• KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am
  • KHI: Fajr 5:06am Sunrise 6:23am
  • LHR: Fajr 4:28am Sunrise 5:50am
  • ISB: Fajr 4:29am Sunrise 5:54am
شائع July 23, 2016

وادیء کاغان کی جھیل سیف الملوک کے بارے میں کئی افسانوی کہانیاں مشہور ہیں۔

کہتے ہیں کہ چاندنی رات میں جھیل سیف الملوک پر پریاں اترتی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود پریوں کو دیکھا ہے۔ اسی طرح سے گلگت بلتستان کے بتورا گلیشیئر کے بارے میں کسی نے کہا تھا کہ وہاں پر راج ہنس اترتے ہیں۔

میں نہیں جانتا کہ ان کہانیوں میں کوئی سچائی ہے یا نہیں، لیکن یہ جگہیں اتنی خوبصورت ضرور ہیں کہ یہاں اگر چاندنی رات گزار لی جائے، تو انسان واقعی دنیا سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔

ایسی ہی ایک جگہ جھیل 'درال' ہے جو خیبر پختونخواہ کی خوبصورت وادیء سوات میں سطحِ سمندر سے گیارہ ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

درال جھیل فلک بوس پہاڑوں کے درمیان گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقعی ہے۔
درال جھیل فلک بوس پہاڑوں کے درمیان گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقعی ہے۔

جھیل تک پہنچنے سے پہلے سارے راستے خوبصورت مناظر ٹریکرز کا استقبال کرتے ہیں۔
جھیل تک پہنچنے سے پہلے سارے راستے خوبصورت مناظر ٹریکرز کا استقبال کرتے ہیں۔

درال جھیل، سیدگئی جھیل کے شمال مشرقی طرف واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی گیارہ ہزار پانچ سو پچاس فٹ ہے۔ درال دراصل شولگرہ اور سیدگئی جھیل کے درمیان واقع ہے۔

ٹریکنگ کا تجربہ رکھنے والے دو دنوں میں باآسانی مذکورہ تینوں جھیلوں کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ فلک بوس پہاڑوں کے درمیان چھپی اس جھیل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کئی راستے ہیں۔ ایک راستہ مدین، بحرین کے پہاڑوں کے درمیان سے ہوتا ہوا جھیل تک پہنچتا ہے۔ مقامی لوگ اسے نسبتاً مشکل تصور کرتے ہیں۔

دوسرا راستہ تحصیل مٹہ سے ہوتا ہوا مانڈل ڈاگ اور سلاتنڑ کے پہاڑوں کے درمیان سیدگئی جھیل سے آگے درال تک پہنچتا ہے۔ اس طرح تیسرے اور نسبتاً آسان راستے کے لیے وادیء لالکو تک فور بائے فور جیپ کے ذریعے رسائی حاصل کرنا ہوتی ہے۔

لالکو سے درال تک پہنچنے کے لیے بھی دو راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر سیاحوں کی اپنی مرضی ہے کہ وہ سیدھا درال جھیل تک جلد از جلد پہنچنا چاہتے ہیں یا پھر وہ قدرت کے نظاروں سے لطف اٹھانے کے لیے وادیء لالکو کی سب سے خوبصورت جگہ گبین جبہ کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟

درال جھیل تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی ٹریکنگ کرنی پڑتی ہے۔
درال جھیل تک پہنچنے کے لیے اچھی خاصی ٹریکنگ کرنی پڑتی ہے۔

ٹریکنگ طویل ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ راستے میں قیام بھی کرتے ہیں۔
ٹریکنگ طویل ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ راستے میں قیام بھی کرتے ہیں۔

لالکو کے اڈے میں گاڑی سے اترنے کے بعد پچیس تیس منٹ کی پیدل مسافت پر فلک بوس پہاڑوں کے درمیان ایک اچھی خاصی ٹریک جھیل تک رسائی میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کو بجا طور پر پہلا راستہ کہا جاسکتا ہے۔ اس مقام کو ’کاڑ خوڑ‘ کہتے ہیں۔ ’کاڑ‘ اس بجری یا چھوٹے بڑے پتھروں کی اچھی خاصی مقدار کو کہتے ہیں جو سیلابی ریلے میں پہاڑوں سے بہہ کر زمینی علاقوں تک پہنچتی ہے جبکہ ’خوڑ‘ کے لیے اردو میں لفظ ’ندی‘ مستعمل ہے۔

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے سرسبز و شاداب وادیء لالکو کے درہ کاڑ خوڑ تک ستاون اٹھاون کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس میں ستر پچھتر فی صد سڑک کی حالت تسلی بخش ہے۔

