئی شعبوں میں بطور مزدور کام کرتے ہیں۔
قیوم آباد کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ آہستہ آہستہ ڈی ایچ اے غیر قانونی طور پرا ن کی 53.22 ایکڑ زمین پر قبضہ کرچکا ہے جس میں 30.32 ایکڑ زمین وہ بھی ہے جو قیوم آباد کے لوگوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے مختص کی گئی تھی اور یہاں صحت کے مراکز، تفریحی مقامات اور دیگر تعمیرات ہونی تھیں۔
لیکن سیاسی اور مالی معاونت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے رہائشی اس زمین پر اپنا دعویٰ درست طریقے سے پیش کرنے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
ان کا مقابلہ ہے بھی تو ڈی ایچ اے سے جو ملک کی طاقت ور ترین لینڈ اتھارٹی ہے اور جو فوجیوں کے ساتھ ساتھ ملک کے امیر ترین افراد کی رہائشی اور تجارتی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔
یہ سارا معاملہ 6 دسمبر 1979 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب وزارت دفاع کی جانب سے کراچی میں زمین کے حصول کیلئے دکھائی جانے والی دلچسپی کے جواب میں سندھ بورڈ آف ریوینیو (بی او آر، جو صوبے کی تمام زمین کا حقیقی مالک ہے) نے پاکستان ڈیفنس آفیسرز کوآپریٹو ہائوسنگ سوسائٹی ( پی ڈی او سی ایچ ایس) کو جسے اب ڈی ایچ اے کراچی کہا جاتا ہے، 640 ایکڑ زمین 99 سالہ لیز پر الاٹ کی تھی۔
اس زمین کا کچھ حصہ ابتدائی طور پر ڈی ایچ اے فیز 9 کیلئے مختص کردیا گیا تھا لیکن اب اسے فیز 7 ایکسٹینشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔
چار برس بعد 26 جنوری 1984 کو وزارت دفاع نے خود ہی گزری، مچھی پاڑہ اور قیوم آباد کی کچی آبادیوں کو کلفٹن کنٹونمنٹ کی حدود سے الگ کردیا اور سندھ حکومت سے کہا کہ اب وہ ان علاقوں کا خیال رکھے۔
جب بورڈ آف ریوینیو سندھ کو یہ علاقے واپس ملے تو سندھ حکومت نے کے ایم سی کو ہدایت کی کہ وہ ان کچی آبادیوں کو ضروریات زندگی کی فراہمی کیلئے منصوبہ بندی کرے۔
بی او آر کے عہدے داروں کی جانب سے قیوم آباد کا سروے کیا گیا اور بعد ازاں 17 جولائی 1985کو ایک نقشہ تیار کیا گیا جس میں قیوم آباد کا کل رقبہ 163.18 ایکڑ بتایا گیا۔
جب یہ معاملہ کے ایم سی کے پاس گیا تو قیوم آباد محکمہ کچی آبادی کی ذمہ داری بن گیا۔
ڈی ایچ اے کراچی کا دعویٰ ہے کہ اس کی زمین کا 53 ایکڑ رقبہ سندھ حکومت نے غلطی سے قیوم آباد میں شامل کردیا اور 1989 کے سروے آف پاکستان میپ میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کچی آبادی 109 ایکڑ پر مشتمل ہے۔
بعد ازاں کے ایم سی نے قیوم آباد کا منصوبہ بنایا جو 163.18 ایکڑ پر مشتمل تھا اور اس میں سے 30.32 ایکڑ زمین یہاں کے رہائشیوں کو بنیاد سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص کیا گیا۔
اس حوالے سے 13 نومبر 1986 کو حکومت نے اس منصوبے کو ایم ایل او 183 کے تحت کچی آبادی قرار دیا۔(کراچی میں وہ علاقے جو 23 مارچ 1985 سے پہلے سے آباد ہیں انہیں کچی آبادی کے طور پر ریگولرائز کرنے کی اجازت ہے جس کے تحت وہاں کے رہائشیوں کو مالکانہ حقوق دے دیے جاتے ہیں اور وہ میونسپل سروسز کے حقدار بھی ہوتے ہیں۔)
