ممنوعہ سرزمین: ایک پاکستانی کا سفرِ اسرائیل
میرا ہمیشہ سے پختہ عزم تھا کہ کینیڈا کی شہریت اور پاسپورٹ ملنے کے بعد، سب سے پہلے میں جس ملک جاؤں گا وہ اسرائیل ہوگا۔
اپنے دوستوں سے اس مقدس سرزمین کے بارے میں ڈھیر ساری کہانیاں سننے کے بعد میرے جذبات کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ مگر میں بہت خوفزدہ بھی تھا کیونکہ میں نے ایسے لوگوں کے بارے میں بھی سن رکھا تھا جنہیں پاکستانی یا/اور مسلم ہونے کی وجہ سے اسرائیلی کسٹمز نے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔
17 فروری 2016 کو میں نے ڈھیر ساری دعاؤں اور مشوروں کے ساتھ اسرائیل جانے کے لیے برٹش ایئرویز کی پرواز پکڑی۔ میں مقامی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے تل ابیب کے بن گورین ایئر پورٹ پہنچا۔
اسرائیلی کسٹمز پر پہنچنے پر ایک افسر بے جان آواز میں مجھ سے تفتیش کرنے لگا، کیا میں اسرائیل میں کسی کو جانتا ہوں؟ کیا مجھے عربی آتی ہے؟َ کیا میں کبھی مشرق وسطیٰ آیا ہوں؟
اس نے میرا پاکستانی پاسپورٹ بھی دیکھنا چاہا مگر چونکہ اس پاسپورٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی اس لیے اپنے ساتھ نہیں لایا تھا۔
میرا کینیڈین پاسپورٹ لیتے ہوئے انہوں نے مجھے انتظار گاہ کی جانب جانے کا اشارہ کیا۔ مجھے پہلے ہی ایسی صورتحال کی توقع تھی چنانچہ میں اپنے ساتھ اسرائیل پر سیاحتی گائیڈ لے آیا تھا، جو میں نے وہاں پڑھنا شروع کردی۔
30 منٹ کے بعد ایک دوسرے کسٹمز افسر کی جانب سے مجھے ایک کمرے میں بلایا گیا۔ انہوں نے مجھ سے اسرائیل آنے کا مقصد پوچھا اور یہ بھی پوچھا کہ میں نے کسی دوسرے ملک جانے کے بجائے اسرائیل کا انتخاب کیوں کیا۔ وہ آہستگی اور احتیاط سے میرے جوابات کا اپنے کمپیوٹر میں اندراج کرتا رہا۔
کینیڈا منتقل ہونے اور میرے پیشے کے متعلق چند دیگر سوالات کی بوچھاڑ کرنے کے بعد انہوں نے مجھے ایک سفید کاغذ پر اپنا مکمل نام اور ای میل ایڈریس لکھنے کو کہا اور پھر اسی انتظار گاہ جا کر انتظار کرنے کو کہا۔
ایک گھنٹہ گزر جانے کے بعد ایک نوجوان خاتون افسر مجھے ایک اور سوال و جواب کے سیشن کے لیے بلانے کے لیے آئیں۔ میں ایسے کمرے میں بیٹھا تھا جہاں یروشلم میں واقع قبۃ الصخراء کی تصویر لگی تھی اور اسرائیلی پرچم آویزاں تھا. مجھ سے اتنے سوالات پوچھے گئے کہ خدا کی پناہ.
وہ سیشن قریب 25 منٹ تک جاری رہا۔ آخر میں مجھے بتایا گیا کہ وہ خاتون میری فراہم کردہ تمام معلومات کی تصدیق کریں گی۔
ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے کے 4 گھنٹوں کے طویل انتظار کے بعد ایک خاتون میرا پاسپورٹ تھامے میرے پاس آئیں۔ انہوں نے مجھے ایک علیحدہ کاغذ پر ویزا جاری کیا اور مجھے لگیج مشین کی جانب جانے کی ہدایت دی۔
میں نے اپنا سامان اٹھایا اور جلدی سے والد کو فون کرکے اطلاع دی کہ میں بالآخر یروشلم روانہ ہو رہا ہوں!