کاڑ خوڑ سے آگے گھنے جنگلات اور ہرے بھرے مرغزاروں کی سرزمین گبین جبہ یا گبینہ جبہ کا آغاز ہوتا ہے۔ شہد کو پشتو زبان میں گبین یا گبینہ کہتے ہیں جبکہ وہ مقام جہاں زمین دلدل نما ہو، اس کو پشتو میں جبہ کہتے ہیں۔

گبین جبہ میں بڑی بڑی چراہ گاہیں ہیں جہاں ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے سیاحوں نے خیمے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور ہر طرف سے روایتی ساز رباب منگے کی مسحور کن موسیقی کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے۔ من چلے ڈھولک کی تاپ پر رقص اور بنگڑے ڈال کر رہی سہی کسر پورا کر دیتے ہیں۔

جولائی کے مہینے میں جہاں ملک کے دیگر علاقوں میں جھلسا دینے والی گرمی اور حبس زدہ ماحول ہوتا ہے، وہاں گبین جبہ میں سیاح دن کو سوئیٹر یا جیکٹ وغیرہ پہنے اور سرِ شام اونی چادر اوڑھے دیکھے جاسکتے ہیں۔

طویل ٹریکنگ کے بعد جب جھیل سامنے آتی ہے تو ساری تھکن اتر جاتی ہے۔
طویل ٹریکنگ کے بعد جب جھیل سامنے آتی ہے تو ساری تھکن اتر جاتی ہے۔

جھیل اتنی وسیع ہے کہ اس کا چکر لگانے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔
جھیل اتنی وسیع ہے کہ اس کا چکر لگانے میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے۔

سیاحوں کی زیادہ تعداد میں آمد نے جہاں اس علاقے کو شہرت سے ہمکنار کیا ہے، وہاں اس کے حسن کو ماند کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، کیونکہ سیاح جتنی کثرت سے یہاں کا رُخ کرتے ہیں، اتنا زیادہ گند بھی چھوڑ جاتے ہیں۔ بڑی تعداد میں پلاسٹک بیگ اور کاغذ کے تھیلے جا بجا بکھرے پڑے نظر آتے ہیں۔

گبینہ جبہ سے تقریباً بیس پچیس منٹ کی مسافت پر ’چڑو بانڈہ‘ کے مقام پر چرواہوں کے دو تین گارے مٹی اور پتھروں کے تعمیر شدہ کوٹھے ملتے ہیں جن میں رات باآسانی گزاری جاسکتی ہے۔ کیمپنگ کا شوق رکھنے والوں کے لیے اس مقام پر ایک چھوٹا سا مرغزار ہے جہاں بھیڑ بکریاں بھی چرتی دکھائی دیتی ہیں۔

یہاں سے آگے درال جھیل کا سفر شروع ہوتا ہے۔ وادیء لالکو میں درال جھیل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اسے بجا طور پر دوسرا راستہ کہا جاسکتا ہے۔

ٹریکنگ کے عادی مسلسل چھ تا سات گھنٹوں میں چڑو بانڈہ کی فلک بوس پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ سکتے ہیں۔ مذکورہ پہاڑ میں ہر پندرہ بیس منٹ کی پیدل مسافت پر میٹھے پانی کے جھرنے ملتے ہیں۔ چوٹی تک پہنچنے سے کوئی بیس پچیس منٹ پہلے پانی نایاب ہوجاتا ہے، اس لیے بہتر یہ ہے کہ اپنے ساتھ پانی کی بوتل احتیاطاً ساتھ لے لی جائے۔

چوٹی سے تقریباً آدھے گھنٹے کی اترائی کے بعد جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے۔ پہلی نظر میں جھیل پر ایک ایسے عقاب کا گمان ہوتا ہے جو ہوا میں پر پھیلائے اپنے لیے کسی شکار میں کی تلاش میں ہو۔ وہاں سے مزید آدھا گھنٹہ دشوار گزار راستے سے اترائی کے بعد جھیل کی سطح تک پہنچا جاسکتا ہے۔

جھیل کے ایک مخصوص مقام سے اگر درمیانی چال چلتے ہوئے گھومنا شروع کیا جائے، تو یہ اتنی وسیع ہے کہ واپس اس مقام تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ صرف ہوتا ہے۔

درال جھیل۔
درال جھیل۔

درال جھیل۔
درال جھیل۔

سوات کی بیشتر جھیلوں کے حوالے سے کہانیاں مشہور ہیں جن میں سیاح کافی دلچسپی لیتے ہیں۔ جیسے کنڈول جھیل کے متعلق کہانی مشہور ہے کہ رات کو اس کے بیچ میں سے ایک سونے کا ایک پیالہ نکلتا ہے۔

