میتھیو بیرٹ جاسوس نہیں لیکن بے دخل کریں گے، نثار
اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے مشترکہ تحقیقاتی رپورٹ (جے آئی ٹی) میں گرفتار امریکی شہری میتھیو بیرٹ جاسوس ثابت نہیں ہوا، لیکن اسے آئندہ چند روز میں پاکستان سے ڈی پورٹ کردیا جائے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار علی خان نے گرفتار امریکی شہری کے حوالے سے کہا کہ میتھیو بیرٹ کو 2011 میں پاکستان سے بے دخل کیا گیا، اسے جیل سے نکال کر بے دخل کیا گیا تھا، اس وقت اس پر جاسوسی کا الزام نہیں تھا لیکن وہ حساس مقام پر پایا گیا تھا، اور اس نے سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ جھگڑا کیا جس پر اسے گرفتار کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکی شہری نے بلیک لسٹ ہونے کے باوجود 5 سال بعد پھر ویزے کے لیے اپلائی کیا اور اسے بلیک لسٹ میں ہونے کے باوجود ہیوسٹن سے ویزا جاری کردیا گیا، جبکہ میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ کمپیوٹر کا مسئلہ تھا۔‘
ان کا کہنا امریکی شہری میتھیو بیرٹ کی جی آئی ٹی رپورٹ مل چکی ہے، جس میں وہ جاسوس ثابت نہیں ہوا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ میتھیو کو ویزا جاری کرنے والے پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے، جنہوں نے اسے ایئرپورٹ پر کلیئر کیا انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ اس غلطی کی جس آفیسر نے نشاندہی اسے ایک لاکھ کا انعام اور اعزازی سرٹیفکیٹ دیا گیا، ایک لاکھ روہے کا چیک سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے بھی موصول ہوا، لیکن میں انہیں یہ چیک شکریہ کے ساتھ واپس بھیج رہا ہوں۔
’5 ہزار شناختی کارڈ بلاک کیے جاچکے‘
شناختی کارڈ کی تصدیقی عمل کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ شناختی کارڈ کی تصدیق کسی ایک شخص کا کام نہیں تھا، جبکہ میڈیا اور عوام نے بھرپور ساتھ دیا جس کے باعث یہ کام ممکن ہوپایا۔
انہوں نے کہا کہ ایک ماہ اور 10 دن میں 3 کروڑ 12 شناختی کارڈز کی تصدیق ہوچکی ہے، 14 غیر ملکیوں نے خود فون کرکے اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ واپس کیے، جبکہ عوام کی شکایت پر 5 ہزار شناختی کارڈ بلاک کیے جاچکے ہیں۔
’گھر آیا مہمان تضحیک کرے تو خاموش نہیں رہا جاسکتا‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’سارک کانفرنس کا میزبان ہونے کی حیثیت سے اخلاقی ذمہ داریاں پوری کیں، ہندوستانی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو روایات سے ہٹ کر کانفرنس میں بات کرنے کی اجازت دی گئی، لیکن گھر آیا مہمان اگر تضحیک کرے تو خاموش نہیں رہا جاسکتا اور دنیا کے کسی کونے میں بھی پاکستان کی تضحیک ہو تو جواب دینا میرا فرض ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ سارک اجلاس میں ایک ملک تقریر کرتا ہے تو دوسرے ملک کو جواب دینے کا حق ہوتا ہے، اجلاس میں میری تقریر کے بعد بریک ہوا اور اگر راج ناتھ سنگھ میری تقریر کا جواب دینا چاہتے تو دے سکتے تھے لیکن وہ وہاں سے چلے گئے اور انہوں نے سارک اجلاس میں جواب دینے کے بجائے راجیہ سبھا میں جواب دیا، جبکہ ہندوستانی وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں جو کہا وہ یہاں کہتے تو میں ان کا جواب دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ راج ناتھ سنگھ کی آمد پر کشمیریوں سے محبت رکھنے والوں نے احتجاج کیا، یہ احتجاج مہذب انداز میں کیا گیا اور ہندوستان کی طرح کسی کا منہ کالا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں پاکستانیوں کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا، سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے میزبان کا ہندوستان میں منہ کالا کیا گیا، شہریارخان، نجم سیٹھی اور راحت فتح علی خان کا کیا قصور تھا جو ان کے ساتھ ہندوستان میں ناروا سلوک کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی وزیر داخلہ کے پاکستان آنے سے پہلے ہی وہاں باتیں شروع ہوگئی تھیں، انہوں نے کہا کہ ان کے ہر وزیر اعظم نے پاکستان سے بہتر تعلقات چاہے لیکن انہوں نے اس وزیر اعظم کا ذکر نہیں کیا جس نے 1965 میں پاکستان پر حملہ کیا۔
چوہدری نثار نے کہا کہ ہندوستان اجارہ داری اور کشمیر پر تسلط سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں، مسائل کا حل مذاکرات میں ہی پوشیدہ ہے، لیکن کشمیریوں کا قتل عام بھی ہندوستان کرتا ہے اور بات چیت کے دروازے بھی بند کرتا ہے۔
الزامات لگانے والوں کو مناظرے کا چیلنج
دو روز قبل قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’اسمبلی میں تقریر شیڈول کے مطابق تھی، تقریر میں سابق صدر آصف علی زرداری کی تعریف کرنے پر کہا گیا کہ آصف زرداری کو میری تعریف کی ضرورت نہیں، اگر ایسا ہی ہے تو میرا تعریفی لیٹر اب تک انہوں نے اپنے پاس کیوں رکھا ہوا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوگ اسمبلی میں پوائنٹ اسکورنگ اور تماشا لگانا چاہتے تھے، اسمبلی میں صرف وزیر اعظم کو متاثر کرنے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا، اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ حکومت کے بجائے میرے خلاف ہیں اور ایک ایسا ٹولہ ہے جو ہر چیز کا الزام مجھ پر ڈال دیتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن لیڈر کو سیکیورٹی اداروں کے حوالے سے میری بات ناگوار گزری، لیکن سیکیورٹی اداروں پر تنقید کا جواب دینا میری ذمہ داری ہے۔
نیشنل ایکشن پلان میں وزارت داخلہ سے متعلق 4 پوائنٹس تھے، جن میں سے وزارت نے اپنے حصے کا بیشتر کام کرلیا ہے، سیکیورٹی کے حوالے سے کسی صوبے کو کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا، لیکن صوبے انٹیلی جنس رپورٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔
انہوں نے خود پر الزامات لگانے والوں کو مناظرے کا چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس ریٹائرڈ وجہیہ الدین اور جسٹس ریٹائرڈ طارق پر مشتمل کمیشن بنالیا جائے، جبکہ صحافیوں پر مشتمل جیوری بنائی جائے جو قوم کو سچ بتائے۔
ایان علی اور پیپلز پارٹی کا تعلق کیا ہے؟
چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ایک ذمہ دارشخص نے پیپلز پارٹی سے صلح کی پیشکش کی، جس کے لیے ایان علی کیس کی واپسی اور ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت کی شرط رکھی گئی۔
انہوں نے کہا کہ ایک لڑکی 5 کروڑ روپے لے کر جاتی ہے اور جب گرفتار ہوتی ہے تو آسمان زمین ایک کردیا جاتا ہے، جبکہ لوگوں کی کھال اتارنے والے ایان کا کیس بھی مفت میں لڑ رہے ہیں، جس سے واضح طور پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر ایان علی اور پیپلز پارٹی کا تعلق کیا ہے؟