اس کے بعد کے ایم سی نے قیوم آباد کچی آبادی منصوبے کو حتمی شکل دی اور پھر سندھ حکومت نے اس کا نقشہ سرکاری گزٹ میں شائع بھی کیا۔
نقشے میں 30.32 ایکڑ زمین کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص دکھایا گیا جہاں پرائمری اسکول، سیکنڈری اسکول، ہسپتال، کالج، قبرستان اور پاک وغیرہ تعمیر ہونے تھے۔
زمین کا کچھ حصہ کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) کے سب اسٹیشن، محکمہ کچی آبادی کے دفاتر وغیرہ کیلئے بھی مختص کیا گیا۔
اس عمل کو عوامی تعاون سے ضابطے کی کارروائیوں کے ساتھ مکمل کرلیا گیا۔ 4 جنوری 2004 کو چیف سیکریٹری سندھ کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں جہاں ڈی ایچ اے کے عہدے دار بھی موجود تھے، کے ایم سی کی جانب سے دی جانے والی بریفنگ میں یاددہانی کرائی گئی کہ 'لے آؤٹ پلان کی منظوری سے قبل معروف اخبارات میں اشتہار دیا گیا تھا کہ اگر کسی کو اس حوالے سے کوئی اعتراض ہے تو وہ سامنے آئے لیکن اس وقت ڈی ایچ اے یا کسی اور ایجنسی کی جانب سے مذکورہ زمین پر کچی آبادی کی منصوبہ بندی کے خلاف کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔'
ڈی ایچ اے کے ہتھکنڈے
اس وقت جنرل ضیاء الحق کی جانب سے جاری کردہ صدارتی حکمنامہ نمبر 7، 1980 کے تحت ڈی ایچ اے کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ 1980 کی دہائی کے اواخر میں وزارتِ دفاع کی جانب سے قیوم آباد کو کلفٹن کینٹونمنٹ کی حدود سے خارج کرنے کے کافی عرصے بعد ایک ریٹائرڈ میجر ہمایوں بٹ تعمیرات کے کاروبار میں حد سے زیادہ سرگرم ہوگئے۔
زبردست تعلقات اور اپنے خاندان میں کئی فوجی جنرلوں کے ہونے کے باعث میجر ہمایوں 30.32 ایکڑز کو ہمایوں کمرشل کے نام سے ڈیکلیئر کروانے میں کامیاب ہوگئے جو ڈی ایچ اے کراچی کے نقشوں میں بھی نظر آتا ہے۔
اگلے کئی سالوں میں ڈی ایچ اے کے ایم سی پر رفاہی پلاٹس سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ ڈالتا رہا۔ ایک خط بتاریخ 13 نومبر 2002 میں ایڈیشنل ڈائریکٹر لینڈ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل محمد یونس نے لکھا کہ "زیرِ بحث [53 ایکڑ] زمین کو غلط طور پر کچی آبادی کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ مگر 7 فروری 2001 کو ہونے والی میٹنگ کے منٹس کے مطابق چیف سیکریٹری حکومتِ سندھ کے احکامات کی روشنی میں مشترکہ کوششوں اور بار بار کی درخواستوں کے باوجود ڈی نوٹیفیکیشن کے اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔" اس دوران ڈی ایچ اے نے زمین پر قبضہ کرنے کی بھی کوشش کی اور سندھ ہائی کورٹ میں ڈی نوٹیفیکیشن کو 'غلط' قرار دیتے ہوئے کیس بھی دائر کیا (سوٹ 586/1989)۔
