• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟

آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے کیلئے وزیر اعظم کے پاس 4 آپشنز موجود ہیں۔
شائع August 14, 2016 اپ ڈیٹ August 16, 2016

اسلام آباد: آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد پاک فوج کا اگلا سربراہ کون ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے اوراس اہم عہدے کیلئے جتنے بھی فوجی افسران فہرست میں شامل ہیں ان میں سے کسی کو فیورٹ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

ریٹائرڈ اور حاضر سروس بیوروکریٹس اور فوجی افسران نے ڈان کو بتایا کہ جب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا جانشین منتخب کرنے کیلئے بیٹھیں گے تو ان کے سامنے ذاتی پسند، سیاسی مقاصد اور اعلیٰ فوجی قیادت کے ساتھ کام کرنے کا ان کا اپنا تجربہ بھی ہوگا اور ان کی کوشش ہوگی کہ نیا آرمی چیف ہر طرح سے قابل اعتماد ہو۔

مختلف ادوار میں رہنے والے آرمی چیفس

آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت نومبر کے آخر میں ختم ہورہی ہے اور یہ نواز شریف کے لئے پانچواں موقع ہوگا جب کو پاک فوج کے سربراہ کا تقرر کریں گے۔

نواز شریف کو سب سے زیادہ مرتبہ آرمی چیفس کی تقرری کا اعزاز حاصل ہے اور اگر 1999 میں ان کی جانب سے جنرل مشرف کو ضیاء الدین بٹ سے تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کو بھی گن لیا جائے تو یہ چھٹا موقع ہوگا جب نواز شریف چیف آف آرمی اسٹاف کا انتخاب کریں گے۔

لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد
لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد

نواز شریف نے ماضی میں جن آرمی چیفس کو منتخب کیا ان میں جنرل آصف نواز جنجوعہ (1991) ، جنرل وحید کاکڑ(1993) ، جنرل پرویز مشرف(1998) اور جنرل راحیل شریف (2013) شامل ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والے سات آرمی چیفس میں سے پانچ کا انتخاب نواز شریف نے کیا۔

وزیر اعظم نواز شریف کے پاس آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدوں پر تقرری کیلئے چار آپشنز موجود ہیں۔

آرمی چیف کے انتخاب کے عمل میں پیچیدگیوں کے باوجود یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف میں اس حوالے سے خاصی دلچسپی پیدا ہوچکی ہے۔

مئی 2013 میں انتخابات جیتنے کے بعد نواز شریف نے سب سے پہلا کام یہ کیا تھا کہ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں سے صلاح مشورے شروع کردیے کہ اگلا آرمی چیف کس کو ہونا چاہیے حالانکہ اس وقت انہوں نے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا تھا اور اس وقت کے آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں چھ ماہ باقی تھے۔

اس وقت نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ' یہ بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ ماضی میں سینیارٹی کو بالائے طاق رکھنے کا انجام کیا ہوچکا ہے، آرمی چیف کے عہدے کی طاقت کو نظر انداز نہ کریں اور اپنا بندہ والی ذہنیت کو ختم کریں۔'

یہ مشورہ اس نظریے پر مبنی تھا کہ جیسے ہی ایک جنرل آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتا ہے وہ اس قدر جذباتی ہوجاتا ہے کہ اپنی انفرادی حیثیت کھو دیتا ہے۔

2013 میں آرمی چیف کی تقرری کے معاملے میں شامل قریبی افراد کا کہنا ہے کہ نواز شریف نے اس مشورے کو مانا اور سینیارٹی کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہوئے جنرل راشد محمود کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی) اور جنرل راحیل شریف کو چیف آف آرمی اسٹاف منتخب کیا۔

لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے
لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے

اس وقت یہ سمجھا جارہا تھا کہ سینئر ترین جنرل ہاورن اسلم کو بائی پاس کیا گیا ہے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مشورہ دیا تھا کہ انہیں عہدہ نہ دیا جائے۔

جنرل راحیل شریف کے جانشین کے انتخاب کے حوالے سے حکومت نے اب تک باضابطہ طور پر غور شروع نہیں کیا لیکن اس معاملے سے واقف حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے سال کے آغاز سے ہی اس معاملے پر مشاورت شروع کررکھی ہے۔