تل ابیب سے 45 منٹ کی مسافت پر موجود یروشلم یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے لیے ایک مقدس شہر کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ شہر مسلم، یہودی، عیسائی اور آرمینیائی علاقوں میں تقسیم ہے۔
میں دوپہر کو اولڈ سٹی میں واقع اپنے ہاسٹل پہنچا۔ وقت ضائع کیے بغیر میں نے اپنا بیگ کمرے میں چھوڑا اور سب سے پہلے مسجدِ اقصٰی جانے کا فیصلہ کیا۔
جفا گیٹ (جو کہ اس قلعہ بند شہر کا ایک دروازہ ہے) سے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے والے راستے میں خوبصورت روایتی بازاروں سے گزر ہوتا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے دروازے پر اس وقت ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے مجھ سے پاسپورٹ دکھانے کو کہا اور میرے مسلمان ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے مجھ سے سورہ فاتحہ پڑھنے کو کہا (غیر مسلموں کے لیے یہاں آنے کے لیے مخصوص گھنٹے مختص کیے گئے ہیں). میں نے سورۃ پڑھی اور اندر داخل ہو گیا۔
یہ وسیع و عریض مسجد اپنی سادگی میں ہی اتنی شاندار اور اپنی مثال آپ تھی. مسجد میں عبادت گزاروں کی تھوڑی تعداد دکھائی دی۔ میں نے مسجد کی اندرونی آرائش کو دیکھنے کے بعد وہاں نماز پڑھی۔
مسجد کے سامنے سونے سے آراستہ قبۃ الصخراء (ڈوم آف دی راک) ہے جو کہ دنیا کی سب سے حیرت انگیز اور سب سے زیادہ فوٹوگراف کی گئی جگہوں میں سے ہے. سنہری گنبد ہلکے رنگ کے آسمان کے سامنے بالکل واضح اور الگ تھلگ دکھائی دے رہا تھا۔
میں دیر تک اس سنہرے گنبد کے سحر میں گم ہو کر اور انتہائی عاجزی سے اسے تکتا رہا۔ اس جگہ کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے معراج کے دوران وہاں سے آسمان کی جانب اپنا سفر کا آغاز کیا تھا،
اس کے بعد میں دیوارِ گریہ یا مغربی دیوار گیا جو کہ ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے اور جہاں یہودیوں کو عبادت کرنے کی اجازت ہے۔ وہاں میں نے یہودیوں کو قدیم چونا پتھر کی دیوار کے سامنے رنج و غم کی حالت میں دعائیں مانگتے دیکھا۔
اس کے بعد میں نے چرچ آف سیپلشر کا رخ کیا. ایسا سمجھا جاتا ہے کہ اس جگہ حضرت عیسیٰ کا مقبرہ موجود ہے۔
یہ عیسائیوں کے لیے مقدس جگہ ہے. وہ مانتے ہیں کہ اس مقام پر تاریخ کے سب اہم واقعات رونما ہوئے جیسے یہی وہ مقام ہے جہاں مسیح مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے تھے۔
دن کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ مجھ میں ایک سکون سما گیا تھا۔ تینوں جگہوں پر ان مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو دیکھ کر میرے اندر ایک آسودگی کی کیفیت اتر چکی تھی۔
یروشلم میں تین دن گزارنے کے بعد میں اپنے ساتھی مسافر، جن کا تعلق ہندوستان سے تھا اور ان سے میری ملاقات ہاسٹل میں ہوئی تھی، کے ساتھ بیت اللحم اور ہیبرون (الخلیل) جانے کا فیصلہ کیا۔
بیت اللحم یروشلم کے جنوب میں 30 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ حصہ فلسطینی شہر کے زیر اثر ہے اور یہاں چرچ آف نیٹیوٹی (حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش) موجود ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے درمیان یہ شہر خاصا مقبول ہے۔
بیت اللحم سے ہم الخلیل پہنچے جہاں فلسطینی سول انتظامیہ اور اسرائیلی افواج دونوں کا کنٹرول ہے۔ اس شہر کی سب سے خصوصی بات الحرم الابراہیمی ہے۔ یہ مقام مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں تینوں ہی کے لیے مقدس حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ وہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور ان کی ازواجِ مطہرات کے مقبرے موجود ہیں۔
دو سیکیورٹی چیک پوائنٹس سے گزرنے کے بعد ہم اس مقام کی مسلم جانب پر پہنچے۔ یہاں اسلام، عیسائیت اور یہودیت، تینوں ہی مذاہب کے لیے مقدس پیغمبران مدفون ہیں۔ وہاں میں نے اپنے اندر ایک روحانی تسکین و تازگی کا احساس پایا۔