بورڈ آف ریوینو کے مطابق متعلقہ علاقے کی حد بندی وزارتِ دفاع اور کلفٹن کینٹونمنٹ بورڈ کی جانب سے ڈی نوٹیفیکیشن کے بعد قیوم آباد بستی کی حقیقی پوزیشن کے مطابق ہی تھی، اور یہ کہ ڈی ایچ اے اس حقیقت سے آگاہ تھا۔
ڈان کو دستیاب دستاویزات کے مطابق جب عدالت نے حکم دیا کہ مسئلے کے حل کے لیے مشترکہ طور پر قیوم آباد کی حدود کا تعین کیا جائے تو ڈی ایچ اے حکام دو سمن جاری کیے جانے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
21 مئی 2001 کو ہونے والی میٹنگ کے منٹس میں درج ہے کہ اس وقت کے میونسپل کمشنر کے ایم سی نے اس بات پر زور دیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ کے ایم سی کا مؤقف قانونی طور پر درست تھا، بلکہ کچی آبادی کے لیے بھی رفاہی سہولیات کو یقینی بنانا اخلاقی طور پر ضروری تھا۔ دستاویزات میں سے ایک اقتباس کچھ اس طرح ہے: "قانونی طور پر 1986 میں جاری کیے گئے نوٹیفیکیشن کو 30 دن کے اندر چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ قیوم آباد کالونی گنجان آباد ہے اور اسے مجوزہ سہولیات کے لیے اس زمین کی ضرورت ہے۔ اس زمین کی دستیابی کے بغیر بھیڑ بھاڑ سے بچنا اور زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ناممکن ہے۔"
مگر ڈی ایچ اے کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ڈی ایچ اے کی جانب سے حقائق میں رد و بدل کی ایک مثال 6 ستمبر 2002 کا سندھ حکومت کے محکمہء کچی آبادی کو لکھا گیا ایک خط ہے جس میں ڈی ایچ اے نے کہا تھا کہ جب قیوم آباد کو 1986 میں کچی آبادی قرار دیا گیا تھا تو یہ "صرف حقیقی طور پر 109.36 ایکڑ" پر ہی قائم تھا۔
اپنے اس دعوے کے ثبوت میں مذکورہ خط میں مزید درج ہے کہ: "1989 میں کچی آبادی کی حدود کا تعین کرنے کے لیے سروے آپ پاکستان میپ 1989 کو بنیاد بنایا گیا ہے" اور یہ کہ "میپ شیٹ میں 1989 میں کچی آبادی کا لے آؤٹ واضح ہے۔" ستم ظریفی یہ ہے کہ ڈی ایچ اے کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔
قیوم آباد کی طرح کی بستیاں اپنی فطرت میں بے ہنگم اور غیر منظم ہوتی ہیں۔ رہائشی بالکل نپے تلے انداز میں جیومیٹریکل گرڈ کی طرح 80 گز کے گھر نہیں بناتے۔ مقامی افراد، اور بورڈ آف ریوینیو اور کے ایم سے کے ریکارڈز کے مطابق مستقل کیے جانے سے پہلے قیوم آباد کہلائے جانے والے 163 ایکڑ کے رہائشی بے ہنگم انداز میں اس پورے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے جبکہ ان میں سے کئی افراد کھلی زمین کو بھینسیں باندھنے کے لیے استعمال کرتے تھے تاکہ اضافی آمدنی حاصل کی جاسکے۔
جب 1986 میں حکومتِ سندھ نے اس علاقے کو کچی آبادی قرار دیا اور کے ایم سی نے اسے اس کے لے آؤٹ پلان کے مطابق از سرِ نو منظم کیا، صرف تب ہی رہائشی اپنے الاٹ شدہ 80 گز کے پلاٹس میں منتقل ہوئے جو کہ 109.36 ایکڑ پر تھے، جبکہ باقی بچ جانے والے 53 ایکڑ وہ زمین تھی جسے بنیادی سہولیات اور آبادی میں توسیع کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔ اور سرویئر جنرل آف پاکستان نے 1989 میں انہیں وہیں پایا تھا۔