جنوری میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے دیے گئے اُس بیان کو جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مقررہ وقت پر ریٹائر ہوجائیں گے اندورنی معاملات سے واقف لوگ پس پردہ سیاسی چالبازی کا شاخشانہ قرار دیتے ہیں۔

جنرل راحیل کا یہ بیان سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر بھی موضوع بحث بن گیا تھا اور آرمی چیف کو مدت ملازمت توسیع دینے کے حامیوں اور مخالفین کا سیلاب امڈ آیا تھا۔

یہ بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے مستقبل کے حوالے سے میڈیا اور بینرز کے ذریعے نئی بحث شروع کرنے کے پیچھے بھی وہی سیاسی چالبازی ہے۔

جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہونے تک اگر کوئی ڈرامائی صورتحال پیدا نہ ہوئی تو ممکن ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اگلے آرمی چیف کے نام کا اعلان وقت سے پہلے ہی کردیں تاکہ جنرل راحیل شریف اپنی مدت ملازمت کے آخری مہینوں میں ریٹائرمنٹ موڈ پر چلے جائیں جیسا کہ انہوں نے جنرل آصف کی تعیناتی کے وقت کیا تھا۔

سینیارٹی لسٹ

پاک فوج کے سینئر افسران کی فہرست بہت حد تک واضح ہے، چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات سینیئر ترین افسر ہیں اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد، کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹرجنرل ٹریننگ اینڈ ایویلوئیشن لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجودہ ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ
لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ

جنرل زبیر اور جنرل اشفاق کے درمیان دو اور جنرلز بھی ہیں ، ایک ہیوی انڈسٹریل کمپلیکس ٹیکسلا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید واجد حسین اور دوسرے ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل نجیب اللہ خان۔

تاہم یہ دونوں افسران آرمی چیف کے عہدے کیلئے تکنیکی طور پر اہل نہیں کیوں کہ انہوں نے کسی کور کی کمانڈ نہیں کی ہے۔

اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل مقصود احمد جو اس وقت اقوام متحدہ میں ملٹری ایڈوائزر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں وہ پہلے ہی توسیع پر ہیں اور وہ بھی مزید پروموشن کے اہل نہیں۔

جو چار جنرلز آرمی چیف کے عہدے پر ترقی پانے کے اہل ہیں ان تمام کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 62 ویں لانگ کورس سے ہے۔

یہ صورتحال وزیر اعظم نواز شریف کو موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ بغیر کسی اکھاڑپچھاڑ کے نئے آرمی چیف کا تقرر کرسکتے ہیں۔

تاہم ان چاروں جنرلز کا فوج میں ارتقائی سفر ایک دوسرے سے مختلف رہا ہے۔

جنرل مشرف کے بعد آرمی کے تمام فور اسٹار جنرلز جن میں جنرل طارق مجید، جنرل خالد شمیم وائیں، جنرل اشفاق پرویز کیانی، جنرل راشد محمود اور جنرل راحیل شریف شامل ہیں، ان تمام کا تعلق انفینٹری سے تھا۔

جنرل پرویز مشرف آخری فور اسٹار جنرل تھے جن کا تعلق آرٹلری سے تھا اور فوج کے اس یونٹ کو عام طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوج کی شمولیت کے حوالے سے وابستہ کیا جاتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے آخری 14 فور اسٹار جنرلز میں سے 9 نے چیف آف جنرل اسٹاف کی حیثیت سے فرائض انجام دیے جو آرمی چیف کے بعد فوج کا معتبر ترین عہدہ ہے۔

اس بار موجودہ چیف آف جنرل اسٹاف جنرل زبیر اور سابق چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اشفاق دونوں ہی دو فور اسٹار عہدوں کیلئے میدان میں ہیں۔

چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی (سی جے سی ایس سی)

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ بھی اسی روز خالی ہوجائے گا جس روز جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت ختم ہوگی اور یہ عہدہ اگلے چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری میں پیچیدگی پیدا کرنے والا بڑا عنصر ہے۔

