جہاد کی پکار
یہ میرے ساتھ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔
میرے گھر والے اس بات سے بے خبر تھے کہ میں اپنی عمر کے ٹین ایج دور میں ان کے سامنے ہی شدت پسندی کی جانب راغب کر لیا گیا تھا، باوجود اس کے کہ میری زندگی پر آسائش تھی۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ دہشتگرد صرف غریب اور غیر تعلیم یافتہ لوگ ہوتے ہیں، جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں ہوتا۔
مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔
حالات و واقعات نے میری زندگی بدل دی تھی، اور شاید یہ ختم بھی ہوجاتی اگر خدا مجھے راستہ نہ دکھاتا۔ میں نے یہ بات محسوس کی کہ کسی کو بھی منظم انداز میں اس قدر برین واش کیا جا سکتا ہے کہ وہ دوسروں کی جان لینے پر آمادہ ہوجائے۔
یہ سب کیسے ہوا؟ چاندی کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہونے والا شخص آخر کس طرح نفرت اور غصے کے نظریات سے جڑ سکتا ہے؟
اس سب کی شروعات
میرے گھر والے 1990 کی دہائی کے آخر میں سعودی عرب سے لاہور منتقل ہوئے تھے۔ مجھے ایک مہنگے بورڈنگ اسکول میں داخلہ دلوایا گیا جہاں میری ملاقات ہماری نویں جماعت کے اسلامیات کے استاد سے ہوئی۔ وہ بھرے جسم کے مالک تھے اور ان کی لمبی نارنگی داڑھی تھی۔ وہ ہمیشہ بے داغ سفید شلوار قمیض اور کالی واسکٹ پہنتے تھے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ وہ 80 کی دہائی میں سوویت یونین کے خلاف لڑ چکے تھے۔ وہ افغانستان میں جب وہ ایک مجاہد جنگجو تھے، اس دور کی کہانیاں سنا کر ہمیں محظوظ کیا کرتے۔ ان کے لیکچرز کا بہت ہی تھوڑا تعلق ہمارے نصاب سے تھا اور لیکچرز میں ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں، اور ان کے ساتھ ساتھ صوفیوں، اہلِ تشیع، احمدیوں اور وہ سب جنہیں وہ مرتد، مشرک اور کافر سمجھتے تھے، ان کی گمراہی کے بارے میں جذباتی خطابات شامل ہوتے تھے۔
وہ اکثر کہتے تھے کہ ایک مومن وہ ہے جو اپنے دائیں ہاتھ میں قرآن تھامے اور بائیں ہاتھ میں تلوار؛ تاکہ دشمنوں کے سر کاٹے جائیں۔
ان کے نزدیک اسلام دشمنوں سے لڑنا ہمارا فریضہ تھا۔ اگر ہم کافروں کو کہیں بھی پانے پر قتل نہ کر دیتے، تو ہم ان مردوں جیسے ہوتے جن کے پیروں پر مہندی اور کلائیوں میں چوڑیاں ہوتی ہیں۔ یعنی سیدھا سیدھا عورت ہونے کا طعنہ۔
وہ اس بلاتفریق قتل و غارت کو 'جہاد' کا نام دیتے۔
میں 13 سال کا تھا اور میرے لیے یہ سب باتیں نہایت متاثرکن تھیں۔ مجھے ان کے طعنوں سے بے عزتی محسوس ہوتی — میں تو بالکل بھی عورتوں جیسا نہیں تھا اور یقیناً میرے پاس ایک چوڑی تک نہیں تھی۔
انہوں نے میرے احساسِ غیرت کو ابھار دیا تھا اور یہ بات مجھے ایکشن میں لانے کے لیے کافی تھی۔
مجھے ان کے پاس جانے اور ان سے پوچھنے میں صرف ایک ماہ لگا کہ میں کس طرح کافروں کے خلاف جہاد کر سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے پیسے عطیہ کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے مطابق اگر میں اللہ کی راہ میں 10 روپے خرچ کروں، تو ان پیسوں سے ایک گولی خریدی جا سکتی ہے جو ایک کافر کا سینہ چیرتی نکلے گی۔
کینٹین میں اپنی جیب خرچ ختم کرنے سے پہلے مجھ سے جو بھی معمولی رقم جمع ہو پاتی تھی، وہ میں نے انہیں دینی شروع کردی۔ 50 روپے۔ 10 روپے، 5 روپے — انہوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ گولیوں میں سے ایک حصے کا ثواب مجھے بھی ملے گا۔
پڑھیے: تعلیم یافتہ دہشتگرد ملک کے لیے بڑا خطرہ؟
اس کے بعد میں نے اس بارے میں اور زیادہ سیکھنا چاہا۔ انہوں نے مجھے پیسوں کے عوض کتابوں کی پیش کش کی۔ میں اردو بہتر انداز میں نہیں پڑھ پاتا تھا اس لیے قرآن مجید اور صحیح بخاری کے انگریزی ترجمے پڑھنے لگا۔
مگر ایک ٹین ایجر جو شہادت کے تصور سے سرشار ہو چکا ہو، اسے روزانہ صرف اسکول کا کام کرنا منظور نہیں تھا۔ آخر کار میں اپنے استاد کے سامنے حاضر ہوا اور کافروں کے خلاف لڑنے کے فیصلے کا اظہار کیا۔
انہوں نے اس کا جواب فوراً نہیں دیا اور مزید کچھ ہفتوں کے لیے مجھے ٹال دیا۔ میں ان کے پاس کئی بار گیا اور بالآخر وہ مان گئے۔
منصوبہ کچھ یوں تھا: اسکول کے آخری دن مجھے ٹریننگ کے لیے نکلنا تھا۔ مجھے اپنے ساتھ 700 روپے لانے تھے اور اپنے استاد سے ان کے گھر پر ملنا تھا۔ اس کے بعد ہمیں مینارِ پاکستان کے نزدیک بس اسٹاپ پہنچنا تھا جہاں میرا ہمسفر مجھے ملتا۔
ایک بار کیمپ پہنچنے پر مجھے اپنے والدین کو خط لکھ کر اپنا فیصلہ بتانا تھا اور خدا کی راہ میں شہادت پانے کی خواہش کا اظہار کرنا تھا۔
مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
خدائی مداخلت
جس دن مجھے نکلنا تھا، اس سے ایک رات قبل میری نانی کی طبیعت انتہائی خراب ہو گئی تھی۔ میرے خیال سے وہ عید کی چھٹیوں یا پھر سردیوں کی چھٹیوں سے پہلے آخری دن تھا۔ میں ہاسٹل میں اپنے کمرے میں پہنچا تو میرے گھر والے وہاں پہلے سے موجود تھے۔
میرا تمام ساز و سامان باندھ دیا گیا تھا اور ہم جلد ہی ہسپتال کی جانب نکل پڑے۔ میری نانی کو ہسپتال سے ایک انجیکشن کے ذریعے ہیپاٹائٹس سی کا ناقابل علاج مرض منتقل ہو چکا تھا۔
انہوں نے اپنی زندگی کے اگلے کچھ ماہ انتہائی تکلیف میں گزارے تھے۔ ان کی بیماری کی وجہ سے میرے والدین کافی پریشان ہو گئے تھے اور ان کا خیال رکھنے میں مصروف تھے، لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں باقی سال ہاسٹل کے بجائے گھر سے اسکول جایا کروں گا۔
میں نے گھر پر رہنا شروع کردیا تھا۔
اس المناک واقعے کی وجہ سے میری والدہ کو جذباتی طور پر شدید ٹھیس پہنچی اور میرے گھر والوں کے لیے وہ انتہائی مشکل وقت تھا۔ غم اور درد کے اس عالم میں میں انہیں چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ کیمپس میں میرے پاس اتنا کم وقت ہوتا تھا کہ استاد سے ملنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔
کسی بھی طرح ان کے گھر جانے کا پروگرام ہمیشہ منسوخ ہو جاتا تھا۔
اور موسمِ گرما کی چھٹیوں کے اختتام تک میں نے جہاد پر جانے کے منصوبوں کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھ دیا تھا۔
حقیقی جہاد کی تلاش
مگر اس دوران جہاد کی اصل روح سے میری واقفیت ہوچکی تھی اور وہ میرے ساتھ آج بھی موجود ہے اور میری زندگی کی تشکیل میں اس کا کردار ہے۔
سچائی سے میرے تعلق میں پاکیزگی اور یقین کے مستحکم ہونے کا ایک احساس موجود تھا۔ قرآن اور حدیث سے مجھے رحمت اور مغفرت کی روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی، خاص طور پر جب میں نے انہیں اس زبان میں پڑھا جو میں سمجھ سکتا تھا۔
سب سے زیادہ یہ کہ میں نے خود کو مکمل محسوس کیا: میں زندگی کی چھوٹی سے چھوٹی چیزوں اور واقعات میں خالق کی موجودگی سے آگاہ ہوا تھا۔
مزید پڑھیے: سندھ کا صوفی کلچر اور سانحہ شکارپور
مگر ایسی کئی باتیں ہیں جن کے بارے میں مجھے اب معلوم ہوا کہ میں ان کے معاملے میں گمراہ تھا۔ مجھ پر زور دیا جاتا کہ میں ان لوگوں کو حقیر سمجھوں جو 'ناقص' عقیدے رکھتے ہیں؛ میں جن سے لڑنا چاہتا تھا ان کو انسان تک نہیں سمجھتا تھا، اور میں نے کسی کی جان لینے کو انتہائی معمولی بات سمجھ لیا تھا — جیسے کہ کسی تنگ کر رہے مچھر کو بغیر کسی افسوس کے مار دیا جائے۔
جب میں نے یہ جانا کہ میں اندھیروں سے بھرپور ایک خطرناک راستے کا مسافر تھا، تو میں نے زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی تاکہ میں اپنے سوالوں کے جوابوں اور حق کی تلاش کرسکوں۔
