• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

کوئی رکن اسمبلی کیسے نااہل ہوتا ہے؟

شائع August 21, 2016

اسلام آباد: پانامہ پیپرز کے تناظر میں وزیراعظم نوازشریف کے خلاف دائر کیے جانے والے ریفرنس کے بعد حکومتی اور اپوزیشن میں موجود جماعتیں ایک دوسرے کو نااہل قرار دینے کے لیے ریفرنس جمع کروا رہی ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے اراکین کو اہل قرار دینے کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ، سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سربراہ پاکستان جسٹس پارٹی (پی جے پی) افتخار محمد چوہدری اور عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل) کے سربراہ شیخ رشید احمد کی جانب سے قومی اسمبلی کے اسپیکر کو ریفرنس جمع کروایا گیا۔

جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ، پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری اور تحریک انصاف وزیر اعظم نااہلی کا معاملہ الیکشن کمیشن بھی لے جا چکے ہیں۔

ان تمام جماعتوں کا موقف ہے کہ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کو اپنے اثاثہ جات کی غلط معلومات فراہم کیں، تینوں درخواست گزاروں کی جانب سے وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل۔ن) کے ممبران نے بھی اس کا بھر پور جواب دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور پارٹی رہنما جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کا ریفرنس اسپیکر قومی اسمبلی کوجمع کروایا۔

جبکہ واضح قانون موجود ہونے کے باوجود سیاسی جماعتیں وزیراعظم اور اسمبلی کے دیگر ممبران کو نااہل قرار دینے کے لیے دوہرے راستے اپنائے ہوئے ہیں۔

آئین میں مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کے ارکان کو نا اہل قرار دینے کے لیے آرٹیکل 63 موجود ہے، جس میں وہ تمام طریقے درج ہیں جس سے کسی رکن کی پارلیمان کی رکنیت ختم ہو سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں : نیب میں پی ٹی آئی کا نواز شریف کے خلاف ریفرنس

آئین کے تحت اگر اسمبلی کے کسی رکن کے خلاف دوسرے رکن کی جانب سے سوال اٹھایا جائے تو اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ اس پر کارروائی کرنے کے مجاز ہوتے ہیں، جس کے بعد کوئی اعتراض نہ ہو تو درخواست الیکشن کمیشن کو ارسال کی جاتی ہے۔

اگر 30 روز کے دوران اسمبلی کی جانب سے کمیشن کو درخواست نہ دی جائے تو وہ درخواست ازخود الیکشن کمیشن میں سماعت کے لیے چلی جاتی ہے۔

آئین کے مطابق الیکشن کمیشن میں جانے کے بعد 90 روز کے دوران درخواست پر سماعت کی جاتی ہے، درخواست میں نامزد ممبر کے خلاف الزام ثابت ہونے کی صورت میں کمیشن اس ممبر کو نااہل قرار دیتے ہوئے نشست کے خالی ہونے کا اعلان کردیتا ہے۔

الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے ڈان کو بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نااہلی ریفرنس پر کوئی سوال نہ اٹھنے پر اپنا حتمی فیصلہ سنا دیتا ہے، تاہم اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں : نواز شریف کی نااہلی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر

کنور دلشاد مزید کہنا تھا کہ اگر معاملہ 30 روز بعد الیکشن کمیشن تک چلا جائے تو کمیشن رکن پارلیمنٹ کے اہل یا نااہل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔

جبکہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر اسپیکر نے کسی رکن کی ناہلی کا ریفرنس الیکشن کمیشن کو ارسال کر دیا ہو تو بھی کمیشن کے پاس یہ اختیار موجود ہے کہ وہ اس معاملے کی دوبارہ تحقیقات کرے۔

اس معاملے پر ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار ایس ایم ظفر نے بتایا کہ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ آئین میں یہ شرط بھی شامل ہے کہ جو رکن تمام قوانین اور رکاوٹوں کو عبور کرنے کے بعد اسمبلی میں پہنچا ہے، اگر اس پر سوال اٹھایا جائے گا تو اسمبلی کے اسپیکر کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اس ممبر کو نااہل قرار دے۔

ایس ایم ظفر کا مزید کہنا تھا کہ آئین میں یہ اچھا راستہ موجود ہے کہ اسپیکر اپنے آفس میں دونوں فریقوں کے موقف کو بغیر کسی دباؤ کے سنے اور اس پر اپنا فیصلہ سنائے۔

انہوں نے بتایا کہ کسی بھی فریق کی حمایت کے بغیر اسپیکر اگر اپنا فیصلہ سنائے تو اس سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور پارلیمنٹ کی بالادستی برقرار رہتی ہے۔

واضح رہے کہ نواز شریف پہلے وزیر اعظم نہیں ہیں جنہیں اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ان سے قبل 1980ء میں اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام نے اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے خلاف فیصلہ سنایا تھا۔

سابق اسپیکر فخر امام کی اہلیہ سابق وفاقی وزیر سیدہ عابد حسین کا کہنا تھا کہ مرحوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے خلاف فیصلہ ثبوتوں کی بنیاد پر دیا گیا، انہوں نے الیکشن کمیشن میں اپنی پارٹی کو رجسٹرڈ نہیں کروائی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ 1985ء کے عام انتخابات جماعتی بنیادوں پر نہیں تھے، فیصلے میں یہ بات واضح ہے کہ محمد خان جونیجو نے اپنی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل) الیکشن کے فوری بعد وزیراعظم بننے کی خواہش میں تشکیل دی۔