اصولی طور پر تو سی جے سی ایس سی کا عہدہ تینوں مسلح افواج آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے سینئر ترین فور اسٹار جنرل کو ملنا چاہیے تاہم نیشنل کمانڈ اتھارٹی (این سی اے) کے قیام کے بعد سے آرمی کو اس عہدے کیلئے فوقیت حاصل ہوگئی ہے کیوں کہ جوہری کمانڈ اور اسٹریٹجک اثاثوں کا کنٹرول آرمی ہی سنبھالتی ہے۔

سی جے سی ایس سی این سی اے کی ڈیپلائمنٹ کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین ہوتا ہے جبکہ اس کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔

یہ عہدہ رسمی ہی سہی لیکن اصولی طور پر آرمی چیف کے عہدے سے بڑا ہوتا ہے لہٰذا اس عہدے پر سینئر جنرل کو تعینات کیا جانا چاہیے۔

ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت کسی جونیئر جنرل کو سی جے سی ایس سی مقرر کرکے سینیارٹی کی تربیت کو نہیں بگاڑے گی۔

لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات
لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات

تقرری کا عمل

آرمی چیف اور چیف آف جنرل اسٹاف کمیٹی کے عہدوں پر تقرری کا عمل اس وقت شروع ہوتا ہے جب وزیر اعظم وزارت دفاع کے توسط سے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) سے چھ سر فہرست لیفٹیننٹ جنرلز کی تفصیلات پر مبنی دستاویز طلب کرتا ہے۔

اس دستاویز میں امیدواروں کی اہلیت کے حوالے سے نکات درج ہوتے ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس مرحلے پر سبکدوش ہونے والے آرمی چیف کی جانب سے کوئی باضابطہ سفارش نہیں ہوتی۔

قانون کے تحت اگر کوئی شخص آرمی چیف کے عہدے کیلئے سفارش کرسکتا ہے تو وہ ہے وزیر دفاع تاہم موجودہ وزیر دفاع خواجہ آصف فوج کے معاملات سے دور نظر آتے ہیں اور توقع یہی ہے کہ وہ خود کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے عمل سے بھی علیحدہ رکھیں گے۔

اس کے بعد وزیر اعظم متوقع امیدواروں کے حوالے سے آرمی چیف سے ون آن ون مشاورت کرتا ہے۔

اس حوالے سے جب ایک ریٹائرڈ جنرل سے پوچھا گیا کہ جنرل راحیل شریف کی ترجیح کیا ہوگی تو انہوں نے کہا کہ 'جنرل راحیل شریف اپنی سفارشات دے کر وزیر اعظم کو سنیارٹی لسٹ تبدیل کرنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیں گے۔'

وزیر اعظم کے قریب سمجھے جانے والے ایک سیاستدان کا یہ موقف ہے کہ آرمی چیف کے لیے موزوں امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے نواز شریف ان فوجی افسران کے ساتھ اپنے ورکنگ ریلیشن کا جائزہ ضرور لیں گے جن سے امور کی انجام دہی کے دوران ان کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ تقرری سے قبل آرمی چیف کے عہدے کے امیدواروں کا سیاسی اتار چڑھاؤ کے دوران رد عمل اور خاص طور پر 2014 کے دھرنے کے دوران ان کا موقف کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔

اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے گا کہ جب دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف پر 'کچھ کرنے' کیلئے دباؤ بڑھا تو بعض کور کمانڈرز نے انہیں کچھ نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا جارہا ہے کہ اس حوالے سے نواز شریف انٹیلی جنس رپورٹس پر بھروسہ کریں گے۔

آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کے دوران امیدواروں کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اور خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے خیالات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

آگلے آرمی چیف کو قبائلی علاقوں میں جاری آپریشنز سے فوجی انخلاء کی اہم ذمہ داری بھی نبھانی پڑسکتی ہے کیوں کہ اس طویل ترین انسداد دہشتگردی آپریشن کے دوران آرمی کے کئی انفینٹری یونٹس ایسے بھی ہیں جو ان علاقوں میں تین بار تعینات ہوچکے ہیں۔

فوجی افسران کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ سے فوجی دستوں کی پیشہ وارانہ صلاحیتیں اور چستی متاثر ہورہی ہے۔

