فیری میڈوز: پریوں کا طلسماتی بسیرا
فیصل فاروق
''پہاڑ مجھے پکارتے ہیں تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔‘‘
یہ الفاظ مشہور اسکاٹش کوہ پیما، ماہر ارضیات اور مصنّف جان موئر کے ہیں۔ مجھ سے پوچھیں تو یقیناً یہ کیفیت کسی پر بھی وارد ہو سکتی ہے۔ مارگلہ کے دامن میں رہنے سے لے کر دریائے جہلم کا باقاعدگی سے درشن کرنے کے باوجود ہر کچھ ماہ بعد کوئی نہ کوئی پہاڑ بلا ہی لیتا ہے اور محبوب کی آواز پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے مجھے جانا بھی پڑتا ہے۔
پریوں کے دیس فیری میڈوز سے بلاوا تو کافی عرصے سے آیا ہوا تھا لیکن دنیا کی گہما گہمی سے بھاگنا اتنا آسان کہاں ہے۔ بچپن میں عمر و عیار کی کہانیوں میں پڑھے جانے والے پریوں کے دیس کے قصّے ذہن کے کسی بند گوشے میں ہمیشہ سے موجود تھے۔ حقیقی دنیا میں ایک بار داخل ہونے کے بعد بچپن کے ان رنگین خوابوں میں واپسی اگرچہ ناممکنات میں سے ہے لیکن کبھی کبھار وہ قصّے خیال کی صورت میں ذہن کے بند دریچوں کو کھول ضرور دیتے ہیں۔
ذرا پکی عمر کو پہنچے تو پریوں کے اس دیس کے قصّے مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے 'نانگا پربت' میں پڑھنے کو ملے، عمر رواں ذرا زیادہ پکّی ہوئی تو وقار ملک کے پروگرام نے دل کے کسی ایک کونے میں پریوں کے دیس جانے کی شمع جلا ڈالی۔
فیری میڈوز سطح سمندر سے 33 سو میٹرز کی اوسط بلندی پر واقع ہے۔ شاہراہِ قراقرم پر اسلام آباد سے 540 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع رائی کوٹ ہے، وہاں پختہ سڑک کا اختتام ہوتا ہے اور پھر وہاں سے کسی کرائے کی جیپ آپ کو قریب ڈیڑھ سے دو گھنٹوں میں تتو نامی گاؤں پہنچا دیتی ہے۔
موسم گرما میں رائی کوٹ میں بے تحاشا گرمی پڑتی ہے۔ پتھریلے پہاڑ اور دریائے سندھ کے کنارے کی ریت سورج سے قربت کا اظہار اپنی تپش سے کر رہی تھی۔ جیپ میں سوار ہونے کے بعد رائی کوٹ سے انتہائی چڑھائی کا ایک طویل سلسلہ آپ کے ہمراہ ہو جاتا ہے۔ گہرائی میں دریائے رائی کوٹ سے کافی بلندی پر بار بار مڑتے مڑتے تتو تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔
یہ ٹریک ہزاروں فٹ اُونچے پہاڑوں کے درمیان ایک پتھریلا راستہ ہے۔ دائیں طرف آسمان کو چھوتے ہوئے بلند و بالا خطرناک قسم کے خشک پہاڑ، بائیں طرف ہزاروں فٹ گہرائی میں طوفانی نالہ بہتا ہے اورنالے کے دوسرے کنارے پر پھر بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ قدیم زمانے کی فور ویل جیپ پتھروں پر ہچکولے لیتی مسافروں کے دل دہلاتی ہوئی آسمان کی طرف تیزی سے چڑھتی ہے۔
تھوڑی ہی اونچائی کو پہنچیں تو نیچے کا نظارہ کسی فلم کا منظر لگ رہا ہوتا ہے جسے کسی بڑی تباہی کے بعد کے لمحات کو فلمایا گیا ہو اور سیٹ کو ویسے ہی محفوظ کر لیا گیا ہو۔ ایک بڑا میدان اور چھوٹے بڑے پتھر بے ترتیبی سے، یا ان کی ترتیب ہی ایسی تھی، پڑے ہوئے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ منظر کسی دوسرے سیارے کی سیٹلائیٹ سے اتاری گئی تصویر کا ہے۔
بہت سے لوگ اس ٹریک پر جیپ کے سفر میں اپنے ان نا کردہ گناہوں کی بھی معافی مانگ لیتے ہیں جو ابھی انہوں نے کرنے ہوتے ہیں۔ لیکن میرے لیے یہ سفر بہت خوبصورت تھا، وہ نظارے اور محسوسات الفاظ میں بیان نہیں کیے جا سکتے۔ اس ٹریک پر صرف مقامی لوگ ہی جیپ چلا سکتے ہیں جن کی کمال مہارت کی داد دینی پڑے گی۔
کسی موڑ پر پہاڑوں کی اوٹ سے نانگا پربت دکھائی دے رہا ہو اور کسی موڑ پر راکا پوشی کی برف پوش چوٹی دکھائی دے تو نیچے ہزاروں فٹ گہری کھائی کے بارے میں سوچنے کا دل کس کا چاہے گا؟
