سندھ کے اسٹائلش وزیر کھیل سے ملیے
پاکستان کی سیاست دان خواتین کے بدلتے فیشن کے چرچے تو میڈیا کی سرخیوں میں رہتے ہی ہیں تاہم اب کوئی ایسا آ گیا ہے جس سے شاید تمام سیاست دانوں کا فیشن خطرے میں آجائے گا۔
ہم آپ کو متعارف کرواتے ہیں دو بچوں کے والد 28 سالہ سردار محمد بخش خان مہر سے جنہیں کچھ روز قبل سندھ کابینہ میں وزیر کھیل کا قلم دان سونپا گیا ہے۔
ہم یہ تو نہیں جانتے کہ انہیں کھیل سے کس حد تک لگاؤ ہے تاہم وہ فیشن کے معاملے میں شاید سب سے آگے نکل سکتے ہیں۔
اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں کہ پاکستانی سیاست دان آہستہ آہستہ اعلیٰ قیمت کے ڈیزائنر ملبوسات پہننا چھوڑ رہے ہیں تو سردار مہر آپ کو غلط ثابت کردیں گے۔
وہ بہت کم وقت میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ انہیں ٹوپی اور روایتی پگڑی پہننے کا بے حد شوق ہے۔
وہ سب ہی میں کمال نظر آتے ہیں، پھر چاہے وہ پگڑی ہو۔۔۔۔
یا فیڈورا!
انہیں اپنے بچپن سے ہی پگڑی پہننے کا شوق تھا۔
شاید سردار بخش کے پاس کئی اقسام کی ٹوپیوں کا ذخیرہ موجود ہے۔
ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے دوستوں سے بھی کافی قریب ہیں۔
کچھ زیادہ ہی قریب، یہاں ہی دیکھ لیں۔۔۔
ایسے اسٹائل صرف سردار محمد بخش کے ہی ہوسکتے ہیں۔
اتفاق سے ان کے دوستوں کی ٹیم میں کوئی خاتون موجود نہیں۔
شاید لڑکیوں کو اجازت نہیں۔۔۔۔
انہیں گاڑیوں سے بھی شدید محبت ہے
بلکہ انہیں اپنی گاڑیوں اور موٹو سائیکلوں سے محبت ہے جس کی تعداد کافی زیادہ ہے
ان کے پاس تو ایک بڑی تلوار بھی موجود ہے
اور سردار صاحب کے اسٹائل کی تو کیا ہی بات ہے
ان کے مداحوں کی تعداد کا اندازہ ایسے لگایا جاسکتا ہے کہ لوگ انہیں گلوکار عاطف اسلم سے زیادہ پسند کرتے ہیں۔
لیکن کئی لوگ انہیں ناپسند بھی کرتے ہیں۔
ملبوسات کے انتخاب میں ان کی پسند کا تو جواب ہی نہیں، وہ سوٹ میں کمال نظر آرہے ہیں۔
مختلف ہیئر اسٹائل بنانے کا بھی شوق رکھتے ہیں۔
کئی لوگوں نے انہیں ہندوستانی گلوکار یویو ہنی سنگھ سے بھی ملا دیا۔
دھوپ کے چشمے ان کے اسٹائل کو مزید بہتر بناتے ہیں۔
کھیل کے دوران بھی ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اعلیٰ برانڈز کے لباس پہنے۔
سردار محمد بخش کو سفر کرنے کا بھی بے حد شوق ہے اور اس کا اندازہ ان کی تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے۔
سرداد جانتے ہیں کہ انہیں فٹ رہنے کے لیے جم جانے کی بھی بے حد ضرورت پڑے گی۔
لیکن کیا اتنا اسٹائل دکھانے کے بعد وہ کچھ کام بھی کرتے ہیں؟
شاید جب آپ کے پاس اتنا اسٹائل موجود ہو تو آپ کو کام کی فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
تبصرے (7) بند ہیں