فلم بدل: پاکستان کے باشعور سینما کی ابتدا
پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک ایسی فلم بنائی گئی ہے،جس کامقصد تفریح کی بجائے تاریخ کومحفوظ کرناتھا۔پاکستانی جنت نظیر علاقہ سوات کس طرح تباہ حال ہوا، کن آزمائشوں سے گزر کراس کی رونقیں واپس بحال ہوئیں۔
اس جدوجہد میں کن لوگوں نے قربانیاں دیں،کتنی جانیں کام آئیں،افواج پاکستان نے کتنے کٹھن مرحلے عبور کیے۔
سرکاری سطح پر اعدادوشمار ہماری معلومات میں اضافہ کرتے رہے ہیں،مگر اس کے باوجوداس فلم کے منظر نامے پر کئی کردار ایسے ہیں،جن کی شناخت اورقربانیوں سے عام آدمی واقف نہیں تھا۔
جمال شاہ کی ہدایت کاری میں بنی اس فلم کا سب سے کمال پہلو یہی ہے کہ انہوں نے ان کرداروں کو شناخت دی ہے۔
یہ فلم سچے واقعات پر مبنی ہے اور جمال شاہ اس کو لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ہدایت کارانہ صلاحیتوں سے پراثربنادیا۔ یہ فلم پاکستان کی سیاسی وعسکری دور کی ایک تاریخ ہے،جس کو جمال شاہ نے فلمایاہے۔
کہانی وکردار:
فلم کی کہانی بہت متوازن ہے۔اس کا اسکرین پلے جمال شاہ نے لکھاہے،جس میں انہوں نے فکشن کاسہارالینے کی بجائے حقائق پر مبنی واقعات اورکرداروں پر انحصار کیا۔
طالبان کی فکر،ان کا ایجنڈا،اچھے اوربرے طالبان،مقامی آبادی،پشتون روایات کے حامل روشن خیال رہائشی،دلیر،نڈر،اپنے وطن سے پیار کرنے والے، افواج پاکستان کی کٹھن جدوجہد،عسکری تسلط سے آزادکروانے کی عملی کوششیں،جمہوری حکومت کی طالبان سے بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں اورپھر اس علاقے میں مقامی آبادی سے تناؤ اور ٹکراؤ کے تمام پہلوؤں کو بے حد خوبصورتی سے قلم بند کیا گیا۔
فلم میں کہیں کوئی غیرضروری تجسس ،مسالحہ یا بھرتی کے مناظر دکھائے نہیں گئے۔
فلم کی کہانی ایک سیدھی سمت میں چلتی ہوئی ظلم سے امن تک کی سچی اورواضح داستان ہے،جس کے ذریعے قومی سطح کے اس گھمبیرمسئلے کو آسانی سے بیان کردیاگیاہے۔
تنازعات سے بچنے کے لیے کرداروں کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں،مگر ان میں مماثلت اتنی ہے،ذرا سی توجہ سے آپ ان کرداروں کو شناخت کرسکتے ہیں ،بالخصوص طالبان سے متعلق جتنے اہم اورنمایاں کردار ہیں۔تاریخ کو فلم کے پردے پر محفوظ کرنے کی بہترین کوشش کی گئی ہے۔
فلمسازی وہدایت کاری:
اس تخلیقی منصوبے کی فلم ساز آمنہ شاہ ہیں۔ جمال شاہ نے مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایاکہ’’میں نے اس فلم کی فنڈنگ کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت کئی بڑے تجارتی اداروں سے گفت وشنید کی،لیکن کسی نے اس فلم میں مالی اشتراک کی حامی نہ بھری،جس کی وجہ اس کاحساس موضوع تھا،مگرمیں مصمم ارادہ کرچکا تھا،اس موضو ع پر فلم بناؤں گا،اس لیے پھرفنڈز کی عدم دستیابی کی صورت میں یہ فلم میں نے اپنے پیسوں سے بنائی،کیونکہ میں اس علاقے کے ان گمنام ہیروزکی کہانیاں بیان کرنا چاہتا تھا،جن سے عوام واقف نہیں تھے،جنہوں نے اس علاقے کی رونقیں بحال رکھنے اورانہیں پوری طرح واپس لانے کے لیے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔‘‘