اس پوری کہانی میں قیوم آباد کی رفاہی زمین حاصل کرنے کے لیے ڈی ایچ اے کی بے رحم کوشش کا سب سے مضبوط ثبوت ایک نقشہ ہے جسے ڈی ایچ اے کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور جسے بظاہر فرید ایسوی ایٹس کے آرکیٹیکٹس نے تیار کیا تھا — اس نقشے کی کاپی ڈان کے پاس موجود ہے۔ ڈی ایچ اے کے مجوزہ فیز 11 کی پلاٹنگ اس نقشے پر دیکھی جا سکتی ہے۔ کمپنی کی 'مہر' جو کہ دائیں جانب اوپر کی طرف موجود ہے، اس پر 30 اگست 1977 کی تاریخ درج ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ڈی ایچ اے کی جانب سے اس علاقے کی پلاٹنگ اس دور کی ہے۔ نقشے میں 'ہمایوں کمرشل' کو 30.32 ایکڑ پر قائم دکھایا گیا ہے، جو واضح طور پر بورڈ آف ریوینیو (بی او آر) کے دعوؤں کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش ہے۔
مگر اس دلیل میں حقائق کی ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ 640 ایکڑ، جس کا یہ 30.32 ایکڑ حصہ ہیں، 6 دسمبر 1979 تک پاکستان ڈیفینس آفیسرز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (PDOCHS) کو لیز نہیں کیے گئے تھے۔ فرم، جو کہ اب تقریباً غیر فعال ہے، کے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ "اس کے علاوہ، ہماری کمپنی کی مہر ہمیشہ نیچے کی طرف دائیں جانب ہوتی ہے، کبھی بھی اوپر کی طرف دائیں جانب نہیں۔"
نقشے پر نیچے کی طرف دائیں جانب دو دستخط ہیں، ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل علی بن احمد اور ایک سابق کمشنر کراچی ایم ایم عثمانی کا، جن کا مقصد دستاویز کو قانونی حیثیت دینا ہے۔ فرید ایسوسی ایٹس کے مالک فرید صاحب کے مطابق ان کی کمپنی نے 640 ایکڑ کے لیے لے آؤٹ پلان حقیقت میں اس سے بہت بعد میں بنایا تھا، اور اس میں بھی انہوں نے قیوم آباد کچی آبادی کے علاقے کو مکمل طور پر نقشے سے باہر رکھا تھا، جبکہ اس حصے کو شامل رکھا تھا جسے بعد میں ہمایوں کمرشل قرار دیا گیا۔
فرم کے ایک سینیئر آرکیٹیکٹ کا دعویٰ ہے کہ میجر ہمایوں کو پورا یقین تھا کہ ڈی ایچ اے تمام سویلین اداروں پر برتری حاصل کر لے گی، اس لیے جیسے ہی ڈی ایچ اے کراچی نے زمین کی ملکیت پر کے ایم سی سے تنازع شروع کیا، تو انہوں نے 'ہمایوں کمرشل' میں پلاٹس فروخت کرنے شروع کر دیے۔
ڈان کو جواب دیتے ہوئے ڈائریکٹر لینڈ ڈی ایچ اے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل جمشید نیازی نے نشاندہی کی کہ بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے 1979 میں ڈی ایچ اے کو الاٹ شدہ 640 ایکڑ کا زیادہ تر حصہ 1980 کی دہائی کے وسط میں ملیر ندی کے بند کی تعمیر کی وجہ سے ضائع ہوگیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ وزارتِ دفاع کی جانب سے قیوم آباد کچی آبادی کو کلفٹن کینٹونمنٹ سے خارج کرنے کے جواب میں بورڈ آف ریونیو نے غلطی سے 163.18 ایکڑ کو کچی آبادی قرار دے دیا، جس کی وجہ سے ڈی ایچ اے کے لیے صرف 60 ایکڑ باقی بچے۔ "یہاں تک کہ کمشنر کراچی نے بھی اپنے ایک خط میں نشاندہی کی تھی کہ ڈی ایچ اے کے پاس صرف 60 ایکڑ باقی بچے ہیں۔" لیکن انہوں نے یہ بات تسلیم کی کہ ملیر ندی کے بند کی تعمیر کے دوران جو زمین ضائع ہوئی تھی، اس کے بدلے میں (ڈی ایچ اے کو) بعد میں 282 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی تھی۔
