انڈس ڈیلٹا کی آب گاہوں کا نوحہ
کہتے ہیں کہ دریا اور سمندر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں جہاں دیکھیں دریا گاتا گنگناتا سمندر کی طرف نکل پڑتا ہے، سینکڑوں ہزاروں کلومیٹر طے کرتا سمندر سے جا ملتا ہے۔ اگر تھوڑا غور کریں تو یہی ساری زندگی کی کہانی ہے۔ ہر ایک کو اپنا مسکن یاد آتا ہے، یہ تو سمندر کی فراخدلی اور دَین ہے جو دنیا کو سر سبز و شاداب رکھنے کے لیے بادل بنا کر پھر بارش کی روپ میں پانی برساتا ہے۔
دنیا میں جہاں جہاں جس جگہ دریا سمندر سے ملتا ہے اُس اراضی کو ڈیلٹا کہا جاتا ہے۔ دریائے سندھ تقریباً 2900 کلومیٹر کا طویل سفر طے کر کے اس جگہ پر 17 کھاڑیوں (creeks) کی صورت میں سمندر سے ملتا ہے اور دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ڈیلٹا ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔
تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سکندر اعظم 325 قبل مسیح میں جب سندھ کے پاتال کے مقام (موجودہ ٹنڈو محمد خان ضلع کے مشرق میں) پر پہنچا تھا تو اُس وقت وہاں تک دریا اور سمندر ڈیلٹا کی زمین بنا چکے تھے۔
پڑھیں: ذوالفقار آباد اور انڈس ڈیلٹا
یہ وہ زمانہ تھا جب سترہ کھاڑیوں کے راستے 150 ملین ایکڑ فٹ سے بھی زیادہ پانی ڈیلٹا میں بہتا تھا۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب انڈس ڈیلٹا کی اراضی کی وسعت 752,966 ہیکٹرز پر محیط تھی جو اب سُکڑ کر 6000 ہیکٹرز تک محدود رہ گئی ہے۔
یہ سب بیراج اور ڈیم بننے سے پہلے کے حقائق ہیں۔ اب کہانی ذرا مختلف ہے۔ اس لیے کہ اب ماحولیاتی تبدیلی بھی اس دکھ بھری حقیقت کا ایک جُز بن چکی ہے۔
دریائے سندھ کی سمندر سے لگنے والی پٹی 320 کلومیٹرز پر پھیلی ہوئی ہے۔ دریا اپنا سفر اس ساحلی پٹی پر آ کر ختم کرتا ہے. ماضی میں میٹھا اور زمینوں کو زرخیز بنانے والا پانی وافر مقدار میں اس پٹی پر سمندر کی طرف اپنا سفر کرتا تھا جس کی وجہ سے جھیلوں اور مختلف اقسام کے درختوں جیسے تمر، لئی اور کیکر کے جنگلات کا بن جانا ایک فطری عمل ہوتا تھا۔
یہ فطری عمل ایک ڈیلٹا کے تنوع کو تخلیق کرتا ہے اور اس کی رنگارنگی کی وجہ سے دنیا کے ڈیلٹائی خطے انتہائی خوبصورت مانے جاتے ہیں۔ ڈیلٹا کی خوبصورتی ان جنگلوں اور جھیلوں سے ہے جن میں کنول کے پھول کھلتے ہیں۔
کناروں پر سرکنڈوں اور پن کی لمبی گھاس میں تیز چونچ والی اور نغمہ سنج چڑیائیں (Reed Warbler) اپنا گھونسلا بُننے کے ساتھ چہک بھی رہی ہوتی ہیں اور ساتھ میں رام چڑیا (Kingfisher) وقفے وقفے سے اس گیت گاتی چڑیا کا ساتھ دینے کے لیے ایک سُریلی آواز نکال رہا ہوتا ہے کہ، ہم بھی ہیں جو جو سُر سے ناواقف نہیں ہیں۔
ساتھ میں پرندوں کے جھنڈ جھیلوں میں اُتر رہے ہوتے ہیں اور شمال کی ٹھنڈی ہواؤں میں کوئی خوبصورت شکرا (Marsh harrier) پرندوں کو ڈرانے کے لیے جھیل کے پانی پر جھپٹا مار رہا ہوتا ہے کہ پرندوں پر اُس کا ڈر بنا رہے۔
جھیلیں اپنے ہی اندر ایک کائنات کی مثل ہیں اور اس ڈیلٹائی پٹی پر ان جھیلوں کا ایک جال سا بچھا ہے اور ان کائناتوں کے کناروں پر انڈس ڈیلٹا کے ایک مخصوص کلچر نے صدیوں پہلے جنم لیا تھا۔