ہدایت کاری کے تناظر میں دیکھا جائے،توجمال شاہ کے کیرئیرمیں اس فلم کی کلیدی اہمیت ہے،کیونکہ ابھی تک انہوں نے چھوٹی اوربڑی اسکرین پر صرف اداکاری کی تھی،اس فلم کے ذریعے ان کی ہدایت کاری کاتخلیقی سفر بھی شروع ہوا۔
اس فلم کے لیے جمال شاہ کی ہدایت کارانہ صلاحتیں قابل تعریف ہیں،کیونکہ یہ ان کا انتہائی کٹھن فیصلہ تھاکہ فلم کو سوات میں انہی مقامات پر فلمایاجائے،جہاں کچھ برس قبل طالبان قابض تھے۔
آئی ایس پی آر کی تکنیکی معاونت سے بھی فلم کامنظر نامہ مزید متاثر کن ہوا،ہیلی کاپٹر،بھاری بھرکم گاڑیوں،جدید اسلحے کے ساتھ دشوارگزارپہاڑی علاقوں پر اس فلم کی عکس بندی ایک جرات مندانہ فیصلہ تھا۔
اداکاروں کاانتخاب ،موسیقی کی ترتیب اوردیگر پہلوؤں سے جمال شاہ نے خود کو ایک اچھا ہدایت کارثابت کیا ہے۔
مستقبل قریب میں وہ تین مزید فلموں کے ساتھ بڑی اسکرین پر جلوہ گرہونے کاارادہ رکھتے ہیں،جن میں اداکاری اورہدایت کاری کی ذمے داری بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔
ان تینوں فلموں کے موضوعات بہت ہلکے پھلکے اورتفریحی ہیں،جبکہ ایک فلم کے لیے تو بھارتی اداکارہ سونم کپور سے بھی جمال شاہ رابطے میں ہیں،شاید آنے والی کسی فلم میں وہ بھی حصہ ہوں،جس طرح زیرنظر فلم میں ترک اداکارہ فلم میں اداکاری کرتی نظرآئیں۔
اداکاری اورمکالمے:
فلم کے اداکاروں میں سب سے متاثر کن فردوس جمال رہے،جنہوں نے اپنے کردار میں پوری طرح ڈوب کرکام کیا۔
ان کو طالبان اورحکومت کے درمیان صلح اورامن کی کوششیں کرتے دکھایاگیا۔
چہرے کے تاثرات ،جسم کی حرکات وسکنات سے انہوں نے اپنے کردار کو خوب نبھایا،البتہ میک اپ اورلباس متاثر کن نہ تھا،مگر اس کے باوجود وہ فلم بینوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے۔
ان کے بعد جن اداکاروں نے اپنے کرداروں سے انصاف کیا،ان میں سرفہرست ایوب کھوسہ، مائرہ خان اوربالخصوص طالبان کے استاد کے روپ میں افتخارقیصر قابل ذکر ہیں۔
دیگر اداکاروں نے بھی اپنے ہونے کااحساس دلایا،مگر یہ چند اداکار،جن کے نام درج ذیل ہیں،یہ فلم پر چھائے رہے،البتہ چند اداکاروں جیساکہ فلم میں شامل خان اورنوربخاری کے کردارانتہائی مختصر تھے۔
مجموعی طورپر جمال شاہ کی اداکاری نے اتنا متاثر نہیں کیا،شاید اس کی وجہ ان پر ٹیلی وژن کے مخصوص کرداروں کا انداز کا اثر ہونا ہے،جس سے شاید وہ دھیرے دھیرے نکل کر بڑی اسکرین کے ماحول میں ڈھل جائیں گے،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جمال شاہ نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہالی ووڈ کی ایک فلم’’کے ٹو‘‘سے کیاتھا،جس کی عکس بندی حقیقی کے ٹو کے مقام پر ہوئی تھی۔