640 ایکڑ کی حقیقی لیز، جو 6 دسمبر 1979 کو حکومتِ سندھ اور پی ڈی او سی ایچ ایس (ڈی ایچ اے کی ابتدائی صورت) کے درمیان طے پائی تھی، فوجی حکام کے مؤقف کو قانونی نکتہء نظر سے غلط قرار دیتی ہے۔ شق 12 کی ذیلی شق بی اور سی کے مطابق 640 ایکڑ کے صرف 50 فیصد حصے، یعنی 320 ایکڑ پر قائم کمرشل اور رہائشی پلاٹس کو افواجِ پاکستان کے افسران کو الاٹ کیا جانا تھا، جبکہ متوازی تعداد میں پلاٹس کو حکومتِ سندھ کے افسران کے لیے مختص کیا جانا تھا۔ اس کے بجائے 12 ایکڑ سے بھی کم زمین پر پلاٹس سندھ حکومت کے افسران کے لیے مختص کیے گئے۔ اس زمین کو کمشنرز سوسائٹی کا نام دیا گیا جو کہ ملیر ندی، قبرستان اور کچی آبادی کے مشرقی رخ کی جانب واقع تھی۔
(سندھ حکومت کے ایک افسر نے بتایا کہ "قبرستان اور کچی آبادی کے درمیان لوکیشن اتنی بری تھی کہ مجھے جیسے ہی وہاں پر پلاٹ الاٹ ہوا، میں نے اسے بیچ دیا۔ اور اسی وجہ سے اس علاقے کے پلاٹس کو باقی کے ڈی ایچ اے فیز 7 ایکسٹینشن سے کہیں کم قیمت ملی۔" مگر جمشید نیازی کے مطابق "ڈی ایچ نے سندھ حکومت کے افسران کو اتھارٹی کو الاٹ شدہ 282 ایکڑ میں پلاٹس دے کر تلافی کر دی تھی۔")
اس طرح ڈی ایچ اے کے اپنے اعتراف کے مطابق اس نے 342 ایکڑ (60 جمع 282 ایکڑ) حاصل کیے۔ اس میں سے 12 ایکڑ سویلین افسران کے پلاٹس کے لیے الگ کیے گئے، جبکہ باقی بچ جانے والے 330 ایکڑز کو فوجی افسران کے پلاٹس کے نام پر مختص کیا گیا۔ یہ پہلے ہی اس سے کہیں زیادہ تھا جو اسے 640 ایکڑ میں حصے کے طور پر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ یہ زمین اس سے بھی کہیں زیادہ ہے جس کی ڈی ایچ اے کراچی قانونی طور پر حقدار ہے۔ کراچی بدامنی کیس 16/2011 میں ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کے دفتر کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی جانے والی دستاویزات کے مطابق "ڈی ایچ اے کے پاس حکومتِ سندھ کی 5,257 ایکڑ زمین بغیر کسی ادائیگی اور بغیر کسی الاٹمنٹ کے موجود ہے۔"
جب پوچھا گیا کہ ڈی ایچ اے کو اتنی زمین کی ضرورت کیوں ہے، تو ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر زبیر احمد نے بتایا کہ پہلے ڈی ایچ اے کے پاس الاٹمنٹ کی باقاعدہ کوئی پالیسی نہیں تھی، مگر جنرل مشرف کے دور میں ایک جامع پالیسی تشکیل دی گئی تھی کہ افسران کو اتنے سالوں کی سروس، اتنی سینیارٹی اور قربانیوں کی بناء پر پلاٹس دیے جائیں گے۔ اس سے قبل نچلے رینکس کو پلاٹس الاٹ کرنے کی کوئی پالیسی نہیں تھی مگر بعد میں غور کیا گیا کہ نان کمیشنڈ اہلکار جنہوں نے قربانیاں دی ہیں، انہیں بھی پلاٹس دیے جانے چاہیئں، جس کی وجہ سے زمین کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوا۔