80ء کی دہائی میں الیکشن کمیشن کے پبلک ریلیشنز کے سربراہ رہنے والے کنور دلشاد نے ڈان کو بتایا کہ جنرل ضیاالحق نے صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے اسپیکر کی جانب سے ارکان کے نااہلی کے ریفرنس کے اجراء کو کالعدم قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : پاناما انکشافات: 'وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے'

کنور دلشاد نے مزید بتایا کہ سیاسی انتقام لیتے ہوئے محمد خان جونیجو نے اسمبلی سے عدم اعتماد کے ووٹ کی مدد سے اسپیکر کو ان کے عہدے سے ہٹا کر حامد نثار چٹھہ کو نیا اسپیکر منتخب کیا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقع تھا، جس میں اسپیکر کی جانب سے اسمبلی کے رکن کو نا اہل قرار دیا گیا، جس کے بعد 2012ء میں اس قسم کا دوسرا فیصلہ سامنے آیا، جس میں عدالت کی جانب سے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کے حکم کو نہ ماننے پر توہین عدالت پر وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اسمبلی سے بے دخل کردیا تھا۔

سابق وزیراعظم کے خلاف توہین عدالت پر نااہلی ریفرنس رکن پارلیمنٹ شاہد اورکزئی کی جانب سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کو جمع کروایا گیا، تاہم پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی اسپیکر نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے حق میں فیصلہ دیا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جو پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ (پی پی پی پی) میں تقسیم ہوگئی تھی، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے پیٹریاٹ کے نام سے نیا گروپ بنانے والے فیصل صالح حیات، راؤ سکندر اور دیگر اراکین کے خلاف قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری عامر حسین کو نا اہلی کے ریفرنس جمع کروائے تھے، جن پر 5 سال تک اسپیکر کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔

جس کے بعد آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت یہ بات شامل کی گئی کہ اسپیکر قومی اسمبلی 30 دن کے اندر ریفرنس پر فیصلہ سنائے گا، اگر اسپیکر اس دوران کوئی اقدام نہیں کرتے تو معاملہ از خود الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔

الیکشن کمیشن میں دائر پانچوں درخواستوں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے اور خاندان کے اثاثہ جات سے متعلق کمیشن سے غلط بیانی کی۔

ریپریزینٹیشن آف پیپل ایکٹ (روپا) 1976 کے سیکشن 42A کے مطابق پارلیمنٹ کا ہر ممبر اپنے اور بچوں کے تمام اثاثہ جات کی معلومات فراہم کرنے کا پابند ہے، اگر فراہم کی گئی معلومات میں غلط ثابت ہوئیں تو قانون کے تحت ان پر کرپشن کا مقدمہ چلایا جائے گا۔

جس کی سزا موجودہ قانون کے سیکشن 80 کے تحت 3 سال قید اور زیادہ سے زیادہ 5000 جرمانہ ہے۔

قانون کے مطابق اس طرح کے معاملے میں سیشن جج کو کیس سنے کا اختیار ہوگا، جبکہ متعلقہ رکن پارلیمان کو سیشن جج کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہوگا، تاہم روپا قانون کے اطلاق کے بعد کوئی شخص انفرادی طور پر بھی سیشن عدالت میں درخواست دائر کر سکتا ہے، اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ پہلے الیکشن کمیشن کے سامنے معاملہ اٹھائے۔

مزید پڑھیں : جہانگیر ترین کے خلاف ن لیگ کا نااہلی ریفرنس

اگر الیکشن کمیشن معاملے کو آگے چلانے کی وجہ تلاش کر لیتا ہے تو سیشن کورٹ جج کو کیس کی سماعت کی استدعا کی جاتی ہے، جس میں سزا یا بریت کا فیصلہ سنایا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت کوئی بھی ایسا شخص پارلیمنٹ کا رکن بن سکتا ہے جس نے 2 سال یا اس سے زائد کسی جرم میں جیل میں نہ گزارے ہوں، اس طرح اگر کسی شخص نے ایک سال یا زیادہ سے زیادہ 2 سال کا عرصہ جیل میں گزارا ہو تو وہ پارلیمنٹ کا ممبر بننے کے لیے نااہل نہیں ہوتا۔

کنور دلشاد نے یہ بات بھی یاد دلائی کہ 2005 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئر پرسن بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف اثاثہ جات کی غلط معلومات فراہم کرنے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2005 میں الیکشن کمیشن کو ان کے خلاف اقدام کرنے کی استدعا کی تھی۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ نیب الیکشن کمیشن سے بدعنوانی کے خلاف کارروائی کروانا چاہتا تھا،تاہم کمیشن کا موقف تھا کہ کہ کوئی بھی انفرادی طور پر عدالت میں اثاثہ جات کے حوالے سے کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر سکتا ہے، نیب نے کیسز تیار بھی کیے تاہم یہ سب اس وقت ختم ہو گیا جب قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) کا اجراء ہوا۔


یہ رپورٹ 21 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024