ہاسٹل میں میری ملاقات لیتھوانیا سے تعلق رکھنے والے ایک کینیڈین سیاح سے ہوئی تھی. انہیں بھی اپنا ہمسفر بنا کر ہم نے رام اللہ جانے کا فیصلہ کیا جو مغربی کنارے پر واقع ایک فلسطینی شہر ہے۔ یہ شہر یروشلم سے 35 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے. اس دوران ہمیں کسی بھی چیک پوائنٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
میرا ہاسٹل رام اللہ شہر کے اندر موجود مرکزی بس اسٹیشن سے صرف ایک منٹ کے پیدل سفر پر واقع تھا۔ رام اللہ میں ایک رات کا قیام کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہم نے اپنا وقت ضائع کیے بغیر اپنے بیگز ہاسٹل میں پھینکے اور شہر کی سیر کو نکل پڑے۔
رام اللہ ایک پر رونق اور ہلچل سے بھرا فلسطینی گڑھ ہے۔ اسی شہر میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کے سربراہ یاسر عرافات کا مقبرہ موجود ہے۔ ہم چند مقامی بازاروں سے گزر کر ایک میوزیم پر چند لمحوں کے لیے رکے اور شیشہ پیا. میں نے جہاں کہیں بھی شیشہ پیا ہے ان تمام کے مقابلے وہاں کے مشہور بلدنا کیفے کا شیشہ اب تک کا بہترین شیشہ ثابت ہوا۔
ہم خوش قسمت تھے کہ وہاں چند دلچسپ مقامی افراد دوست بن گئے تھے۔ آپ شاید یہ سوچ بھی نہیں سکتے ہوں گے مگر وہ وہاں ایک کم و بیش عام زندگی ہی گزار رہے ہیں۔ اسرائیل میں کسی دوسری جگہ کے مقابلے میں مجھے سب سے زیادہ لگژری گاڑیاں مغربی کنارے کے اس شہر رام اللہ میں دیکھنے کو ملی تھیں۔
مگر میں یہ بھی بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ رام اللہ سے 15 منٹ کی ڈرائیو پر مہاجرین کے کیمپس قائم ہیں جہاں بڑی تعداد میں فلسطینی انتہائی غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اگلے دن میں فلسطینی شہر نابلس گیا۔ مقامی بس کے ذریعے وہاں پہنچنے میں مجھے ایک گھنٹے سے تھوڑا زیادہ وقت لگا۔ رام اللہ اور نابلس دونوں شہر ماضی میں اسرائیلی اور فلسطینی افواج کے درمیان جھڑبوں کے دوران متنازع علاقے رہے ہیں۔
کچھ گھنٹوں کے قیام کے دوران مجھے وہاں ہلچل اور عمارتوں سے بھرا شہر دیکھنے کو ملا۔ تھوڑی دیر کے لیے خود کو نابلس کے بازاروں میں گم کرنے کے بعد میں نے مشہور میٹھی سوغات کنافہ کھائی. کنافہ میٹھی چاش میں جذب پنیر پیسٹری ہے اور عرب ممالک میں خاصی مقبول ہے۔
اسرائیل پہنچنے کے بعد یہ واحد کھانے کی چیز ملی جو سب سے زیادہ خوش ذائقہ تھی۔
اس کے بعد میں حماد الشفا میں سکون بخش ترک حمام سے محظوظ ہوا۔ وہاں سے نکلتے وقت میں خود کو ذہنی طور پر بہت پرسکون محسوس کر رہا تھا.
نابلس زیتون کے تیل کے سب سے زیادہ صابن بنانے کے حوالے سے کافی مقبول ہے اسی لیے میں بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ آخر یہ بنتے کیسے ہیں۔ مگر دوپہر ہوجانے کی وجہ سے تمام کارخانے بند ہو گئے تھے۔ لیکن بہرحال میں چھوٹی دکانوں سے کچھ مقامی طور پر بنائے گئے زیتون کے تیل کے صابن حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور انہیں دیکھ کر واقعی اندازہ ہوا کہ یہ کیوں مقبول ہیں۔
اس شہر کو خیر آباد کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ میں نے بس پکڑی اور رام اللہ روانہ ہو گیا۔ وہاں سے یروشلم کے لیے ایک دوسری بس میں سوار ہوا اور اس کے بعد پھر تل ابیب پہنچا جہاں میں نے اپںے سفر کا آخری دن گزارا۔
اس ایک دن میں مجھ سے جتنا ہو سکا اس شہر کو دیکھا اور محسوس کیا۔ تل ابیب کے علاقے جفا، جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، میں میں نے بہترین ٹیونا پیزا کھایا، جلد بازی میں تحائف خریدے، اور اولڈ جفا کے ساحلِ سمندر پر خوشگوار گرم دھوپ سینکنے کا موقع حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔
اس دن جمعہ تھا۔ اسرائیل میں یہ یومِ سبت ہوتا ہے: یہودیت میں آرام یا تعطیل کا دن۔ سڑکوں پر ٹریفک کم تھا اور شام ہوتے ہی سب کچھ بند ہونا شروع ہو گیا تھا۔
اگلے دن میں نے نا چاہتے ہوئے بھی مقدس سرزمین سے کینیڈا روانہ ہونے کے لیے اپنا سامان سمیٹا۔ بہرحال میں اس بات سے بھی کافی خوش تھا کہ اسرائیل دیکھنے کی میری دیرینہ آرزو پوری ہو گئی تھی۔
شیراز علی خان بین الاقوامی تعلقات کے گریجوئیٹ ہیں اور سفر کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