ان سالوں کے دوران ڈی ایچ اے کورنگی روڈ کے ساتھ موجود قیوم آباد کی رفاہی زمین اور آبادی کی توسیع کے لیے مختص زمین پر اپنا "حق" جتاتا رہا۔
بھلے ہی گذشتہ 20 سالوں کے دوران قیوم آباد کے رہائشیوں نے ڈی ایچ اے کی جانب سے زمین پر زبردستی قبضہ کرنے کی ہر کوشش کی مزاحمت کی ہے، مگر کے ایم سی، ڈی ایچ اے کراچی کی جانب سے شدید دباؤ کی وجہ سے ان سہولیات کی تعمیر نہیں کر سکی جس کے لیے اس نے بجٹ رکھا تھا، اور جس کا قیوم آباد مستقل آبادی کے طور پر حقدار ہے۔
کے ایم سی، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو سب اسٹیشن کے لیے زمین نہیں دے سکی اور نہ ہی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پمپنگ اسٹیشن کے لیے جگہ دے سکی تاکہ عوام کی زندگیاں آسان بنائی جا سکیں۔ آبادی کے ایک نوجوان رہائشی شاہد نے تلخ لہجے میں بتایا کہ "جب آپ کے پاس پانی نہ ہو تو آپ ٹینکرز سے خرید لیتے ہیں۔ مگر ہم یہاں گدھا گاڑیوں پر فروخت کیے جانے والے جیری کینز سے زیادہ کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ محدود پانی یا تو کھانا پکانے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا خواتین اپنی ضروریات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔"
جب 1999 میں جنرل مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا، تو ڈی ایچ اے نے اپنے پسندیدہ 53 ایکڑز حاصل کرنے کے لیے بورڈ آف ریوینیو پر دباؤ ڈالنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کر دیا۔ اور اگر یہی کافی نہیں تھا تو سندھ حکومت کے افسران کے مطابق کور کمانڈر کے بھائی سید غضنفر علی شاہ کا بورڈ آف ریوینیو میں بہت اثر و رسوخ تھا۔ کے ایم سی کے ایک مایوس افسر نے کہا کہ "پہلے تو ہم ڈی ایچ اے کی مزاحمت کرتے رہے، مگر جب اس طرح کے بااثر لوگوں نے اپنے تعلقات کا استعمال کرنا شروع کیا، تو ہم کیا کر سکتے تھے؟"
اختیارات کا ناجائز استعمال
زمین پر قبضہ چاہے کوئی شخص کرے یا ادارہ اس سازش میں ہمیشہ ہی اہم حکومتی عہدے دار ملوث ہوتے ہیں جو موقع فائدہ اٹھانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔
قیوم آباد پر معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں، دفاعی حکام کی زور آزمائی اس وقت کامیاب ہوگئی جب 2004 میں بے ایمان سرکاری افسران نے ان مطالبات تسلیم کرلیے۔
اس وقت کے چیف سیکریٹری سندھ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سیکریٹری جی اے اینڈ سی اعجاز حسین قاضی نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ ارباب رحیم سے مںظوری کیلئے ایک سمری تیار کی( ڈائری نمبر 411 مورخہ 23 اکتوبر 2004) جس میں لوکل گورنمنٹ کی جانب سے قیوم آباد کچی آبادی کا رقبہ دوبارہ 109.36 ایکڑ کرنے کا ذکر تھا اور عملی طور پر اس کا مقصد 53.22 ایکڑ زمین ڈی ایچ اے کراچی کے حوالے کرنا تھا۔