جیپ کا ٹریک تتو گاؤں تک جاتا ہے وہاں سے آگے کا سفر پیدل طے کرنا ہوتا ہے یا پھر گاؤں سے گھوڑا یا خچر بھی کرائے پر لیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کے پاس زیادہ سامان ہے تو آپ تتو گاﺅں سے پورٹر کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں جو آپ کے سفر کو آسان بنانے میں مددگار ہوگا۔ جیپ سے اترے تو روزی بھائی فیری میڈوز جا رہے تھے۔
روزی بھائی خود کو 55 سال کا بتاتے ہیں، اور 13 بچوں اور ایک عدد بیوی کے ساتھ فیری میڈوز کے گاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے 4 مقامی چوٹیاں بھی سر کر رکھی ہیں، عمر کے اس حصّے میں اتنے توانا کہ 20 کلو وزن کے ساتھ ایک عدد بندے کو بھی کھینچ تان کر اوپر لے گئے تھے۔
تتو سے فیری میڈوز تک پہنچنے کے لیے ایک متواتر چڑھائی کا پیدل سفر شروع ہوتا ہے۔ چڑھائی چونکہ کافی بلندی پر ہے اس لیے کافی لوگ اس پیدل سفر کو مشکل تصور کرتے ہیں۔ میں ایسے لوگوں سے کہوں گا کہ ایسی معمولی دشواریوں کے بعد آنے والے نظاروں کا تصور کریں، ایسا تصور آپ کو اس پیدل سفر میں چلنے کے دوران حوصلے فراہم کرے گا۔ یہ پیدل سفر دو سے چار گھنٹوں میں آپ کو منزل پر پہنچا دیتا ہے لیکن مجھ سے جوان اور تازہ دم شخص کے لیے یہ دورانیہ اور بھی مختصر ہو جاتا ہے۔
اس ٹریک پر گھنا جنگل آپ کا ہمسفر رہتا ہے۔ میں جن نظاروں کے تصور کی بات اوپر کر رہا تھا، وہ نظارے نانگا پربت کی صورت میں آپ کو دکھائی دینا شروع ہوا اور آپ کو پیدل سفر کیش ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
رائی کوٹ دریا کا ماخذ رائی کوٹ گلیشیئر دکھائی دیتا ہے، اس گلیشیئر سے بہتا دریا ایک دلکش نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ غار نما گلیشیئر کا نظارہ ایسا ہے کہ وہ لوگ جو گلیشیئر دیکھنے سے قاصر رہے انہیں ایک وقت تک خود کو یقین دلانے کافی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ ایک گلیشئر کا اختتامی نکتہ ہے۔
تقریباً دو کلومیٹر کے بعد ایک ڈھابہ نظر آتا ہے جس کی چائے آپ کو دنیا کی سب سے ذائقے دار محسوس ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہم اوپر جا رہے تھے موسم بھی اپنا رنگ دکھا رہا تھا، چمکتی دھوپ کے بجائے گہرے بادلوں نے آس پاس کے پہاڑوں کو گھیر لیا تھا اور ہلکی ہلکی بارش نے موسم کو شدید رومانوی بنا دیا تھا۔ بادلوں کی وجہ سے روشنی بہت جلد غائب ہوگئی اور جب ہم فیری میڈوز پہنچے تو چارسو اندھیرا پھیل چکا تھا، چاند کی چودھویں ہونے کے باوجود نانگا پربت نے بادلوں کا گھونگھٹ ماتھے پر سجایا ہوا تھا۔
کہاں چلاس کا 38 اور فیری میڈوز کا صفر درجہ حرارت۔ ایک تو شدید تھکن اور دوسرا اتنی ٹھنڈی رات، نیند کا غلبہ تو ہونا ہی تھا۔ صبح صادق کے وقت آنکھ کھلی تو کھڑکی سے نانگا پربت کا نظارہ ایک اور ہی دنیا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اگرچہ روشنی کم تھی لیکن قاتل پہاڑ کی چمک پھر بھی برقرار تھی۔
دلچسپ پہلو یہ تھا کہ قاتل حسینہ نے برف کی سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی لیکن یہ خوشی اور منظر عارضی ثابت ہوا اور بادلوں نے ایک بار پھر پہاڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نانگا پربت کی یہی ادائیں اسے دلہن کا خطاب دلواتی ہیں، کئی لوگ اس کے دیدار کے لیے فیری میڈوز میں بیٹھے رہتے ہیں۔
نانگا پربت نے اس بار اپنے دیدار کے بغیر ہی بھیجنا تھا۔ دو دن رہنے کے باوجود نانگا پربت دیکھنے سے محروم رہے جو چند لمحوں کے لیے دیکھا تھا وہ نانگا تو نہیں بلکہ برف سے شدید ڈھکا ہوا پربت تھا۔
8125 میٹر بلند نانگا پربت پاکستان کی دوسری اور دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی کا مقام رکھتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ دنیا کی مشکل ترین چوٹی ہے اسی وجہ سے چالیس کوہ نورد ہلاک ہو چکے ہیں، لہٰذا یہ 'کلر ماؤنٹین' یا 'قاتل پہاڑ' کے نام سے شہرت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں مقامی طور پر اسے دیامر پکارا جاتا ہے اور ارد گرد کے علاقے کو بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ نانگا پربت کے نام کی وجہ تلاش کرنے پر معلوم ہوا کہ انتہائی بلند ہونے پر اس چوٹی کی سطح پر برف کا نہ ٹھہرنا ہی اسے یہ نام بخشتا ہے۔
