ڈاکو مارنے کی لوٹ سیل
سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل اللہ ڈنو خواجہ نے گزشتہ روز لائسنس یافتہ اسلحے سے "ڈاکوؤں" کو مارنے پر ایک شہری کو 50 ہزار روپے انعام اور تعریفی سند سے نوازا۔
آئی جی صاحب کا خیال ہے کہ لائسنس یافتہ اسلحہ سجانے کے لیے نہیں ہوتا اور شہری اسے اپنے دفاع کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ "ایک شہری نے لائسنس یافتہ اسلحے کا درست جگہ استعمال کیا ہے اس لیے وہ انعام کا مستحق ہے۔"
ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر کراچی میں فوجی اہلکاروں پر حملے کے معاملے میں شہری تعاون کرتے تو ملزمان فرار نہ ہو پاتے۔
بظاہر آئی جی سندھ کے جملوں میں کوئی خامی نہیں ہے کیونکہ کسی بھی معاشرے میں سے جرائم کا خاتمہ تب تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مکمل طور پر عوام کی حمایت اور مدد نہ شامل ہو، لیکن جب شہری قانون کو ہاتھ میں لینا شروع کر دیں تو انتہائی خطرناک مثالیں قائم ہوتی ہیں۔
پڑھیے: جنگل سے بدتر معاشرہ؟
ہمارے معاشرے میں کسی بھی شخص کو ڈاکو قرار دے کر یا اس پر توہینِ رسالت کا الزام عائد کر کے ہجوم اکٹھا کرنا اور کسی کو قتل کر دینا انتہائی آسان کام ہیں۔ مثلاً 2010 میں سیالکوٹ میں متعدد افراد نے پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں دو بھائیوں منیب اور مغیث کو ڈاکو قرار دے کر ڈنڈے مار مار کر ہلاک کیا، اور بعدِ ازاں اُن کی لاشوں کو چوک میں لٹکا دیا تھا۔ عدالت میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ دونوں بھائی بے گناہ تھے۔
اس کے علاوہ توہینِ مذہب کے الزام میں کوٹ رادھا کشن میں مسیحی میاں بیوی شہزاد اور شمع کو اینٹوں کے بھٹے میں زندہ جلانے اور لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں قائم دو چرچوں میں خودکش دھماکوں کے بعد مشتعل افراد کے ہاتھوں دو معصوم شہریوں کو زندہ جلانے جیسے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں۔
کراچی میں شہریوں کے ہاتھوں ڈاکوؤں کو زندہ جلانے کی روایت 2008 میں پولیس کی نااہلی کی وجہ سے شروع ہوئی اور اب تک ایسے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں ڈاکوؤں کو شہریوں نے زندہ جلایا ہو۔
گزشتہ دنوں بھی کراچی میں ہی مشتعل افراد نے ایک ڈاکو کو تشدد کے بعد نیم بے ہوشی کی حالت میں گندے پانی کے نالے میں پھینک کر مار دیا، اور نہ صرف یہ، بلکہ اس پورے معاملے کے دوران خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ کسی کو بھی اس واقعے پر ذرا سی بھی ندامت نہیں تھی۔
ویڈیو میں ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ بھی تو 20 روپے کے لیے قتل کر دیتے ہیں۔ اگر ذرا سا بھی غور کیا جائے، تو یہ انتہائی خطرناک رجحان کی علامت ہے۔
مزید پڑھیے: مذہبی توہین اور خودساختہ انصاف
ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام روز روز اپنے موبائل فون اور بٹوے ان ڈاکوؤں کے ہاتھوں میں جاتے دیکھ دیکھ کر تنگ آ چکے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو چار چار دفعہ اپنے موبائل فون گنوا چکے ہیں. اگر اس طرح کے لوگوں کے ہتھے کوئی ڈاکو کوئی چور چڑھ جائے، تو ایسے واقعات ہی پیش آئیں گے کیونکہ جس مجرم کو بھی پولیس کے حوالے کیا جائے، وہ چھوٹ جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا عوام کے اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینے سے جرائم کم ہوئے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عوام لاقانونیت سے تنگ ہیں اور پولیس عوام کا ساتھ نہیں دیتی، اس کے باوجود عوام کا قانون کو ہاتھ میں لینا کسی بھی صورت درست قرار نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ اس سے صرف انارکی ہی جنم لے گی۔
بہت سے لوگ اس پر یہ کہیں گے کہ جب ڈاکو رحم نہیں کھاتے تو عوام کیوں رحم کھائیں؟ ایسے لوگ یہ کہنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ ریاستی ادارے انہیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ مگر ڈاکے کے بدلے میں ڈاکو کو قتل کر دینا انصاف نہیں ہے اور اگر ان واقعات کی حوصلہ افزائی کی جانے لگی تو ہم انصاف اور ہجوم کے اشتعال میں فرق کرنے میں بحیثیتِ معاشرہ ناکام ہوجائیں گے۔
آئی جی سندھ کہتے ہیں کہ سیلف ڈیفنس کے لیے اسلحہ استعمال کرنا چاہیے۔ بلاشبہ اپنا دفاع کرنا بنیادی انسانی حق ہے، مگر ہم اس بات کو یقینی کیسے بنائیں گے کہ جن افراد کو سیلف ڈیفینس کے نام پر قتل کیا گیا ہے، وہ واقعی ڈاکو، دہشتگرد یا ٹارگٹ کلر ہی تھے؟
پڑھیے: میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں؟
ہمارے شہروں میں یا تو سی سی ٹی وی کیمرے موجود نہیں، یا موجود ہیں تو خراب ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر کسی کو ڈاکو قرار دے کر مار دیا جاتا ہے، تو یہ ثبوت کہاں سے آئے گا کہ وہ شخص ڈاکو تھا یا معصوم تھا؟
آئی جی سندھ نے بھلے ہی اسے پولیس کے عوام کے ساتھ تعلق کو بہتر کرنے کی کوشش قرار دیا ہو، مگر جس انداز نے انہوں نے تصویریں بنوا کر اس کی تشہیر کی ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر شہریوں نے 'سیلف ڈیفنس' کے نام پر ذاتی انتقام لینا شروع کر دیے تو یہ ایک خوفناک رجحان بن جائے گا۔
اس سے پولیس کے لیے قانون کا نفاذ جو کہ اس کا بنیادی کام ہے، نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو جائے گا اور سب سے اہم بات یہ کہ جب عام شہری قانون کو ہاتھ میں لینا شروع کر دیں تو معاشرے میں انصاف نہیں بلکہ انارکی پھیلتی ہے۔
آئی جی سندھ جیسے اعلیٰ پولیس افسر کو کسی شہریوں کے ہاتھوں قتل پر تعریفی اسناد بانٹنے کے بجائے ایسے اقدامات کرنے چاہیئں کہ کسی شہری کو ذاتی دفاع یا کسی بھی صورت میں اسلحہ اٹھانے کی ضرورت نہ پیش آئے۔
سب سے بڑی بات یہ کہ ایک شہری کے ہاتھوں "ڈاکو کے قتل" پر اگر اعلیٰ پولیس افسران خوش ہو رہے ہیں، تو ان سے ہی یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ آپ کے ہوتے ہوئے نوبت یہاں تک پہنچ کیوں رہی ہے کہ عوام کو خود قانون اپنے ہاتھ میں لینا پڑے؟
یقیناً پاکستان میں اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہو کر کچھ ہزار کچھ لاکھ روپے لوگوں کو دے دینا ہی سب سے آسان کام ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس میں بم دھماکوں میں ہلاک و زخمی ہونے والے شامل تھے، اب دوسروں کو ہلاک و زخمی کرنے والے بھی شامل ہو رہے ہیں۔
تبصرے (4) بند ہیں