درال جھیل کے حوالے سے بھی ایسی ہی دو الگ الگ فرضی کہانیاں مشہور ہیں۔ چڑو بانڈہ کا چودہ سالہ اصیل زادہ کہانیاں کچھ یوں بیان کرتا ہے: ’’ہم نے اپنے بڑوں سے سنا ہے کہ چودھویں رات کو عین جھیل کے وسط سے ایک گھوڑا ہنہناتا ہوا نمودار ہوتا ہے اور کچھ دیر کے بعد واپس جھیل کے پانی میں غوطہ لگا کر ڈوب جاتا ہے۔ ہمارے بڑوں نے اسے دیکھا ہے۔ ان بڑوں میں سے کسی ایک سے میں نے یہ کہانی سنی ہے۔ دوسری کہانی میں رات کو جھیل سے ایک تلوار اور ڈھال کے نکلنے کا حوالہ مشہور ہے۔‘‘

گرچہ درال جھیل میں ہر طرف سے پگھلتے ہوئے گلیشئرکا یخ پانی شامل ہوتا ہے مگر جھیل کے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ یہ غیر متوقع طور پر گرم ہے۔

عموماً درال جھیل کی سیر کے لیے ماہِ جولائی کے اوائل سے ستمبر کے اواخر تک کا دورانیہ موزوں ترین ہے۔ اگر آپ ان گرمیوں میں کہیں گھومنے جانا چاہتے ہیں تو درال کو اپنی فہرست میں سب سے اوپر رکھیں۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (14) بند ہیں

Bilal Iqbal Jul 23, 2016 03:32pm
Amjad sahb very nice article
khalid ayub Jul 23, 2016 05:32pm
ham is eid daral gae the bht khobsorat jaga hai masha Allah hokomat ko wahan k roads par tawajuh dena chahiye ta k ziada se ziada log daral lake dekh sakay
احسان علی خان Jul 23, 2016 05:51pm
Wahhh...bohut khoob
Khan Jul 23, 2016 06:12pm
السلام علیکم میرے بچپن میں یہ تمام پہاڑ درختوں سے آباد تھے مگر سیاسی سرپرستی کے حامل ٹمبر مافیا نے اکثر درختوں کا صفایا کردیا اور اب صرف گنے چنے درخت ہی موجود ہیں۔ سیاحوں سے گزارش ہے کہ صرف ایک درخت لگایا کریں اور اپنے ساتھ لایا کچرا واپس لے جایا کریں۔ شکریہ خیرخواہ
kashif Jul 23, 2016 07:06pm
آرٹیکل پڑھ کر اندازہ ہورہا ہے کہ کافی دشوار گزار راستہ ہے اور ایک دن میں اسے گھوم کر واپس مینگورہ ہنچنا نا ممکن ہے ؟؟؟
almas ahmed Jul 23, 2016 09:07pm
Beautiful place, looks like a heaven. In Pakistan the natural beauty is non-comparable. I visited Banff, Rocky mountains, Canada, many places in America. But due to lots of constructions, public attractions the charm of natural beauty has been lost, In Pakistan the remote areas of NWFP and Baluchistan are breathtaking. Please preserve the natural beauty of these area by not creating pollution. Government of Pakistan should build roads, tourists lodges, nice washrooms and security to enhance the income source for local people and conveniences for the tourists.
Babar Ali Jul 23, 2016 09:25pm
Well written as always!
Babar Ali Jul 23, 2016 09:28pm
Well written as always!
Babar Ali Jul 23, 2016 09:26pm
Well written as always!
Babar Ali Jul 23, 2016 09:26pm
Well written as always!
Aman uddin Jul 23, 2016 09:29pm
ڈان نیوز اور محترم امجد علی سحاب کا بہت شکر گزار ہیں جس نے اس دنیا سے فنا جنت نظیر وادی اور جھیل سے ہمیں اشنا کردیا۔اللہ فرزند سوات امجد علی سحاب صاحب کو اور توفیق اور ہمت عطاء کریں کہ وہ اپنے درتی ماں اور قوم کے خدمت اس سے بھی اچھے طریقہ سے کریں سحاب صاحب سوات اور اہلیان سوات اپکی خدمت کا معترف بھی ہے اور اپ پر ہمیں ناذ بھی ہیں سدا سلامت اور خوش رہوں
haider uddin Jul 24, 2016 04:05am
It is very nice to learn that Pakistan has such nice and beautiful place.Very nicework by Amjed Ali . Thanks very much
Noorulhaq Jul 24, 2016 07:48pm
بہت خوبصورت جگہ ھے اب جانا پڑے گا
Rafiq Ullah Jul 24, 2016 11:21pm
واہ ،کیا نقشہ کھینچا ہے۔زبردست