میں یہ ضرور کہوں گا کہ ہر جواب نے میرے ذہن میں مزید سوالوں کو جنم دیا ہے، اور میں نے آخر میں یہی جانا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔
میں نے اسلام کو علم کا عظیم سمندر پایا ہے جس میں بے پناہ فلسفہ، دانش اور سچ پھیلا ہے اور میں نے اپنی گنگہار زندگی میں اب تک اس کی محض سطح کو ہی چھوا ہے۔
میں عالم و فاضل ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا مگر بطور متلاشیء حق اور ایک طالب علم کے میں نے سمجھا ہے کہ حلال و حرام کی فہرست تک اسلام کو محدود کرنا دین کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی ہوگی۔
شاید یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان باہمی نفرت اور دشمنی رکھنے والے فرقوں میں بٹ گئے ہیں۔
ٹریننگ کیمپ جوائن کرنے کی میری کوشش ناکام ہونے سے اب تک کے سالوں میں نے ایک ایسے جہاد کی پکار محسوس کی ہے جو میرے مطابق حقیقی جہاد ہے۔
میں مختلف کریئرز میں کام کر چکا ہوں؛ فنانس، ٹیلی کام، ایڈورٹائزنگ، پبلشنگ، اور یہاں تک کہ اپنی مادرِ علمی میں پارٹ ٹائم ڈبیٹ کوچ بھی رہا ہوں۔
مگر ہر بار میں کریئر میں مستحکم ہونے کے بعد اس راستے کو چھوڑ دیا۔ میں بے چین رہا اور دنیاوی جدوجہد میں اطمینان اور سکون کو تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔
16 دسمبر 2014 کے بعد میرے دل میں وہی ایک بھولی بسری جہاد کی ایک پکار سنائی دی۔ اس بار یہ پکار انتہائی شدید تھی لہٰذا میں نے کارپوریٹ ذمہ داریوں سے خود کو مکمل طور پر آزاد کر دیا۔
پھر میں نے ایک نئے کل وقتی مشن پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا: وہ مشن تھا ہمارے معاشرے سے مذہبی انتہاپسندی کے مسئلے کو حل کرنا۔
اب میں اسکول کے بچوں کے لیے کہانیاں اور کامک بکس لکھتا ہوں۔ میری سیریز مذہبی انتہاپسندی کے مسئلے کو نمایاں کرتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ بچے معاشرے میں موجود زہریلی نفرت کو مسترد کردیں۔
میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں خود کو دہشتگرد حملوں میں اپنی جانیں کھو دینے والے ان تمام معصوم مردوں، عورتوں اور بچوں کی اموات کا کچھ حد تک ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں خود کو ہماری جانوں کی حفاظت کے لیے قربانی دینے والوں کا قرض دار سمجھتا ہوں۔ اور وہ نامعلوم لاکھوں لوگ جو اسلام کے خالص اور لازوال سچ کے بجائے مذہب کی غلط اور نفرت انگیز تشریح کے ذریعے گمراہی کا شکار ہیں، میں اصلاحی طور پر ان کے کام آنا چاہتا ہوں۔
آپ میں سے ہر وہ شخص جس نے میرا اتنا طویل مضمون پڑھا ہے، مجھے لگتا ہے کہ آپ بھی وہ پکار محسوس کر چکے ہیں۔ اگر آپ کو وہ پکار محسوس ہوئی ہے تو پہلے اطمینان سے اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور پھر اپنی قابلیت اور حیثیت کے مطابق جتنا ہو سکے اپنا کردار ادا کیجیے۔
یہ وقت سچ بولنے کی جرات کرنے والوں کے لیے بہت خطرناک ہے، اس لیے اگر آپ کوئی اقدام اٹھا سکتے ہیں یا کھل کر بات کرسکتے ہیں تو پھر آپ کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔
میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ کوئی دوسرا 16 سالہ برین واش شدہ لڑکا اپنے ہی جیسے 12 سالہ لڑکے کو مار کر جنت میں جانے کی امید رکھے، اور پھر یا تو دہشتگرد کہلوا کر اپنے ہی ملک کے کسی فوجی کے ہاتھوں مارا جائے یا پھر کسی غیر ملکی ڈرون حملے میں اڑا دیا جائے۔
میں ایسا اس لیے کرتا ہوں کیونکہ اگر خدانخواستہ کل کو آپ کے بچوں میں سے ایک یا کسی پیارے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے، تو میں یہ احساسِ ندامت نہیں محسوس کرنا چاہتا کہ اس سب کو روکنے کے لیے میں کچھ کر سکتا تھا یا کہہ سکتا تھا۔
تبصرے (5) بند ہیں