متنازع سائبر کرائم بل 50 ترامیم کے ساتھ سینیٹ سے منظور
اسلام آباد: سینیٹ نے متنازع سائبر کرائم بل 2015 اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمٰن نے سینیٹ میں بل پیش کیا، جس پر اپوزیشن نے اعتراضات کا اظہار کیا تاہم بعدازاں ان اعتراضات کو دور کرلیا گیا اور 50 ترامیم کے ساتھ بل منظور ہوگیا۔
بل میں ہونے والی چند ترامیم یہ ہیں:
سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے قائم کی جانے والی خصوصی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف 30 دن میں ہائیکورٹ میں اپیل ہوسکے گی۔
متعلقہ حکام اس بل پر عملدرآمد کے حوالے سے سال میں 2 مرتبہ پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کریں گے۔
سیکیورٹی ایجسنیز کی مداخلت کی روک تھام کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔
بل میں 21 جرائم کی وضاحت کی گئی ہے، جن پر پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی 30 دفعات لاگو ہوسکیں گی۔
پیمرا لائسنس کے حامل ٹی وی اور ریڈیو چینلز اس بل کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گے۔
اس سے قبل رواں ہفتے 26 جولائی کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی نے متنازع سائبر کرائم بل 2015 متفقہ طور پر منظور کیا تھا، جس کے متن کے مطابق:
سائبر کرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے عدالت قائم کی جائے گی۔
عدالت کی اجازت کے بغیر سائبر کرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکیں گی۔
سائبر دہشت گردی پر 14سال قید اور 5 کروڑ روپے جرمانہ ہوگا۔
نفرت انگیز تقریر، فرقہ واریت پھیلانے اور مذہبی منافرت پر 7 سال سزا ہوگی۔
دھوکہ دہی پر 3سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
بچوں کی غیر اخلاقی تصاویر شائع کرنے یا اپ لوڈ کرنے پر 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر 7 سال سزا ہوگی۔
انٹرنیٹ ڈیٹا کے غلط استعمال پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
موبائل فون کی ٹیمپرنگ پر 3 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
موبائل فون سموں کی غیر قانونی فروخت پر 5 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
انٹرنیٹ مہیا کرنے والوں کا ڈیٹا عدالتی حکم کے بغیر شیئر نہیں کیا جائے گا۔
سائبرکرائم قانون کا اطلاق پاکستان سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر بھی ہوگا۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے لائسنس ہولڈر کے خلاف کاروائی پی ٹی اے قانون کے مطابق ہوگی۔
عالمی سطح پرمعلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجازت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔
سائبر کرائم قانون کا اطلاق پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا پر نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:متنازع سائبر کرائم بل سینیٹ کی کمیٹی سے منظور
سینیٹ کمیٹی سے منظور ہونے والے مذکورہ بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا، جہاں اپوزیشن کی 50 ترامیم کے ساتھ متفقہ طور پر منظوری کے بعد اسے دوبارہ قومی اسمبلی بھیجا جائے گا اور پھر وہاں سے بھی اگر یہی بل منظور ہوتا ہے تو اسے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا جائے گا، جن کے دستخط کے بعد یہ باقاعدہ قانون کی شکل میں نافذ ہوجائے گا۔
یاد رہے کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے بل برائے 2015 کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون 2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
بعدازاں رواں برس 14 اپریل کو قومی اسمبلی نے مذکورہ بل منظور کیا، تاہم بل کو قانونی شکل دینے کے لیے سینیٹ سے اس کی منظوری ضروری تھی۔
مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں 'متنازع' سائبر کرائم بل منظور
تاہم یاد رہے کہ اس بل کی منظوری انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت اور اس پر تحفظات کو دور کیے بغیر دی گئی تھی۔
بل کے مخالفین کا کہنا تھا کہ مذکورہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا اختیارات دینے کے مترادف ہے۔
آئی ٹی انڈسٹری کے نمائندوں نے زور دیا تھا کہ مذکورہ بل ان کی تجارت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔
یہ بھی پڑھیں:متنازع سائبر کرائم بل منظور
جس کے بعد اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا تھا، جہاں 26 جولائی کو اس کی منظوری دی گئی۔
سائبر کرائم بل کیا ہے؟
انسداد الیکٹرانک کرائم بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔
سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: سائبر کرائم بل آزادی پر خطرناک حملہ کیوں ہے؟
عام فہم انداز میں بات کی جائے تو مختلف سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی، مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔
پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکے ہیں۔
سائبر کرائم : آپ کو کیا معلوم ہونا چاہیے
ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی (کسی ای میل اکاﺅنٹ کی ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچانے اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے، تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