یہ سمری اسی روز چیف سیکریٹری کو موصول ہوگئی اور اسے لوگل گورنمنٹ کے داخلی رجسٹر میں 6005 کے نمبر سے شامل کرلیا گیا۔
سندھ حکومت کے ایک ریٹائرڈ سیکریٹری نے بتایا کہ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے مخالفت کا اندازہ ہوتے ہی اس سمری کو فوری طور پر چیف سیکریٹری کے دفتر سے ہٹا دیا گیا۔
بعد ازاں اسی طرح کی ایک اور سمری جس پر وہی نمبر درج تھا چیف سیکریٹری کی جانب سے براہ راست وزیر اعلیٰ کو بھجوادی گئی جوکہ رولز آف بزنس کی خلاف ورزی تھی کیوں کہ اس پر محکمہ لوکل گورنمنٹ کے ریمارکس نہیں لیے گئے تھے۔
باوجود اس کے وزیر اعلیٰ سے منظوری کے بعد اس سمری کو اس وقت کے وزیر بلدیات ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کو بھیج دیا گیا تاکہ وہ اپنے محکمے کی جانب سے اس پر عمل کراسکیں۔
سندھ کچی آبادی اتھارٹی نے 2 فروری 2005 کو قیوم آباد کی حدود کے کا دوبارہ تعین کیا اور اسے 109.36 ایکڑ تک محدود کردیا گیا۔
اس حقیقت کے باوجود کہ قیوم آباد کے رہائشیوں کیلئے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے منصوبہ بندی اور اس کی منظوری سندھ حکومت 18 برس قبل ہی دے چکی ہے، قیوم آباد کی حدود کا تعین دوبارہ کردیا گیا۔
سندھ حکومت کے ہاؤسنگ ٹاؤن پلاننگ اور لوگل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈیویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ نے 13 نومبر 1986 کو اس کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا اور 12 فروری 1987 کو سندھ حکومت کی جانب سے سرکاری گزٹ میں بھی شائع کیا گیا۔
کے ایم سی کے حکام کا کہنا ہے کہ جس طرح مذکورہ زمین ڈی ایچ اے کے حوالے کی گئی اس سے لگتا ہے کہ ایسا صرف خاکی وردی والوں کے دباؤ کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ سندھ حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کو کام کے بدلے اس علاقے میں پلاٹس الاٹ کرکے بھی نوازا گیا۔
چند ماہ قبل ڈان کے انکشافات کے بعد مبینہ طور پر آرمی چیف کے حکم پر گزری کریک پر مینگروو کے جنگلات کے 530 ایکڑ رقبے کی غیر قانونی الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا اور اس الاٹمنٹ سے بھی بالآخر ڈی ایچ اے کو ہی فائدہ پہنچنا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وزارت دفاع نے جب پہلی بار کراچی میں زمین کی الاٹمنٹ کی درخواست دی تھی تو موقف اختیار کیا تھا کہ اسے شہداء کی بیواؤں اور بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جائے گا تاہم بعد میں موقف تبدیل ہوگیا اور کہا گیا کہ 'زمین فوج کے ان اہلکاروں کے لیے استعمال کی جائے گی جن کی آمدنی زیادہ نہیں اور وہ اپنے سر پر چھت کا سایہ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔' بہرحال سندھ بی او آر کے لینڈ یوٹیلائزیشن کے سابق رکن کا کہنا ہے کہ قیوم آباد کی جو زمین ڈی ایچ اے کو دی گئی اس کے الاٹیز معروف کمرشل ڈویلپرز اور سرمایہ کار ہیں جن کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ قانون کے مطابق زمین کا وہ حصہ جسے ایک بار بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص کردیا جائے اسے تجارتی یا رہائشی مقاصد کے لئے استعمال کرنا تو دور کسی اور طرح کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