تدوین، موسیقی،صداکاری:
فلم کے بعض مناظر میں تکنیکی غلطیاں ہیں،جس کی ایک وجہ جمال شاہ یہ بتاتے ہیں۔ ’’ہم نے اس فلم کو مکمل طورپر عکس بند کرلیاتھا،مگر لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہماری بہت ساری عکس بندی کامواد ضایع ہوا،جس کی وجہ سے کچھ مناظر دوبارہ بھی عکس بند کرنا پڑے،اس طرح کی اورکئی مشکلات تھیں،جن کے منفی اثرات نے فلم کے مجموعی معیار کو متاثر کیا۔اس کے باوجود ہم نے اپنی سی کوشش کی،تکنیکی طورپر غلطیوں کاامکان کم سے کم ہو،اس کے باجود اگر کچھ رہ جاتاہے،تو انسانی کاوش ہے،اس میں غلطی کی گنجائش رہتی ہے۔‘‘
فلم کی تدوین یعنی ایڈیٹنگ میں مزید بہتری لائی جاسکتی تھی۔فلم میں جہاں پشتو اورانگریزی زبان استعمال ہوئی،وہاں اردو زبان میں سب ٹائٹلز دیے جاتے توفلم کا حسن اور بڑھ جاتا۔
فلم کی موسیقی شاندار تھی،جس میں پشتو کاایک جدید نغمہ اورایک روایتی سدابہار گیت شامل تھا۔یہ گیت فلم کی تھیم سے مماثل تھے،اس لیے سننے اوردیکھنے میں کانوں کو بھلے لگے۔
مختلف مناظر میں صداکاری ،بالخصوص فلم کے آغازاوراختتام پر پیش کی جانے والی صداکاری متاثر کن تھی۔
جمال شاہ نے بھی اپنے لب ولہجے کا جادو جگایا،جس نے فلم کے لہجے کو تقویت دی،مگر فلم میں سب سے شاندار صداکاری اورمکالموں کی ادائیگی کا مظاہرہ کرنے والوں میں افتخار قیصر تھے،جن کے مکالموں پر صداکاری اورشاعری کا گمان ہوتاہے۔
نتیجہ:
پوری دنیا میں ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں،جن میں متعلقہ ملک کی سرکاری پالیسوں،ان کے فوجی آپریشنز،حکومتی اقدامات کادفاع کیاجاتاہے۔
دنیا کو اپنانظریہ فنون لطیفہ کے ذریعے پیش کرنے کی یہ روایت بہت شاندار ہے۔اسی سلسلے کی کڑی یہ فلم’’بدل۔Revenge of the Worthless‘‘ہے۔
فلموں کی مقبول ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی۔IMDBکے مطابق اس فلم کی شرح مقبولیت سو میں سے ستر فیصد ہے۔
دنیا بھر کے فلم فیسٹیولز میں اگر اس فلم کو بھیجا گیا تو اسے پسند کیا جائے گا،کیونکہ عالمی سطح پر ایک بہت بڑی تعداد ایسے فلم بینوں کی ہے،جن کی دلچسپی کے موضوعات میں ایسی کہانیاں شامل ہیں،البتہ پاکستان میں اس جوش وخروش سے اس فلم کااستقبال نہیں کیاگیا،جس کی یہ حق دار تھی۔
ایک وجہ بقول جمال شاہ’’سینمامالکان کارویہ ہے،وہ فلمسازوں کاساتھ دینے کو پوری طرح تیار نہیں ہیں۔‘‘
ایک اور وجہ شاید عوام کے اس موضوعاتی شعور کی کمی بھی ہے،جس کی بیرونی دنیا میں کثرت ہے،مگرقوی امید ہے مستقبل قریب میں اس طرح کی فلموں کو پاکستان میں بھی اہمیت ملے گی۔
عصر حاضر کے اہم ترین اورخطرناک موضوع پر اس فلم کاتمام فنی عملہ قابل تعریف ہے۔ایسی فلمیں پاکستان کی تاریخ کی پیش کارثابت ہوں گی،یہیں سے پاکستان کے باشعور سینما کی ابتدا ہے۔
تبصرے (2) بند ہیں