ساحل کے کنارے پھیلی گرم جھیلوں کی وجہ سے ’انڈس فلائی وے زون‘ ہزاروں برس پہلے ٹھنڈے علاقوں کے پرندوں نے ڈھونڈ نکالا تھا، جس کی وجہ سے یہاں طرح طرح کے ہزاروں پرندے ہر سال آیا کرتے تھے، اب بھی آتے ہیں بھلے ہی تعداد کم ہوگئی ہے۔ آج سے ڈیڑھ سو برس قبل جب رچرڈ برٹن یہاں آئے تھے تب انہوں نے یہاں کی جھیلوں کی گھاس، پرندوں اور خوبصورتی کے متعلق بہت تفصیلی تحریر قلمبند کی تھی۔
رچرڈ برٹن دریائے سندھ کے طاقتور بہاؤ کے لیے لکھتے ہیں کہ، ''جب سندھو دریا بہہ رہا ہو اور جوش میں ہو تو آپ رات کو اُس کے قریب کناروں پر سو نہیں سکتے، ایک تو یہ کہ دریا ہر وقت راستہ بنانے کی جستجو میں رہتا ہے اس لیے مٹی کے تودے جب سمندر میں گرتے ہیں تو ایک توپ جیسے دھماکے کی آواز آتی ہے اور ان دھماکوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
''دوسرا یہ کہ، آپ جس کنارے پر کھڑے ہیں ہوسکتا ہے کہ دریا کی طاقتور لہریں اس کنارے کو بہا لے جانا چاہیں اور اس زمین کے ٹکڑے کے ساتھ آپ بھی دریا کے سپرد ہوجائیں۔" رچرڈ برٹن کہتے ہیں کہ اتنا طاقتور، موڈی اور نخروں والا دریا میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
ہم جب ڈیلٹا کی ایک سو بیس کے قریب چھوٹی بڑی آب گاہوں کی بات کرتے ہیں، تو یہ ایک کلچر کی بات ہوتی ہے۔ ایک ایسا کلچر جسے ان کناروں اور جھیلوں نے جنم دیا۔
ان لوگوں کی کل کائنات ہی یہیں ہے۔ وہ تمام موسم انہی جگہوں پر گزارتے ہیں۔ جسم کو یخ کردینی والی شمالی ٹھنڈی ہوائیں ہوں یا ساون کی جھڑی، موسم بے رحم ہو کر بارش سے بارشی سلسلے میں بدل جائے یا ہوا کی رفتار میں تیزی آجائے اور سائیکلون بن جائیں۔ ان کی شادی کے گیت اور ان کے جنازے ان جھیلوں کے کناروں سے ہی اُٹھتے ہیں۔
پڑھیں: دریا کا درد کون سمجھے؟
میں نے جب جَاتی شہر کے زاہد اسحاق سومرو سے ان جھیلوں کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے جواب دیا کہ ’’یہ جھیلیں ہمیں فقط اس لیے یاد نہیں کہ ان کی خوبصورتی لاجواب تھی یا ہے، بلکہ اس لیے بھی یہ جھیلیں اہم تھیں اور ہیں کہ، مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش ان ہی جھیلوں پر ہے۔
ان کے گھر ان آب گاہوں کی گھاس سے ہی بنتے ہیں، ان کے بچوں کو شہر کے بچوں کی طرح اگلو آئسکریم یا ٹافیاں نہیں ملتیں، بلکہ یہ جھیلیں ہیں جو ان بچوں کو ’پن‘ سے ’بُورالی‘ (ایک زرد قسم کا پاؤڈر جو وہاں اگنے والے لمبے پتوں والی گھاس سے نکلتا ہے، مقامی لوگ اس میں چینی یا گُڑ ملاکر بھاپ پر پکاتے ہیں اور ٹھنڈی ہونے پر شیرین اور خوشبودار پیلے رنگ کے ٹکڑے بن جاتے ہیں) دیتی ہیں۔
جھیلوں میں اور بھی پھل ہوتے ہیں جنہیں مقامی لوگ اور خاص طور پر بچے بڑے شوق سے کھاتے ہیں، ان پانی کے ذائقیدار اور خوشبودار فروٹ کی شہروں میں بھی بڑی مارکیٹ ہوتی ہے مگر چونکہ اب پچاسی فیصد جھیلیں ختم ہو چکی ہیں تو آپ خود سمجھ لیں کہ کیا کیا ختم ہوچکا ہوگا۔‘‘
زاہد اسحاق کے آخری لفظوں میں ایک درد تھا کیونکہ ایک جھیل کا کسی بھی وجہ سے ختم ہوجانا ایک چھوٹی سی کائنات کا ختم ہوجانا ہے۔ جھیل کی اپنی تخلیق کی ہوئی ایک ’ایکو چین‘ مر رہی ہوتی ہے۔
