پاناما کا خود کو بلیک لسٹ کرنے والے ممالک کو سزا دینے کا فیصلہ
پاناما سٹی: پاناما کی حکومت نے پاناما لیکس انکشافات کے بعد اسے 'ٹیکس چوروں کی جنت' قرار دے کر بلیک لسٹ کرنے والے ممالک کے خلاف اقدامات کی غرض سے ایک بل کا اعلان کردیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 'اس قانون سازی کے ذریعے اُن ممالک سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں یا افراد کے خلاف ٹیکس، تجارتی یا مائیگریشن کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں گے، جنھوں نے پاناما کے معاشی مفادات کو نقصان پہنچایا یا اس کی ساکھ خراب کرنے کا باعث بنے'۔
رپورٹ کے مطابق اس اقدام کا مقصد فرانس ہوسکتا ہے، جس نے رواں برس اپریل میں پاناما لیکس انکشافات کے بعد اسے 'ٹیکس چوروں کی جنت' قرار دے کر بلیک لسٹ میں ڈال دیا تھا۔
مزید پڑھیں:پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف
دوسری جانب اس بل کا ایک ہدف کولمبیا بھی ہوسکتا ہے، جس نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے فیصلے کے باوجود پاناما کی ٹیکسٹائل درآمدات پر محصولات عائد کردیں۔
مذکورہ بل کو بحث اور ووٹنگ کے لیے اب پاناما کی کانگریس میں بھیجا جائے گا۔
یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
آف شور اکاؤنٹس کیا ہوتے ہیں؟
• کسی بھی دوسرے ملک میں آف شور بینک اکاؤنٹس اور دیگر مالیاتی لین دین کے نگران اداروں سے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
• کمپنیاں یا شخصیات اس کے لیے عموماً شیل کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں جس کا مقصد اصل مالکان کے ناموں اور اس میں استعمال فنڈز کو چھپانا ہوتا ہے۔
تحقیقاتی صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم (انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگیٹیو جرنلسٹس) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی 'آف شور' کمپنیوں کا ریکارڈ موجود ہے۔
ان دستاویزات میں روس کے ولادمیر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاناما پیپرز کی دوسری قسط: 259 پاکستانیوں کے نام شامل
دستاویزات میں جن سیاسی رہنماؤں اور شخصیات سے متعلق جو انکشات سامنے آئے، اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی جھلک مندرجہ ذیل ہے۔
• آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعد آئس لینڈ کے وزیر اعظم کو عوامی احتجاج کے باعث مجبور ہو کر عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
• برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے والد کی قائم کردہ آف شور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔
• روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے قریبی رشتہ دار کا نام سامنے آیا، جس کے بعد روسی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ پاناما پیپرز، ان کے خلاف امریکا کی سازش ہے۔
• ارجنٹینا کے صدر ماریکیو ماکری کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا۔
• چین میں سیاسی رہنماؤں کے خاندان کی آف شور کمپنیوں سے تعلقات کی خبریں میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس پر چلانے پر پابندی عائد کردی گئی۔
• پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
• دیگر مشہور افراد، جن میں دستاویزات افشا ہونے کے بعد بے چینی پیدا ہوئی، ان میں اسٹار فٹبالر لیونل میسی، ہانگ کانگ کے فلم اسٹار جیکی چین اور ہسپانوی فلم ڈائریکٹر پیڈرو الموڈور کے نام شامل ہیں۔
ضروری نہیں افشا ہونے والی یہ دستاویزات غیر قانونی سرگرمیوں کا ثبوت ہوں کیونکہ برطانوی روزنامہ دی گارجین کے مطابق آف شور ڈھانچہ استعمال کرنا قانونی ہے۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل افشا ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جارہا ہے۔