امیدوار

لیفٹننٹ جنرل زبیر حیات کا تعلق آرٹلری سے ہے اور وہ حاضر سروس چیف آف جنرل اسٹاف ہیں، تھری اسٹار جنرل کی حیثیت سے ماضی میں وہ اسٹریٹجک پلانز ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں جو کہ این سی اے کا سیکریٹریٹ ہے۔

اس کے علاوہ وہ بہاولپور کے کور کمانڈر بھی رہ چکے ہیں لہٰذا وہ چیئرمین جوانٹ چیفس آف اسٹاف کے عہدے کیلئے آئیڈیل انتخاب ہیں جس کے پاس جوہری فورسز اور اثاثوں کا مکمل اختیار ہوتا ہے۔

چیف آف جنرل اسٹاف اور ڈی جی ایس پی ڈی کے عہدے پر رہنے کی وجہ سے انہیں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے ساتھ قریب سے کام کرنے کا موقع ملا ہے۔

جب وہ میجر جنرل کے عہدے پر تھے تو جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) سیالکوٹ کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے اور بعد میں اسٹاف ڈیوٹیز (ای ڈی) ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی کی جس کے اہلکاروں کے بارے میں آرمی میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ 'یہ کاغذ کے شیر ہیں'۔

ڈائریکٹوریٹ میں تعیناتی اور آرمی چیف کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کے عہدے پر پوسٹنگ کی وجہ سے وہ جنرل کیانی کے قریب آگئے تھے اور انہیں جنرل کیانی کا شاگرد سمجھا جاتا تھا۔

بہر حال ان کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ انہوں نے کبھی جنگ زدہ علاقے میں خدمات انجام نہیں دیں۔

لیفٹیننٹ جنرل زبیر حیات کے ساتھ کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ کام کرنے کے جنونی اور ان کا حافظہ بھی بہت تیز ہے۔

جنرل زبیر سیکنڈ جنریشن آفیسر ہیں اور ان کے والد بھی پاک فوج سے میجر جنرل کے عہدے پر ریٹائرہوئے تھے جبکہ ان کے دو بھائی بھی جنرل ہیں ان میں سے ایک پاکستان آرڈیننس فیکٹریز واہ کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل عمر حیات اور دوسرے انٹر سروس انٹیلی جنس کے ڈی جی اینالسس میجر جنرل احمد محمود حیات ہیں۔

آرمی چیف کے عہدے کے لیے لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم احمد بھی اہمیت کے حامل ہے وہ اس وقت کور کمانڈر ملتان ہیں اور ماضی میں چیف آف جنرل اسٹاف رہ چکے ہیں۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عہدہ سنبھالتے ہی جو کام کیے تھے جنرل اشفاق کی بطور چیف آف جنرل اسٹاف تعیناتی بھی ان میں سے ایک تھا اور کئی لوگ جنرل راحیل شریف کی کامیابی کا کریڈٹ جنرل اشفاق کو ہی دیتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی مقبولیت کی وجہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کی کامیابی ہے لیکن بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب کا خاکہ بھی جنرل اشفاق نے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی حیثیت سے تیار کیا تھا۔

جنرل اشفاق نے بطور میجر جنرل سوات آپریشن میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور وہ وزیرستان میں بریگیڈیئر تعینات رہ چکے ہیں۔

آپریشنز ڈائریکٹوریٹ کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب جنرل اشفاق لیفٹیننٹ کرنل تھے اور اس میں ان کی شمولیت کی وجہ سے کئی آرمی افسران اس بات پر متفق ہیں کہ آپریشنز کو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔

وہ اس وقت میکانی کور کے سربراہ ہیں اور یہ عہدہ انفنٹری کے کسی بھی آرمی افسر کے لئے اعزاز سے کم نہیں ہوتا۔

مزید برآں ان کا تعلق آزاد کشمیر رجمنٹ سے ہے لہذا اگر وہ آرمی چیف بنتے ہیں تو آرمی میں موجود آزاد کمشیر سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کیلئے یہ بڑا اعزاز ہوگا۔

تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ جنرل اشفاق کا انداز بہت ہی تحکمانہ اور منہ پھٹ ہے، ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ بطور چیف آف جنرل اسٹاف جنرل اشفاق کو اکثر وزیراعظم ہاؤس جانا پڑتا تھا اور ان کا یہ رویہ اکثر اوقات وزیر اعظم کو ناگوار بھی گزرتا تھا۔