پرندوں اور لوگوں کی نقل مکانی کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اس دھرتی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ ان حقائق کا ایک پینوراما بنائیں پھر آپ اندازہ کر پائیں گے کہ ایک جھیل کا مر جانا کیا ہوتا ہے۔
میں نے ڈیلٹا کے کنارے کو کئی بار دیکھا بلکہ دل کی آنکھوں سے دیکھا، میں گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل یہاں آرہا ہوں۔ یہاں ایک دکھوں کی بستی ہے۔ یہاں زندگی اتنی آسان نہیں ہے جتنی تصویروں میں نظر آتی ہے۔
دریا میں پانی کی کمی ان کی زندگی کو متاثر کرتی ہے، پانی کی کمی کی وجہ سے ان کا روایتی روزگار ماہی گیری متاثر ہوتی ہے اور متبادل روزگار کی تلاش میں انہیں اپنے گھر سے بے گھر ہونا پڑتا ہے، مچھیرے تو پریشان ہو ہی رہے ہیں ساتھ میں ہمارے صوبہ سندھ کی ثقافت کے ایک خاص پہلو بھی ناپید ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔''
آب گاہوں کی اس بربادی کی کہانی اتنی قدیم نہیں جسے ہم ڈھونڈ نہ سکیں۔1932 میں انگریزوں نے سکھر بیراج تعمیر کروایا یہ سمجھیں کہ دریا کی خوبصورت دیوانگی کو روکنے کی یہ پہلی کوشش تھی، پھر 1955 میں کوٹری بیراج بنا، 1967 میں منگلا اور پھر 1976 تربیلا ڈیم بنا۔
ان ڈیموں اور بیراجوں کی وجہ سے پانی کے فطرتی بہاؤ کو قید کردیا گیا۔ ڈیلٹا میں پانی کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ جس کی وجہ سے سمندر نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ یہ عمل ساری ڈیلٹا کی ساحلی پٹی کے لیے کوئی مثبت ثابت نہیں ہونا تھا۔
میٹھا پانی سمندر میں نہ جانے سے سمندر نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ سمندر کا زرخیز زمینوں اور جھیلوں تک چلے آنے کے دو اسباب ہیں ایک تو کوٹری ڈاؤن اسٹریم سے پانی کی کمی اور دوسرا گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندر کی لیول میں اضافیت، اس کے بعد ڈیلٹائی پٹی کی ماحولیات کو برباد کرنے میں ’سائیکلون ٹو اے‘ نے بڑی بربادی پھیلائی۔
36 گھنٹے تک چلنے والے اس طوفان نے آسمان سے 450 ملی میٹر پانی برسایا اور ہوا کی رفتار 270 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ اس سائیکلون نے اس ساحلی ڈیلٹائی پٹی کا نقشہ ہی بدل دیا۔
چھوٹی بڑی جھیلوں میں مٹی اور ریت بھر گئی اور بہت ساری جھیلوں نے اپنا وجود کھو دیا۔ جنگلی حیات، درختوں اور جھاڑیوں کے ہزاروں ایکڑ پر محیط علاقے کو بھی اس طوفان نے برباد کردیا۔
ایریگیشن سسٹم مٹی کے بھر جانے سے 60 فیصد تک تباہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ایریگیشن سے آنے والے میٹھے پانی کے راستے بھی بند ہو گئے۔
ان سینکڑوں چھوٹی بڑی جھیلوں کے ساتھ اس ڈیلٹائی پٹی کی دو مشہور آب گاہیں ’نریڑی‘ اور ’جھبو‘ بربادی کے دہانے پر پہنچ گئیں جبکہ ان دونوں آب گاہوں کو ’رامسر سائیٹ‘ کا اعزاز ملا ہوا ہے۔
نریڑی 2540 اور جھبو 706 ہیکٹرز پر پھیلی ہوئی وسیع اور خوبصورت جھیلیں تھیں۔ سردیوں کے موسم میں انڈس فلائے وے زون کے راستے یہاں لاکھوں پرندے آتے۔ یہ دونوں اپنے وقت کی مشہور مچھلی فراہم کرنے والی جھیلیں تھیں۔
چھپر بنانے کے لیے یہاں سے ’پن‘ کے ہزاروں ٹرک بھرے جاتے تھے، سردیوں کے موسم میں یہ جگہیں پکنک پوائنٹس بھی تھیں جہاں لوگ آتے، کشتیوں پر گھومتے، پرندوں کی اُڑان دیکھا کرتے۔