ناشتے کے بعد میں نے اور علی نے ہوا خوری کے لیے بارش میں ہی باہر جانے کا منصوبہ بنایا۔ علی پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں لیکن میری طرح شدید آوارہ مزاج ہیں۔ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اتنی بارش، شاید پھسلن اور صفر سے کم درجہ حرارت میں بیال کیمپ پہنچ جائیں گے۔ یہ نانگا پربت کا ’سیکنڈ لاسٹ‘ کیمپ ہے۔
بیال کیمپ کے ٹریک پر بارش کی وجہ سے شدید پھسلن تھی، ایک دو جگہ ایسا محسوس ہونے کے بعد کہ ہم بھی نیچے رائی کوٹ گلیشیئر کے حصّہ بن سکتے تھے، ہم نے ایک نیا رسک لینے کا سوچا اور ٹریک چھوڑ کر جنگل کے رستے بیال کیمپ کی طرف گامزن ہو گئے۔
جنگل میں کئی قسم کے خوبصورت درخت، سبزہ زار، پھول، جھرنے اور چشموں کے پانی پر مشتمل ندی اور نہایت سریلی آواز میں گیت گاتے خوبصورت پرندے روح تک کو نئی تازگی نئی زندگی بخشتے ہیں۔
بیال کیمپ تک کا راستہ حسین ترین نظاروں کی گزرگاہ ہے۔ دائیں طرف نانگا پربت کے دامن سے نالے کی صورت اُترتا ہوا پانی اور چیڑ کے جنگلات سے بہتی ہوئی ندی اور چشمے، بائیں طرف نالے میں گر کر عجیب سماں پیدا کرتے ہیں۔ یہ راستہ پرخطر ہونے کے باوجود دنیا کی خوبصورت ترین راستوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
نانگا پربت دنیا کا وہ واحد آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ ہے جس کے دامن میں پائن کا اتنا گھنا جنگل ہے۔ (آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی کل تعداد 14 ہے جن میں سے پانچ پاکستان میں ہیں)۔ دنیا میں تمام ایسی چوٹیوں کے ارد گرد گلیشیئرز اور برفانی چوٹیاں ہوتی ہیں، جبکہ نانگا پربت کے ایک طرف دیوسائی کا دلکش میدان ہے تو دوسری جانب فیری میڈوز میں اس قدر گھنا جنگل ہے۔
لیکن جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے، حیرت کے پہاڑ ٹوٹتے گئے ہر پانچ میں سے ایک درخت کٹا ہوا تھا۔ اتنی تعداد میں کٹے ہوئے درختوں کو دیکھنے کے بعد مجے یقین کی حد تک گمان ہوا کہ کچھ سالوں کے بعد یہ جنگل یہاں موجود نہیں ہوگا. لیو ٹالسٹائی ایک جگہ لکھتا ہے کہ پُر مسرت زندگی گزارنے کی پہلی شرط یہ ہے کہ انسان اور فطرت کا بندھن ٹوٹنے نہ پائے لیکن ہم بحیثیت قوم ایسی باتوں پر سوچنا کہاں پسند کرتے ہیں۔
بیال کیمپ ایک خوبصورت وسیع سر سبز میدان نظر آیا۔ میدان کے بالکل درمیاں میں ایک صاف و شفاف ندی بہہ رہی ہے۔ ندی کے دائیں طرف بلند و بالا سرسبز پہاڑ جبکہ بائیں طرف کئی قسم کے درخت بلندی تک نظر آرہے تھے۔ بہتے پانی کا شور اس خوبصورت وادی کے حسن کو مزید سحر زدہ بنا رہا تھا۔ درجنوں کے حساب سے ہٹس بنے ہوے تھے لیکن ہمیں کوئی ذی روح دکھائی نہ دی — اس موسم میں شاید کسی کو بھی اس طرف آنے کی توقع نہ تھی۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد ہم واپس فیری میڈوز کی طرف چل پڑے۔
بارش میں ہی ہم فیری میڈوز سے نیچے رائی کوٹ کی طرف اترے لیکن میرا دل ابھی تک فیری میڈوز کے اس چوبی بینچ پر پڑا ہے جہاں سے نانگا پربت اپنے تمام زاویوں کے ساتھ کھلا دکھائی دیتا ہے، پر میں وہاں پہنچ کر بھی اس حسین پہاڑ کی خوبصورتی کو دیکھنے سے محروم رہ گیا، یا شاید نانگا پربت مجھے اس حسین جنت میں دوسری بار بلانا چاہتا تھا۔
فیصل فاروق اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں اور سیر و سیاحت کے دلدادہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (30) بند ہیں