لیکن جنرل اشفاق انتہائی غیر سیاسی افسر ہیں اور حکومت کے لئے انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔

لیفٹننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے بھی سینیارٹی لسٹ میں موجود ہیں اور وہ اس وقت بہاولپور کے کور کمانڈر ہیں، ماضی میں وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے صدر رہ چکے ہیں۔

وہ سوات آپریشن کے دوران جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) رہ چکے ہیں ، 2011 میں سوات کے پہاڑی علاقوں میں ان کے ہیلی کاپٹر پر جنگجوؤں نے اسنائپر سے فائرنگ کی تھی اور اس حملے میں وہ زخمی بھی ہوگئے تھے۔

اگلے چار برس وہ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں رہے پہلے بطور کمانڈنٹ اور پھر چیف انسٹرکٹر اور پھر بطور صدر خدمات انجام دیں، ان کا تعلق انفنٹری کے سندھ رجمنٹ سے ہے۔

لیفٹننٹ جنرل رمدے کے سابق سینئر افسران کہتے ہیں کہ وہ انتہائی باصلاحیت اور دانش مند افسر ہیں۔

جنرل رمدے کے خاندان کا سیاسی پس منظر ہونے کی وجہ سے بعض سیاسی تجزیہ کار انہیں پاکستان مسلم لیگ ن کا ترجیحی انتخاب قرار دے رہے ہیں تاہم عوامی حلقوں میں ان کے خاندان کی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے ہونے والی بحث ان کی امکانات کو کم کرسکتے ہیں۔

مبینہ طور پر ان کا تعلق سپریم کورٹ کے سابق جج ریٹائرڈ جسٹس خلیل الرحمان رمدے سے بھی ہے اور 2009 میں جی ایچ کیو میں ہونے والے حملے میں ان کے رشتہ دار بریگیڈیئر انوار الحق رمدے بھی مارے گئے تھے۔

اس فہرست میں شامل لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجودہ کو اس دوڑ میں 'چھپے رستم' کی حیثیت حاصل ہے، اور ان پر قریبی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

وہ اس وقت جی ایچ کیو میں انسپکٹرجنرل آف ٹریننگ اینڈ ایویلوئیشن ہیں اور یہ وہی عہدہ ہے جو آرمی چیف بننے سے قبل جنرل راحیل شریف کے پاس تھا۔

جنرل قمر آرمی کی سب سے بڑی 10 ویں کور کو کمانڈ کرچکے ہیں جو کنٹرول لائن کے علاقے کی ذمہ داری سنبھالتی ہے۔

لیفٹننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں میں معاملات کو سنبھالنے کا وسیع تجربہ ہے، بطور میجر جنرل انہوں نے فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کی سربراہی کی۔

انہوں نے 10 ویں کور میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر بھی بطور جی ایس او بھی خدمات انجام دیے ہیں۔

کشمیر اور شمالی علاقوں میں تعیناتی کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود کہا جاتا ہے کہ جنرل قمر دہشت گردی کو پاکستان کے لیے ہندوستان سے بھی بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

لیفٹننٹ جنرل قمر کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن میں انڈین آرمی چیف جنرل بکرم سنگھ کے ساتھ بطور بریگیڈ کمانڈر کام کرچکے ہیں جو وہاں ڈویژن کمانڈر تھے۔

وہ ماضی میں انفنٹری اسکول کوئٹہ میں کمانڈنٹ بھی رہ چکے ہیں اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ جنرل قمر کو توجہ حاصل کرنے کا شوق نہیں اور وہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

ان کے ماتحت کام کرنے والے ایک افسر کا کہنا ہے کہ جنرل قمر انتہائی پیشہ ور افسر ہیں،ساتھ ہی بہت نرم دل بھی ہیں اور وہ غیر سیاسی اور انتہائی غیر جانبدار سمجھے جاتے ہیں۔

ان کا تعلق انفرنٹری کے بلوچ رجمنٹ سے ہے جہاں سے ماضی میں تین آرمی چیف آئے ہیں اور ان میں جنرل یحیٰ خان، جنرل اسلم بیگ اور جنرل کیانی شامل ہیں۔

یہ رپورٹ 14 اگست 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی