مستقبل کی 5 سواریاں جو سفر کا انداز بدل دیں گی
ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں ابھی پبلک ٹرانسپورٹ یا کس بھی طرح کے ٹرانسپورٹ نظام کی ایک باقاعدہ شکل موجود نہیں مگر دنیا جس تیزی سے ترقی کررہی ہے، اسے دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں اس شعبے کا نقشہ بدلنے والا ہے۔
خودکار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیوں سے لے کر ہائپر لوپ تک، کمپنیاں ٹرانسپورٹ کی شکل بدلنے میں مصروف عمل ہیں۔
یہاں کچھ ایسے ٹرانسپورٹ سسٹمز اور سواریوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جو ابھی تیار ہورہی ہیں اور سامنے آنے کے بعد زمین پر سفر کرنے کے انداز کو ڈرامائی حد تک بدل کر رکھ دیں گی۔
خودکار ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیاں
خود ڈرائیونگ کرنے والی گاڑیاں اب کوئی خواب نہیں بلکہ ان کے تجربات مختلف ممالک میں جاری ہیں۔
متعدد بڑی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس عزم کا اظہار کرچکی ہیں کہ وہ 2020 تک ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی انتہائی جدید نیم خودکار گاڑیاں مارکیٹ میں لے آئیں گی، جبکہ ایک دہائی تک انہیں مکمل خودکار بنادیا جائے گا۔
ایسی گاڑیوں کے سامنے آنے سے تحفظ کے حوالے سے چند بڑے فوائد بھی انسانوں کو حاصل ہوں گے، جبکہ کاربن کا اخراج بھی کم ہوگا اور جو لوگ گاڑی چلانا نہیں جانتے، انہیں بھی گاڑی خرید کر رکھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔
اڑن گاڑیاں
اڑن گاڑیاں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی تیاری پر تیزی سے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔
رواں سال جون میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ گوگل کے شریک بانی لیری پیج نے 100 ملین ڈالرز ایک کمپنی زوو ایرو پر لگائے ہیں جو ایک اڑنے والی گاڑی کی ٹیکنالوجی پر کام کررہی ہے۔
لیری پیج نے اڑن گاڑی کو حقیقی شکل دینے والی ایک اور کمپنی کیٹی ہاک پر بھی سرمایہ کاری کی ہے۔
اگرچہ ابھی ان دونوں کمپنیوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کا کام کس حد تک آگے بڑھ چکا ہے مگر اطلاعات ہیں کہ ان کے نمونے تیار ہونے کے قریب ہیں۔
اسی طرح ٹیرافیوگا ایک اور کمپنی ہے جو فلائنگ کار کو تیار کررہی ہے جسے ٹی ایف ایکس کا نام دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ وہ 2025 تک فضاﺅں میں اڑتی نظر آئیں گی۔
الیکٹرک گاڑیاں
الیکٹرک کاریں اب تیزی سے مرکزی دھارے کا حصہ بن رہی ہیں اور بیشتر کمپنیاں مکمل الیکٹرک اور لانگ رینج گاڑی 2020 تک سامنے لانے کا منصوبہ بنا رہی ہیں۔
یہ گاڑیاں کاربن کے اخراج میں تو کمی لانے میں مدد دیں گی ہی، اس کے ساتھ ہی یہ بجلی بنانے والی کمپنیوں کے رویے میں بھی تبدیلی لائیں گی اور انہیں توانائی کے متبادل ذرائع پر مزید سرمایہ کاری پر مجبور کریں گی تاکہ بجلی کی طلب کو پورا کیا جاسکے۔
خودکار ڈرائیونگ کرنے والی بسیں
شہروں میں آبادی بڑھنے کے نتیجے میں زیادہ محفوظ اور موثر پبلک ٹرانسپورٹ کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔
اسے پورا کرنے کے لیے بیشتر کمپنیاں خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت رکھنے والی بسوں کو تیار کرنے پر کام کررہی ہیں۔
مثال کے طور پر جولائی میں مرسڈیز بینز نے نیم خودکار فیوچر بس کو متعارف کرایا تھا جو ٹریفک لائٹس کو پہچاننے، سرنگوں میں سفر سمیت راہ گیروں اور سائیکل سواروں کو شناخت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مخصوص مواقعوں پر خود ڈرائیو کرکے بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔
مرسڈیز کا دعویٰ ہے کہ اس کی بس ایندھن بچانے کے لیے بھی عام بسوں کے مقابلے میں موثر ہے کیونکہ اس کا خودکار ڈرائیونگ کا سسٹم بریک، ایکسیلیٹر اور گیئرز کو موثر طریقے سے استعمال کرتا ہے۔
ابھی یہ فیوچر بس 43 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرسکتی ہے اور انہیں صرف بسوں کے لیے مخصوص لینز میں ہی دوڑایا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں ٹریفک کم ہونے کی وجہ سے انہیں چلانا آسان ہے تاہم کمپنی کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہونے کے بعد یہ زیادہ بہتر خودکار ڈرائیونگ کی صلاحیت سے لیس ہوگی۔
ہائپر لوپ سسٹمز
مستقبل میں ٹرینوں کی جگہ مسافر پوڈز یا ہائپر لوپ نظر آئیں گے جو سرنگوں کے راستے 500 میل فی گھنٹہ سے بھی زائد کی رفتار سے سفر کرسکیں گے اور لوگ طیاروں کی طرح جلد اپنی منزلوں تک پہنچ سکیں گے، یعنی لاہور سے کراچی کا سفر دو گھنٹے میں طے ہوجائے گا۔
چونکہ ہائپر لوپ کا کنٹرول مکمل طور پر خودکار ہوگا لہذا موسم کی خرابی یا آپریٹر کی غلطی کی وجہ سے کبھی تاخیر کا سامنا نہیں ہوگا۔
علاوہ ازیں ہائپر لوپ کو تیار کرنے والی کمپنیوں کا عزم ہے کہ اس کی لاگت ہر ممکن حد تک کم کی جائے گی۔
ان کے بقول ہائپر لوپ پبلک ٹرانسپورٹ کی ایسی قسم ہوگی جو انتہائی کم قیمت ہوگی تاکہ لوگ انہیں دیگر ذرائع کے مقابلے میں ترجیح دیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انتہائی تیز رفتار، بہت زیادہ محفوظ اور توانائی کی بچت کرنے والی یہ ٹرانسپورٹ جتنی سستی ہو گی لوگ اسے اتنی ہی زیادہ ترجیح دیں گے۔
تبصرے (1) بند ہیں