رات کو جھیلوں کے کناروں پر الاؤ جلاتے اور پرندوں کی آوازیں اور اُڑان دیکھ کر صبح کردیتے۔ ان دونوں جھیلوں سے مچھیروں کے چار ہزار سے زائد خاندان وابستہ تھے جن کی روزی روٹی ان جھیلوں کی وجہ سے ہی تھی۔
جب یہ جھیلیں برباد ہوئیں تو اس ساحلی پٹی سے سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی، وہ لوگ جو ان خوبصورت جھیلوں کے مالک تھے۔ اب شہروں کی چھوٹی چھوٹی کچی بستوں میں بستے ہیں۔ ان سے آپ کہیں بھی مل سکتے ہیں۔ وہ بدین، سجاول، ٹھٹھہ، ریڑہی میان اور ابراہیم حیدری میں اپنی خستہ حال زندگی جیے جاتے ہیں۔
ڈیلٹا کی اس ماحولیاتی بربادی اور بحالی کے حوالے سے میں نے جب ’یو این ڈی پی، جیف سمال گرانٹ پروگرام کے نیشنل کوآرڈینیٹر‘ محترم مسعود لوہار سے پوچھا تو جواب آیا، ’’یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ پانی کی کمی ہے، اور ڈیلٹا کے تحفظ یا اسے بچانے کے لیے جتنا پانی چاہیے وہ نہیں ہے جس وجہ سے چالیس سے زائد بڑی خوبصورت جھیلیں یا تو ختم ہو چکی ہیں یا اپنے خاتمے کے نزدیک ہیں۔ دو سو کے قریب پانی کے چھوٹے بڑے ڈپریشن ہیں جسے مقامی طور پر ’ڈھورے‘ کہا جاتا ہے۔ان کی اہمیت وہاں کے گاؤں کے باسیوں سے زیادہ اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ بارشوں یا ایریگیشن کا اضافی پانی اسٹور کرلیتے ہیں اور پھر زندگی کا سرکل یہاں شروع ہوجاتا ہے۔
"گاؤں والے وہاں سے پانی حاصل کرتے ہیں، خوراک کے طور پر مچھلی بھی وہاں سے مفت مل جاتی ہے۔ پن وہاں اگتے ہیں، جس سے مقامی گھر بنتے ہیں۔ تاہم ان پانی کے ذخیروں کو بحال کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس حوالہ سے ہم نے 2010 میں نریڑی جھیل کے ایک حصے، جو تین ہزار چورس ایکڑ پر مشتمل تھا اُس کو بحال کیا تھا۔ جہاں اُس وقت کے کنٹری ڈائریکٹر نے بھی وزٹ کیا تھا اور اُنہیں اُس بحالی پر یقین نہیں آرہا تھا. اب بدقسمتی یہ ہوئی کہ 2011 میں بارشی سلسلہ آ گیا جس کی وجہ اُس حصہ کو نقصان پہنچا۔"
مسعود لوہار کے مطابق 2014 میں ڈیلٹا کا ایک اہم پانی کا ذخیرہ ’بھنڈاری ڈھورو‘ کو انہوں نے پھر سے بحال کیا ہے۔ وہ بالکل ختم ہوگیا تھا بلکہ وہاں کانٹے دار جھاڑیاں اُگ آئی تھیں اور پینے کے پانی کا وہاں بڑا مسئلہ تھا مگر وہ پھر سے جی اُٹھا ہے اور اب وہاں کنول کے پھول کھلتے ہیں۔ ان بحالیوں کو ماڈل کے طور پر لے کر بہت حد تک بارش اور ایریگیشن کے اضافی پانی سے بحالی کا کام کیا جا سکتا ہے۔"
ایسی بھیانک صورتحال میں مسعود لوہار صاحب کی باتیں مجھے اچھی لگیں۔ ان باتوں میں اُمید کی ایک کرن تھی۔ میں جانتا ہوں کہ جیون کوئی فارمولا نہیں ہے جس سے آپ چیزیں بنالیں، یہ فطرت ہے جس کی اپنی رمز ہے پھر وہ کیسے بھی چلے۔
مگر اس رمز اور تال میں انسان اپنا حد سے زیادہ مفاد شامل کر لے تو پھر فطرت کا تال اور رمز متاثر ہوگی اور جب فطرت متاثر ہوتی ہے تو پھر انڈس ڈیلٹا کی ساحلی پٹی جیسی بربادیاں آئیں گی۔ ایسی بربادیوں کا درد اور تکلیف اگر ہم محسوس کریں تو ان کی سرحدیں نہ جانے کتنی خزاؤں تک پھیلی ہوں گی۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (8) بند ہیں