سنگین مذاق تو یہ ہے کہ 'ہمایوں کمرشل'(جو اس زمین پر واقع ہے جو قانونی طور پر قیوم آباد کچی آبادی کی ہے) کے پلاٹس کو جو نمبرز جاری کیے گئے تھے انہیں کور کمانڈر اطہر علی کے دور میں تبدیل کیا گیا اور ان پلاٹ نمبروں میں 'کیو کے' کے حروف شامل کیے گئے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلئے مختص کردہ تمام زمین الاٹ کی جاچکی ہے اور ڈی ایچ اے کراچی کے دفتر میں اس کی خرید و فروخت بھی جاری ہے۔
مزید برآں ڈان کو دستیاب دستاویز کے مطابق ڈی ایچ اے نے بعض الاٹیز کو ان تجارتی پلاٹس کی فروخت محض 4 ہزار روپے فی مربع گز کے عوض کی جبکہ آج یہ 2 لاکھ روپے فی مربع گز میں فروخت ہورہے ہیں اور اس حساب سے ایک ایکڑ زمین کی قیمت ایک ارب روپے تک بنتی ہے۔
ڈی ایچ اے کراچی فیز 8 میں 1987 کے ایک عام الاٹی سے ڈیویلپمنٹ چارجز کی مد میں 16 ہزار روپے فی مربع گز وصول کرتا ہے۔
اس کے علاوہ ڈی ایچ اے نے فیز 8 دو دریا کے قریب رہائشی پلاٹس کو کمرشل میں تبدیل کرنے کیلئے ایک لاکھ 20 ہزار روپے فی مربع گز وصول کیے۔
پرتعیش بنگلوں میں رہنے والوں کے نزدیک قیوم آباد کے مکینوں کو ان کی زمین واپس ملنے کے امکانات بہت ہی کم ہیں کیوں کہ ڈی ایچ اے کراچی نے تو اب 5 ہزار فٹ طویل فصیلیں بھی کھڑی کردی ہیں جو اسے کچی آبادی سے علیحدہ کرتی ہیں۔
ڈی ایچ اے کے ایڈمنسٹریٹر بریگیڈیئر زبیر احمد سے جب قیوم آباد کے رہائشیوں کے بنیادی سہولتوں تک رسائی کے حق کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'میں انسانی بنیادوں پر اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ بنیادی سہولتیں ہر علاقے میں ہونی چاہئیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سندھ حکومت یہ کہہ دے کہ زمین ڈی ایچ اے نہیں بلکہ کچی آبادی والوں کی ہے تو ہم اپنا رویہ تبدیل کردیں گے لیکن جب تک سندھ حکومت ایسا نہیں کہتی بطور ایڈمنسٹریٹر ڈی ایچ اے میں اس زمین سے دستبردار نہیں ہوسکتا کیوں کہ میں ڈی ایچ اے کے مفادات کا نگہبان ہوں اور جو ذمہ داری مجھے دی گئی ہے مجھے وہ ادا کرنی ہے۔
یاد رہے کہ چند ماہ قبل ڈان کے انکشافات کے بعد مبینہ طور پر آرمی چیف کے حکم پر گزری کریک پر مینگروو کے جنگلات کے 530 ایکڑ رقبے کی غیر قانونی الاٹمنٹ کو بھی منسوخ کردیا گیا تھا اور اس الاٹمنٹ سے بھی بالآخر ڈی ایچ اے کو ہی فائدہ پہنچنا تھا۔
کیا قیوم آباد کے مکین اب یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ اعلیٰ حکام معقول معیار زندگی کے قانونی حق کیلئے کی جانے والی ان کی جدوجہد کا نوٹس لیں گے؟
ہیڈر فوٹو بشکریہ فہیم صدیقی
یہ تفصیلی خبر 22 اگست کو روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی۔